محبوب رب العالمینؐ

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 1 دسمبر 2017
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

رحمۃ اللعالمین، محبوب رب العالمین اور جو ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کا سرِ نہاں ہو، اس کی شخصیت و سیرت کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے کوئی عنوان ممکن نہیں۔ کیونکہ علم و فہم کا بیان اور آپؐ کی ذات کا عرفان قطرہ و قلزم کی مثال رکھتے ہیں۔

داستانِ حسن جب پھیلی تو لامحدود تھی
اور جب سمٹی تو تیرا نام ہوکر رہ گئی

اللہ رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی عزت و شہرت اور رفعت و عظمت کو چار چاند لگانے کے لیے اپنے اسما الحسنیٰ میں سے کچھ اسما بطور خاص عطا فرمائے مثلاً عادل، شہید، حکیم، عزیز، رؤف، رحیم، غنی، نور، فتاح، حق، قائم، عالم، اول، آخر، ظاہر، باطن، بر، شکور، حسیب، حافظ، ہادی، رشید، مومن وغیرہ۔

آسمان کا یہ فیضان الٰہی عظمت النبیؐ کی دلیل ہے۔

خدا آخر خدا ہے اس کی عظمت کا تو کیا کہنا
خدا کے بعد جو کچھ بھی ہو محبوبِ خدا تم ہو

تمام خوبیاں آپؐ کی خصلتیں تھیں۔ ہر وہ اچھی ادا جو دل کو بھائے آپؐ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپؐ کی ہر خصلت حسین اور ہر ادا دلنشیں تھی۔ یقین محکم، عمل پیہم، محبت، رحمت، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ، آپؐ کی ذات ان صفات کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ آپؐ کی عظمت کا راز آپ کی عبادت، ریاضت، صداقت، طہارت، عدالت، شجاعت، سخاوت، شرافت، محبت، محنت اور خدمت میں مضمر تھا۔

رسول اللہؐ کے اخلاق کی مختصر مگر جامع انداز میں تعریف و توصیف ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یوں فرمائی کہ قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔ آپ مجسم قرآن تھے۔ قرآنی صفات محمودہ سے سب سے بڑھ کر آپؐ کی ذات متصف تھی۔ اسی طرح قرآنی صفات مذمومہ سے سب سے زیادہ آپؐ کی ذات پاک و صاف تھی۔ آپؐ نے اپنی ذاتی تکلیف کا کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ جب کاموں میں سے ایک کام کا انتخاب آپؐ کی مرضی پر موقوف ہوتا تو آپؐ آسان کام کو مشکل کام پر ترجیح دینا پسند فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو اور وہ گناہ ہوتا تو آپؐ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے۔

جس طرح خدا اپنی ذات اور صفات میں تمام اشیا سے جدا ہے۔ اسی طرح اس کا محبوب اپنی ذات اور صفات میں تمام انسانوں سے منفرد اور ممتاز ہے۔ جس طرح اللہ کا کوئی ہم سر نہیں اسی طرح رسول اللہؐ کا ہم سر کوئی بشر نہیں۔ یہ جذبات کی بات نہیں، ایک حقیقت ہے کہ ساری مخلوق میں کوئی نہیں ہے نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہوگا جو آپؐ کی طرح جامع الصفات ہو۔

آپؐ نے زندگی بندگی کے لیے، دن اقامت دین کے لیے اور رات اللہ سے بات کے لیے مخصوص کر رکھی تھی۔ آپؐ کے خلق عظیم نے آپؐ کو رب کا محبوب ہی نہیں، سب کا محبوب بنادیا۔ صاحب بصیرت ہندو، مسلم، سکھ عیسائی سب آپ کی تعریف و توصیف کرتے اور آپؐ کی شان رحمت کو سلامی دیتے ہیں۔

شہ لولاک من موہن اخلاق کی تصویر مجسم تھے۔

سیرت پاکؐ، نرم گفتگو اور گرم جستجو کے ذریعے زمانے کے چلن کو دین کے تقاضوں کے مطابق بدلنے، حالات کے رنگ کو اللہ کے رنگ میں رنگنے اور زمانے کی امامت پر قابض ہونے تک، خالق کی رضا کے پیش نظر اس کی مخلوق کی فلاح صلاح کی خاطر مخالفت اور عداوت کی فضاؤں میں گھل گھل کر جینے میں روحانی لطافت اور حقیقی سعادت حاصل کرنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔

زمانے کے تقاضوں سے مصالحت اور مطابقت اختیار کرنا، زمانے کے آگے زانوائے تلمذ تہ کرنا، دنیا سے نکاح کرنا اسے حق مہر میں اپنا سارا دین لکھ دینا، ’’چلو تم ادھرکو جدھر کی ہوا ہو‘‘ کی بات کرنا۔ یہ سب ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں اور بدعت ہیں۔ بدعت کی تعریف کرنے والے، اس کو شروع کرنے والے، اس کے لیے فکر گستاخ سے جواز نکالنے والے، اس کی تشہیر کرنے والے، اس کو اختیار کرنے والے، سب پر محبوبؐ خدا کے الفاظ میں ’’خدا کی لعنت ہو۔‘‘ بدعت کا لازمی نتیجہ ذلت ہے اور سنتؐ کا نتیجہ اللہ کی محبت، رحمت اور مغفرت ہے۔

زمانے کے آگے جھکنے کا مشورہ دینے والوں دنیا پر مرنے والوں اور چراغ لے کر ہوا کے سامنے چلنے سے منع کرنے والوں کو آپؐ کا یہ جواب، آپؐ کی لاجواب سیرت کا ایک مہکتا گلاب اور روشن باب ہے۔

’’خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر مہتاب رکھ کر کہیں کہ مہر و ماہ کے عوض میں اس دعوت کو ترک کردوں تو میں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا‘ حتیٰ کہ یا تو اللہ اس دعوت کو کامیابی سے ہمکنار کردے یا میں اس راہ میں جان دے دوں۔‘‘

ہمارے پیارے نبیؐ نے پھولوں کی سیج پر نہیں، کانٹوں کے بستر پر زندگی بسر کرکے، دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں ان طوفانوں کا مقابلہ کرکے، زمانے سے بغاوت کرکے، مخالفت، عداوت اور ہلاکت کے گھیرے میں گھر کے، تبلیغ دین اور اقامت دین کا فریضہ ادا کرکے مقام محبوبیت کو پایا ہے۔ اگر واقعی ہماری زندگی کا مقصود و مطلوب، اللہ کے خاص بندوں میں شامل ہونا اور اس کی جنگ میں داخل ہونا اور اس کا محبوب بننا ہے تو اللہ کے محبوبؐ، محمدؐ و احمدؐ، حامد و محمود کی راہ مسعود پر چلنا ہوگا اور اسلام کی خاطر سب رنگ جہاد کرنا ہوگا۔

’’سن طالب حق! راہ حق پہ چلنا کھیل نہیں، اس رہگزر میں پیچ و خم، زیر و بم، درد و الم، ظلم و ستم، قدم قدم پتھر ہی پتھر‘‘ باطل پر حق کی فتح تک جن جن مراحل سے گزرنا ہوگا جن جن چھوٹے بڑے پتھروں پر چلنا ہوگا ان سب کی مکمل تصویر، رسول اللہؐ کی حیات طیبہ میں کھینچ دی گئی ہے تاکہ تندی باد مخالف سے اسلام کے عقاب گھبرائیں نہیں بلکہ سمجھیں کہ یہ تو انھیں فتح حق کے لیے اور اونچا اڑانے کے لیے چلتی ہے۔

آپؐ نے انتھک محنت، جذبہ صادق، ناقابل شکست قوت ارادی، عشق کی سچائی، ذہانت، فراست اور حکمت کے ساتھ ساتھ توکل علی اللہ اور نصر من اللہ کے ذریعے کفر کی شام کو صبح یقین میں بدل کر دنیا کو حسین بنادیا۔ یہ حقیقت شیخ سعدیؒ نے اس طرح بیان کی ہے:

کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَآلِہٖ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔