خصوصی افراد کو خدمت کارڈ کے بجائے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کا مطالبہ

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 4 دسمبر 2017
’’معذوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔  فوٹو : ایکسپریس

’’معذوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : ایکسپریس

تین دسمبر کو ہر سال معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خصوصی افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا اور لوگوں کو اس حوالے سے آگہی دینا ہے، اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

چودھری محمد شفیق
(وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب)
سال 2003ء سے قبل خصوصی افراد کے حوالے سے ادارے کم تھے جبکہ معذور افراد پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے مگر آہستہ آہستہ اس حوالے سے کام کا آغاز ہوا جس میں عالمی اداروں، میڈیا اور سماجی کارکنوں کا کردار اہم ہے۔ خصوصی افراد کا معاشرے میں ایک مقام ہے۔ ملک میں ان کے حقوق ہیں اور ان کی ضروریات بھی ہیں مگر ان کے مسائل بہت زیادہ ہیں جن کے حل کیلئے ہمیں کام کرنا ہے۔ ماضی میں حکومتیں اس حوالے سے کام کرتی رہی ہیں مگر 2008ء کے بعد سے اب تک اس حوالے سے بہت زیادہ کام ہوا ہے۔

موجودہ حکومت نے خصوصی افراد کیلئے قائم اداروں کو اپ گریڈ کیا، سہولیات دیں اور کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ خصوصی افراد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے ۔ اس حوالے سے انہیں ٹرانسپورٹ، خوراک و دیگر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ خصوصی افراد کے حوالے سے ٹیچنگ سٹاف کی تربیت انتہائی اہم ہے۔ خصوصی بچوں کو پڑھانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا بہت بڑی ذمہ داری اور اہم کام ہے لہٰذا ماہرین نفسیات و دیگر ٹرینرز خصوصی افراد کے حوالے سے اساتذہ کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ بسا اوقات غیر تربیت یافتہ اور لوئر سٹاف کی وجہ سے کچھ مسائل سامنے آتے ہیں مگر ہم ان کے حل کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔

حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اردگرد موجود خصوصی افراد کے حقوق کا خیال رکھیں۔ ہم تمام مسائل کو حل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، نیت سے کام بھی کررہے ہیں تاہم ابھی مزید کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمیں ملک میں موجود معذور افراد کی تعداد کا علم نہیں ہے۔ یہ ڈیٹا اکٹھا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ میرے نزدیک اگر ہر تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر کو معذور افراد کی تعداد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام دیے دیا جائے تو یہ مسئلہ ایک ماہ میں حل ہوسکتا ہے۔ یہاں معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حوالے سے مشکلات کا ذکر کیا گیا، اس حوالے سے محکمے کی جانب سے ایسی کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں کہ معذور افراد سے تمام ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔

اگر ایک شخص ٹانگ سے معذور ہے اور ڈاکٹر کو نظر بھی آرہا ہے تو یہ اس ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے اس شخص کو تنگ کرنے کے بجائے سرٹیفکیٹ بنا کر دے لہٰذایہ حکومتی نہیں بلکہ معاشرتی کمزوری ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک معاشرہ اپنا کردار ادا نہ کرے تب تک حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔ یہاں خصوصی افراد کے لیے ہسپتال کی بات کی گئی کہ ابھی تک تعمیر نہیں ہوسکا، میرے نزدیک یہ کمیٹیوں میں موجود افراد پر منحصر ہے کہ وہ معاملات کس طرف لے کر جاتے ہیں۔ اگر ان کمیٹیوں میں معذور افراد کو شامل کیا جائے تو مسائل کے حل میں بہتری آسکتی ہے۔ اس ہسپتال کے حوالے سے میں جلد وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کروں گا۔ خدمت کارڈ حکومت کی جانب سے مدد کی ایک کوشش ہے، اس کارڈ کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ خصوصی افراد کا یہ اعتراض جائز ہے کہ ان کیلئے مختص کوٹہ پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

ہم اسے یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں اور اس میں بہتر بھی آئی ہے۔ خصوصی افراد باصلاحیت ہیں اور بے شمار افراد پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جنرل سیٹ پر ملازمت کررہے ہیں۔ہم نے ایک سال سے تمام 40ڈیپارٹمنٹ کو خطوط لکھے ہیں کہ وہ خصوصی افراد کے لیے ریمپ بنائیں مگر بعض جگہ ابھی تک کام نہیں ہوسکا۔ میں نے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ سے بھی کہا کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کو ہدایت جاری کریں کہ پبلک مقامات پر ریمپ بنائے جائیں۔ ہم خصوصی بچوں کی تعلیم ، صحت و ٹرانسپورٹ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 3برسوں میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد 50ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جو پہلے 15 ہزار کے قریب تھی۔حکومت کو بعض جگہ وسائل کی کمی کا سامنا ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مسائل بہتر طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں۔

ہارون رفیق
(سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خصوصی افراد کی بحالی اور ملازمت کے حوالے سے کام کررہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے خصوصی افراد کے حوالے سے اقدامات کرنے کی خصوصی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ ان کے احکامات پر ملازمت میں معذور افراد کا کوٹہ 2فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کردیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہدایت کی کہ تمام ڈیپارٹمنٹ اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اورخالی آسامیوں پر فوری بھرتیاں کی جائیں۔ ہم نے وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا، سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہمارے ساتھ کام کررہا تھا۔

سکیل 1 سے لے کر 4 تک، ہم نے خصوصی افراد کیلئے مختص 4ہزار سے زائد خالی آسامیوں کی نشاندہی کی جن پر اب تک3ہزار 988لوگوں کو ملازمت مل چکی ہے۔ بینائی سے محروم افراد کو ان کے کوٹہ سے بھی زیادہ ملازمتیں دی گئی ہیں۔ 3,988 میں سے 700 سے زائد نابینا افراد ہیں۔ اس کے علاوہ 800سے زائد بینائی سے محروم افراد کو ہم نے ڈیلی ویجز پر رکھ لیا جس کے بعد مجموعی طور پر 1500 سے زائدنابینا افراد حکومت کے پے رول پر ہیں۔ اتنی تعداد کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی صوبے نے اس حد تک کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنایا ہے۔

88ہزار لوگوں کو خدمت کارڈ دیئے گئے ہیں جن میں سے 6 ہزار معذور افراد ہیں۔ انہیں ہر تین ماہ کے بعد 1500روپے ماہانہ کے حساب سے امداد دی جاتی ہے۔ ملازمت کی حد عمر میں خصوصی افراد کیلئے 10 سال تک کی رعایت ہے جبکہ یونیورسٹی میں داخلے پر مفت لیپ ٹاپ وفیس میں رعایت دی جاتی ہے۔ ایئرو ریل میں سفری کرائے میں ان کے لیے 50 فیصد رعایت ہے۔حکومت نے خصوصی افراد کے لیے ریمپ بنانے کیلئے ایک برس قبل نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے بعد اداروں میں ریمپ بنائے جا رہے ہیں تاہم جہاں خرابی ہے ہم اسے دور کررہے ہیں۔ گزشتہ 2سے 3 برسوں میں حکومت نے خصوصی افراد کی بحالی کیلئے جتنے اقدامات اٹھائے ہیں ماضی میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈسٹرکٹ کی سطح پر معذور افراد کیلئے خصوصی ڈیپارٹمنٹ بنائے جارہے ہیں جہاں ان کی رہنمائی اور مسائل کے حل کیلئے کام کیا جائے گا۔

یہ دفاتر جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونگے ، یہاں خصوصی افراد کا ڈیٹا بیس بھی بنایا جائے گا اور یہ ’’ون ونڈو آپریشن‘‘ کے تحت کام کریں گے۔ اس منصوبے کی کل لاگت 1 ارب روپے ہے جو 2سے 3 برسوں میں خرچ کی جائے گی جبکہ اس سال کا بجٹ 40کروڑ روپے ہے۔محکمے نے اس منصوبے کے تحت ان کیلئے اضافی آسامیاں بھی نکلوائی ہیں جو سکیل 11 میں ہوں گی، اس پر بھی جلد کام شروع ہوجائے گا۔ سکیل 5 سے 15 تک کی ملازمتوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کرلیا گیا ہے لہٰذا 2ہزار کے قریب مزید ملازمتوں کی آئندہ چند ماہ میں تشہیر کی جائے گی۔ معذور افراد کو درپیش مسائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا، حکومت اس حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے اور اس پر تندہی سے کام ہو رہا ہے۔

محمد فاضل چیمہ
(ڈائریکٹر سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
ہمارے ملک میں معذوری کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے۔ چند برس قبل اس حوالے سے بات کرنا انتہائی مشکل تھا تاہم آج صورتحال بہت بہتر ہے۔ 2003ء میں پنجاب میں اس حوالے سے علیحدہ ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا۔ اُس وقت پنجاب میں معذوروں کی بحالی کیلئے صرف 49 ادارے تھے جن میں 4600 طلبہ داخل تھے جو اس وقت کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم تھی ۔ اِس وقت پنجاب میں 273 تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک ہے جو تحصیل ہیڈ کوارٹر کی سطح پر ہے جبکہ اب اسے ٹاؤن کمیٹی لیول تک یقینی بنایا جائے گا۔ان اداروں میں 30 ہزار 800 کے قریب طلبہ داخل ہیں۔

اگر اس تعداد کا موازنہ 2003ء کے اعداد و شمار سے کیا جائے تو واضح بہتری نظر آتی ہے۔ حکومت نے inclusive education کا پروگرام متعارف کرایا ہے۔ اس کا پائلٹ پراجیکٹ مظفر گڑھ اور بہاولپور میں شروع کیا گیا۔ ان دونوں اضلاع میں 7ہزار معذور بچوں کی سکریننگ کی گئی جن میں سے 960 بچوں کو جنرل ایجوکیشن کے سکولوں میں داخل کرایا گیا جو بہت بڑا کام ہے۔ اس پراجیکٹ کے حوالے سے ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ کے تعاون سے 14ہزار 800 اساتذہ کو ٹریننگ کرائی گئی جس کے بعد خصوصی افراد کے حوالے سے اساتذہ کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے۔

اسی سکیم کو 5مزید اضلاع میں شروع کیا گیا۔ اب پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے 7اضلاع میں inclusive education کا ایک اور منصوبہ شروع کیا گیا جہاں 22 سو بچوں کو داخل کیا گیا جبکہ ان اضلاع کے 7 ہزار اساتذہ کی ٹریننگ کے ٹارگٹ پر بھی کام ہورہا ہے ۔ اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ تھوڑی معذوری والے بچوں کو عام سکولوں میں داخل کرایا جائے۔

یہ سکول ہر گلی محلے میں موجود ہیں، اس لیے انہیں تعلیم کے حصول میںآسانی ہوگی۔ 100 خصوصی افراد میں سے 86 لوگ تھوڑی معذوری کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا اگر ان 86 فیصد افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر تعلیم مل جائے تو معاملات بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب نے اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے 34 معذور طالب علموں کو حسن کارکردگی ایوارڈ دیا، اس میں ڈاکٹرز، انجینئرز و دیگر شعبے کے بچے شامل تھے۔ بینائی سے محروم افراد، ٹیچنگ کے شعبے میں بہت اچھی کاکردگی دکھا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے 2002ء میں معذور افراد کے حوالے سے قومی پالیسی بنائی لیکن اب چونکہ صوبے خودمختار ہیں تو محکمے نے ایک سیکٹورل پلان بنایا ہے جس میںمعذور افراد کی بحالی کے حوالے سے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی منظوری کے بعد اس پر جلد کام شروع کردیا جائے گا جو محکمے کی کارکردگی میں مزید بہتری لائے گا۔ میں پر امید ہوں کہ آنے والے وقت میں خصوصی افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر تعلیم و دیگر سہولیات میسر ہوں گی ۔ حکومت نے accessiblity code پاس کیا ہوا ہے اور اداروں کو اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جا چکا ہے۔ یہ قانون میں شامل ہے کہ جو بھی عمارت بنے گی اس میں معذوروں کیلئے رسائی کو مدنظر رکھا جائے گا۔

ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
ملک میں عرصہ دراز کے بعد مردم شماری ہوئی مگر بدقسمتی سے اس میں خصوصی افراد کو نظرانداز کردیا گیا۔ ہمارے احتجاج اور میڈیا کے ساتھ پر، فارم میں ایک خاندان میں موجود کل معذور افراد کا خانہ رکھا گیا جبکہ حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مردم شماری مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد پورے ملک سے معذور افراد کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا جوغیر منطقی بات تھی ۔ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دمے کا مریض بھی معذور افراد میں شامل ہوتا ہے۔ اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2کروڑ لوگوں کو معذور کہہ دینا درست نہیں تھا۔ ابھی تک جو سیمپل سروے ہوئے ہیں ان کے مطابق تقریباً 5 فیصد افراد معذور ہیں۔ ان میں بہرے و گونگے، اندھے، جسمانی طور پر معذور اور جن کا ذہنی توازن درست نہیں، شامل ہیں۔

یہاں بھی بہت سارے مسائل ہیں کیونکہ ہمارے پاس بونے قد والے، ٹیرھی کمریا ٹیرھی ہڈیوں والے افراد آتے ہیں اور معذوری کا سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں مگر ان کے حوالے سے ابھی تک کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اس پر کمیٹیاں بنتی رہی ہیں مگر کام نہیں ہوسکا۔ اس کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کمیٹیوں میں مختلف شعبوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں جنہوں نے صرف کمیٹی کے اجلاسوں میں ہی ملنا ہوتا ہے۔

میرے نزدیک یہ کام کسی ایک قابل شخص کے ذمے لگا دیااور پھر یہ اس کی ذمہ داری ہو کہ وہ متعلقہ لوگوں سے میٹنگز کرکے اچھے نتائج دے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی نیت صاف ہے اور وہ خصوصی افراد کیلئے ایک ہسپتال بنانا چاہتے ہیں۔ 10برس قبل سے ان کی یہ سوچ ہے، اس حوالے سے کمیٹیاں بھی بنتی رہی ہیں مگر ہسپتال نہیں بن سکا۔ میں نے اس ہسپتال کے حوالے سے 4 پریزنٹیشنز وزیراعلیٰ پنجاب کو دیں اور ان سے کہا کہ اگر آپ یہ ہسپتال بنانا چاہتے ہیں تو خصوصی افراد کے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم بنائیں،وہ ہسپتال بنا دیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خصوصی افراد کی بحالی کے لیے بنائے جانے والے اس ہسپتال کی کمیٹی میں معذوروں کا ایک بھی ڈاکٹر شامل نہیں ہے۔

اس سے ترجیحات کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ کمیٹی میں بڑے بڑے قابل لوگ موجود ہیں مگر وہ اپنے اپنے شعبے میں بہترین ہیں۔ اگر کوئی این جی او چلا رہا ہے تو وہ خصوصی افراد کی ایجوکیشن کے حوالے سے تو ٹھیک ہے مگر اس کا میڈیسن اینڈ سرجری کے ساتھ تعلق نہیں بنتا۔ دیگر ممالک ہمارے سے رائے لیتے ہیں مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔ میں نے جو پریزنٹیشن وزیراعلیٰ پنجاب کو دی تھی ، اس پر کراچی میں ہسپتال بنا لیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں ابھی تک نہیں بنا۔ اگر یہ تخمینہ لگا یا جائے کہ 50لاکھ افراد معذوری کا شکار ہیںتو ان کیلئے موجود اداروں میں زیادہ سے زیادہ 5لاکھ افراد کی گنجائش ہوگی، سوال یہ ہے کہ باقی 45لاکھ لوگوں کا کیا کیا جائے گا؟ ان کے لیے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔خدمت کارڈ کے نام پر 12سو روپے دیئے جارہے ہیں جو ناکافی ہے۔ تنقید کا یہ مطلب نہیں ہے کام نہیں ہورہا مگر جب تک خامیوں پر بات نہ کی جائے معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔

حکومت نے خصوصی افراد کے حوالے سے ٹھوس کام کیا ہے مگر ابھی ا س میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ہمارا سپیشل ایجوکیشن ٹریننگ سینٹر بہترین ہے۔ خصوصی افراد کو مفت تعلیم، یونیفارم، خوراک اور ٹرانسپورٹ فراہم کی جا رہی ہے جو قابل تعریف ہے مگر یہ صرف ان 10 فیصد افراد کیلئے ہے جو ان اداروں میں رجسٹرڈ ہیںلیکن باقی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان 90 فیصد افراد کیلئے بھی ایک ڈائریکٹوریٹ ہونا چاہیے جو ان کی ملازمت و دیگر مسائل کے حل کیلئے کام کرے۔ معذور افراد کے لیے مختص کوٹہ پر فیکٹری مالکان انہیں ملازمت دینے کے بجائے حکومت کو جرمانہ ادا کردیتے ہیں جس کے باعث معذور افراد نوکری سے محروم رہتے ہیں، ہم نے اس حوالے سے عدالت سے بھی رجوع کیا تاکہ کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنایا جاسکے۔

سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ معذور افراد کو وہیل چیئر نہیں دیتا،مفت ٹانگ لگوانے یا علاج کیلئے میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانے والوں کو بھی مشکلات درپیش ہوتی ہیںلہٰذا اس نظام کو ’’ون ونڈو‘‘ کیاجائے۔خصوصی افراد کا ایک بڑا مسئلہ پبلک مقامات، دفاتر اور ٹرانسپورٹ تک رسائی کا ہے۔ میٹرو بس و ریلوے کو معذور افراد کیلئے فرینڈلی نہیں بنایا جاسکا۔ 36برس قبل پی آئی اے کو پہلی وہیل چیئر میں نے دی تھی مگر اب آہستہ آہستہ چیزوں میں بہتری آرہی ہے۔ اس عالمی دن کا مقصد صرف حکومت پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ عوام کو آگاہی دینا بھی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کریں۔ میری رائے ہے کہ سپیشل ایجوکیشن کے محکمے کو مزید با اختیار بنایا جائے ۔

اسے صرف سپیشل ایجوکیشن ہی نہیں بلکہ خصوصی افراد کیلئے خصوصی ادارہ بنادیا جائے جس میں ایجوکیشن، علاج معالجہ ودیگر معاملات بھی اسی محکمے کے پاس ہوں، اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔پاکستان میں پیدائش کے بعد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ معذور افراد کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ دنیا میں کم ہورہی ہے لہٰذا میڈیکل و دیگر نصاب میں معذوری سے بچنے کے حوالے سے بنیادی چیزوں کو شامل کیا جائے تاکہ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی مل سکے ۔

لالہ جی سعید اقبال مرزا
(چیف ایگزیکٹیو ،سپیشل پرسنز شکایت سیل اسلام آباد )
میں 1980ء سے معذور افراد کے لیے کام کررہا ہوں مگر یہ افسوسناک بات ہے کہ معذور وں کا عالمی دن صرف تقریبات اور میڈیا کی حد تک رہ گیا ہے جبکہ اس کے بعد اس حوالے سے موثر کام نہیں ہوتا۔ حکومت نے خدمت کارڈ کے ذریعے مالی امداد کا سلسلہ شروع کیا ہے جو بھیک کی دوسری شکل ہے۔ اس کے بر عکس حکومت کو چاہیے کہ معذور افراد کیلئے مختص کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنائے، تعلیم یافتہ خصوصی افراد کو ملازمت دی جائے ، جو لوگ بیماری کے باعث بستر سے نہیں اٹھ سکتے، ان کے لیے کم از کم 6 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے اور جو تھوڑا بہت ہنر جانتے ہیں انہیں ٹیکنیکل کام سکھایا جائے۔

میرے نزدیک خصوصی افراد کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ادارے ہونے چاہئیں تاکہ ان کی معذوری کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں روزگار کمانے کی تربیت دی جاسکے۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ بہترین ہے مگر اسے بااختیار بنایا جائے تاکہ صحیح معنوں میں خصوصی افراد کی بحالی کا کام ہوسکے۔ معذور افراد کو معذوری کا سرٹیفکیٹ بنوانے کیلئے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ طریقہ کار آسان بنایا جائے۔ دفاتر میں حکومتی نوٹیفکیشن کے باجود خصوصی افراد کیلئے ریمپ نہیں بن سکے، اس طرف توجہ دی جائے۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق سے معذور افراد کیلئے 1 فیصد کوٹہ میں نے منظور کرایا اور بعد ازاں اس کوٹہ میں اضافہ کیا گیا۔ یہ کوٹہ تو موجود ہے مگر اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہورہا۔

این ٹی ایس کی شرط معذور افراد کیلئے نہیں ہونی چاہیے۔ یہ افراد انتہائی مشکل سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر اس طرح کے ٹیسٹ ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔گجرات میں ہمارے پاس جگہ موجود ہے، میری وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہاں خصوصی افراد کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ بنا دیں۔اس کے علاوہ لالہ موسیٰ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر کو ہائی سکول کا درجہ دے دیا جائے۔ معذور افراد کیلئے ہسپتال 20برس قبل بننا چاہیے تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب یہ ہسپتال بنانا چاہتے ہیں مگر بیوروکریسی اس میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ سپیشل پرسنز کی کمیٹیوں میں خصوصی افراد کو بھی شامل کیا جائے اس کے علاوہ خصوصی افرادکے تمام سکولوں کی کمیٹیاں بننی چاہئیں تاکہ معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔