سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ

ثمر حسین  بدھ 13 مارچ 2013
شیرازی گروپ کا انتخابی امیدوار پیپلز پارٹی کی کام یابی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔   فوٹو: فائل

شیرازی گروپ کا انتخابی امیدوار پیپلز پارٹی کی کام یابی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ٹھٹھہ: ضلع ٹھٹھہ میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر انتخابی امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے، جب کہ خواتین کے لیے مخصوص سیٹوں کی تعداد تین ہے۔

قومی اسمبلی کی دو نشستوں میں سے 238 سجاول، مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے سید ایاز علی شاہ شیرازی کے پاس ہے، جب کہ این اے 237 ٹھٹھہ کی نشست، پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر عبدالواحد کے پاس ہے، اسی طرح صوبائی اسمبلی کی سیٹ 84 ٹھٹھہ پر پیپلز پارٹی کے صادق میمن، پی ایس 85 میرپور ساکرو پر بھی پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو موجود ہیں۔ پی ایس 88 گھوڑا باڑی کی نشست پیپلز پارٹی کے حاجی عثمان جلبانی جب کہ پی ایس 87 کی شاہ بندر جاتی کی نشست ق لیگ کے محمد علی ملکانی کے پاس ہے۔

پی ایس 86 میرپور بٹھورو سجاول سے ق لیگ کے شاہ حسین شاہ شیرازی کام یاب ہیں۔ اس مرتبہ عام الیکشن میں مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ق، قوم پرست جماعتوں کے امیدوار بھی بڑی تیاری کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں مقابلہ ہو گا اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق نتائج ماضی کی نسبت کافی مختلف ہو سکتے ہیں۔

ٹھٹھہ میں ق لیگ سے تعلق رکھنے والا شیرازی گروپ اگر کسی اور پارٹی یا آزاد حیثیت سے ضلع بھر میں اپنے امیدوار سامنے لائے تو پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے، مگر پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو، حاجی عثمان جبلانی، صادق میمن اور واحد سومرو کی پوزیشن بھی مضبوط معلوم ہو رہی ہے۔ ضلع کے نو تعلقوں کی آبادی 15  لاکھ کے قریب ہے اور الیکشن سے قبل تمام پارٹیوں کے امیدواروں نے لوگوں سے میل ملاپ بڑھا دیا ہے۔

پی پی پی کی مخالفت میں بننے والے اتحاد اور جلسے جلسوں کے بعد بعض حلقوں کا خیال تھاکہ صورتِ حال تبدیل ہو گی اور عوام نوکریاں نہ ملنے، ترقیاتی کام نہ ہونے، منہگائی اور بدامنی کا غصہ اس کے امیدوار کو ووٹ نہ دے کر نکالیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ گذشتہ ماہ منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار صادق میمن کے سامنے کئی برادریوں نے یہی سوچ کر اپنے امیدوار کھڑے کیے، لیکن فاتح پی پی پی کا امیدوار ہی رہا۔ الیکشن ہارنے والے آزاد امیدوار محمد حسن جاکھرو نے ضمنی الیکشن میں دھاندلی، سرکاری مشینری کے استعمال اور جعلی ٹھپوں کا الزام بھی عاید کیا، لیکن پی پی پی نے ان الزامات کی تردید کر دی۔

گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سابق ایم پی اے غلام قادر پلیجو کی دعوت پر تعلقہ میرپورساکرو کا دورہ کیا۔ وزیر اعلیٰ کو پروگرام کے مطابق دوپہر ایک بجے جلسہ گاہ پہنچنا تھا، لیکن وہ چار گھنٹے کی تاخیر سے جلسہ گاہ پہنچے، جس کے باعث نہ صرف میڈیا بلکہ وہاں موجود پی پی کے کارکنان کو بھی انتظار کی اذیت سہنا پڑی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے یہاں کے دیہات میں بجلی کی فراہمی کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ان کے ساتھ صوبائی وزراء آغا سراج درانی، ایاز سومرو، سسی پلیجو بھی تھیں۔ جلسے میں تھوڑی سی بدمزگی اس وقت پیدا ہوئی جب سرکاری نوکریوں کا مطالبہ کرنے والے جیالوں نے اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش کی، لیکن سیکیورٹی نے انھیں وہاں سے ہٹا دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف چند پارٹیوں کے ساتھ مل کر سندھ سے ہم دردی جتا رہے ہیں، مگر سندھ کے لوگ انھیں مسترد کر چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی بھرپور کام یابی حاصل کرے گی اور مخالفین کو شکست ہو گی۔ صوبائی وزراء آغا سراج درانی اور ایاز سومرو نے اپنی تقاریر میں ن لیگ اور قوم پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دوسری جانب صدر پاکستان آصف علی زرداری ہفتے کے دن دراوٹ ڈیم کے افتتاح کے لیے یہاں پہنچے، نجی میڈیا کو تو تقریب میں مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔ صدر کی آمد سے ایک روز قبل ہی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے تمام راستے سیل کر دیے گئے تھے، جب کہ صدر کی آمد اور ذوالفقار آباد منصوبے کے خلاف جسقم کی اپیل پر ہفتے کے دن ضلع ٹھٹھہ میں ہڑتال بھی کی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔