نظریاتی اختلافات اور اخلاقی ذمے داری

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 18 اپريل 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما قمر الزمان کو پھانسی دے دی گئی۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر بنگلہ دیش سے غداری کا الزام ہے اور اس الزام میں اب تک جماعت کے کئی رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں سے ایک قمر الزمان بھی تھے۔ جماعت اسلامی سے بہت سارے اہل خرد کو سخت نظریاتی اختلاف رہا ہے اور اب بھی ہے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک انتہائی منظم جماعت ہے اور اس کے کارکنوں کی تعداد بھی ہزاروں سے زیادہ ہے۔

چونکہ جماعت کے کارکنوں کی تربیت نظریاتی بنیادوں پر کی جاتی ہے اس لیے یہ کارکن جماعت کی پالیسیوں پر عمل در آمد میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن یہ جماعت اپنے منفرد منشورکے باوجود عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے اگر عام انتخابات میں جماعت کے رہنما کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں تو یہ کامیابی ان کی شخصیت اور ذاتی اخلاقیات کے نتیجے میں حاصل ہوئی جماعت کے نظریات جماعت کے منشور کا ان کامیابیوں میں براہ راست کوئی دخل نہیں رہا، بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی بہرحال پاکستان کی جماعت اسلامی کا ہی ایک حصہ ہے جو 1971 سے پہلے متحدہ جماعت اسلامی ہی تھی، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما قمر الزمان کی پھانسی کے رد عمل میں جماعت اسلامی پاکستان کو ایک پرامن احتجاج کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اس بڑے نقصان پر مطلوبہ رد عمل ظاہر نہ کرسکی۔

پاکستان بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ بھارت اورکشمیر میں بھی جماعت اسلامی ایک منظم جماعت کے طور پرکام کررہی ہے لیکن موجودہ یا اپنے نظریات کی وجہ جو جدید دور کے تقاضوں سے عموماً ہم آہنگ نہیں ہوتے اسے کامیابیاں نہیں ملیں ، جماعت اسلامی اپنی ہیئت ترکیبی میں مڈل کلاس کی جماعت ہے اور اسے ایک باشعور مڈل کلاس کا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس کرپٹ نظام کی تبدیلی میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے لیکن یہ جماعت عملاً ایلیٹ کے استحصالی نظام کی حامی رہی حالیہ عمران حکومت اختلافات کے موقعے پر بھی جماعت کا کردار مفاہمتی رہا اور حکومت کو اس کردار سے بڑا سہارا ملا۔

قمر الزمان سمیت جن رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان پر الزام ہے کہ انھوں نے 1971کی ’’جنگ آزادی‘‘ کے خلاف سازشیں کیں اور بنگالیوں کے قتل عام میں کردار ادا کیا۔ 1971 کا حادثہ  حکمرانوں کی مفادپرستی اور ہوس اقتدار کا نتیجہ تھا۔ جنرل یحییٰ خان مشرقی پاکستان کو قابو میں رکھنے کے لیے جن سخت گیر پالیسیوں پر عمل پیرا تھے اس کا انجام یہی ہونا تھا جو ہوا لیکن 1971 کے المیے کی ذمے داری کسی ایک جماعت پر نہیں ڈالی جاسکتی،  مجیب الرحمن کی مکتی باہنی نے بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں غیر بنگالیوں کو بیدردی سے قتل کرکے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ 1971 میں جماعت اسلامی نے جو کچھ کیا اس وقت وہ متحدہ پاکستان کا حصہ تھی اور متحدہ پاکستان کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی جماعت جد وجہد کرتی ہو تو اس پر ملک دشمنی کا الزام اس لیے نہیں لگایا جاسکتا کہ اس وقت تک ملک ایک ہی تھا اور اگر مکتی باہنی نے لاکھوں غیر بنگالیوں کو قتل کیا تو اس نیغلط عمل کی پیروی کی،الشمس اور البدر پر ایسے ہی الزامات ہیں یوں یہ دونوں ہی جماعتیں یا طاقتیں قتل و غارت کے عمل اور رد عمل کے ایک ہی پیج پر آجاتی ہیں اس پس منظر میں 45 سال بعد بغاوت کے الزام میں مبینہ ملزمان یا مجرمان کو پھانسی کی سزا دینا اور اس پر عمل در آمد کرنا نہ قرین انصاف ہے نہ منطقی ہے۔ قمر الزمان کی پھانسی پر پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ 45 سال بعد مبینہ مجرموں کو پھانسی دینا کہاں کا انصاف ہے۔

نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن کسی نا انصافی کے خلاف محض نظریاتی اختلافات کی وجہ سے خاموش رہنا بھی نظریاتی بد دیانتی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف جو مظالم ہوتے رہے اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع مجھے 1970 میں اس وقت چلا جب میں نیب کے ایک وفد کے ساتھ ڈھاکا گیا تھا اس کی تفصیل بیان کرنا اس لیے بے فائدہ ہے کہ اس پر اب تک بہت کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے۔

1970 میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی سے ملاقات اور ڈھاکا کی صورت حال دیکھ کر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مشرقی پاکستان کا زیادہ دیر پاکستان کے ساتھ رہنا مشکل ہے لیکن یہ حالات نہ مشرقی پاکستان میں قتل ہونے والے لاکھوں بنگالیوں کے پیدا کردہ تھے نہ یہاں قتل ہونے والے لاکھوں غیر بنگالیوں پر اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے جو لوگ ان المیوں کے اصل ذمے دار تھے وہ تو محفوظ رہے بے گناہ بنگالی اور غیر بنگالی جرم بے گناہی میں لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے اور ان جرائم سے پردہ اٹھانے والی رپورٹ کو دبادیاگیا۔

اگر بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی حکومت کے خلاف کوئی سازش کررہی ہے تو اس کا احتساب نہ غیر قانونی ہوگا نہ غیر اخلاقی اگر 45 سال بعد ایک متنازعہ جرم میں کسی فرد یا افراد کو سزائے موت دی جارہی ہے تو یہ غیر قانونی بھی ہے، غیر اخلاقی بھی، جیسا کہ ہم نے کالم کی ابتدا میں وضاحت کی ہے۔ جماعت اسلامی سے بے شمار عوام اور خواص کو شدید اختلاف ہیں اور جماعت اسلامی کے نظریات سے عوام اس حد تک بدظن ہیں کہ 1970 سے 2013 تک انھوں نے ہر انتخابات میں جماعت کو مسترد کردیا ہے لیکن کسی نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے گریز کرنا بذات خود ایک نا انصافی ہے۔

کراچی کے حلقہ نمبر 246 کی الیکشن مہم تین جماعتوں کے درمیان انا اور مستقبل کی جنگ بن گئی ہے اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ جماعت اپنے ایک اہم نظریاتی رفیق قمر الزمان کی پھانسی کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج بھی نہ کرسکی البتہ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے احتجاج اور ہڑتال کرکے اپنی نظریاتی ذمے داری پوری کردی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جماعت کو ابھی تک اپنے نظریات کی وجہ سے عوام کی وسیع پیمانے پر حمایت حاصل نہ ہو سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔