بلوچ فراریوں کی طرح کراچی کے نوجوانوں کو بھی موقع دیجیے

یوسف ابوالخیر  پير 11 دسمبر 2017
دو روایتی حریف جماعتوں کی گرمجوشی سے ملاقات ملکی سیاست میں مثبت پیش رفت ہے۔
تصویر: انٹرنیٹ

دو روایتی حریف جماعتوں کی گرمجوشی سے ملاقات ملکی سیاست میں مثبت پیش رفت ہے۔ تصویر: انٹرنیٹ

گزشتہ روز ایکسپو سینٹر میں جاری عالمی کتب میلے میں ’’اٹھو آگے بڑھو کراچی‘‘ اور جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے اسٹال پر برسوں پرانے روایتی حریف ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار خود چل کر اسٹال پر آئے، انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور پھر دونوں بغل گیر ہوگئے۔ بظاہر یہ دو سیاسی رہنماؤں کے درمیان ملاقات پر مبنی معمول کا ایک واقعہ ہے، لیکن سچ پوچھیے تو اس تصویر کی تاریخ تین دہائیوں پر محیط ہے اور بدقسمتی سے یہ تاریخ بڑی خون آلود بھی ہے۔

جب تک ایم کیو ایم کی باگ ڈور لندن میں رہائش پذیر قیادت کے ہاتھ میں تھی، تب تک روشنیوں کا یہ شہر قتل گاہ بنا ہوا تھا۔ کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں تھے۔ یہاں کے باسیوں سے ان کی تہذیب تک چھین لی گئی تھی۔ صرف ایک شخص کی انا کو تسکین پہنچانے کےلیے اِس شہر کی ہزاروں ماؤں کی گود اور بہنوں کے سہاگ اجاڑ دیئے گئے۔ بھتہ نہ دینے پر فیکٹری میں آگ لگا کر ڈھائی سو سے زیادہ غریب مزدوروں کو زندہ جلا کر بھسم کر دیا گیا، آسمان نے اس شہر میں ایسے ایسے اندوہناک مناظر دیکھے جن کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملے گی۔

لیکن جب سے ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے لندن سے قطع تعلق کا اعلان کیا، انہیں اس شہر کے لوگوں اور دینی و سیاسی جماعتوں نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ ریاستی اداروں نے بھی ایم کیو ایم کے کارکنان سے جبرِ ناروا کے سلوک پر نظرِثانی کی، جس کے بعد ایم کیو ایم اس شہر میں پوری طرح کھل کر سیاست کررہی ہے۔ پی ایس 114 کے ضمنی انتخاب میں بھرپور شرکت اور لیاقت آباد کا شاندار جلسہ اس کی چند مثالیں ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں بانی متحدہ کی سربراہی میں اُن کی ہدایت پر متحدہ کے بہت سے کارکنان نے چھوٹے موٹے سے لے کر سنگین نوعیت تک کے بے شمار جرائم کیے۔ جن کارکنان نے سیاسی ورکر کے دائرے سے نکل کر مافیا اور گینگز کا روپ دھارا، اپنے قائد کے ایک اشارے پر سو سو لوگوں کو قتل کیا، قائد کے غداروں کو موت کا حقدار قرار دیتے ہوئے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کو بلکہ اپنی ہی جماعت کے منحرف کارکنان کو موت کے گھاٹ اتارا، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلا، علما اور سکیورٹی اہلکاروں و افسران کی ٹارگٹ کلنگ کی اور لوگوں کو زندہ جلایا، ان تمام مجرموں کو ان کے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ ایم کیو ایم سے وابستہ ایک ایک فرد اور ہر رہنما ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور ہو۔

لہٰذا جن جذباتی نوجوانوں کے جرائم قابلِ معافی ہوں، بلوچ فراریوں کی طرح انہیں بھی معافی ملنی چاہیے تاکہ ان کے سروں پر منڈلاتے خوف کے بادل چھٹیں اور وہ بھی اپنا دامن جھاڑ کر نئے سرے سے جرائم سے پاک زندگی کا آغاز کرسکیں۔

گو کہ جماعت اسلامی کو ایم کیو ایم کے طرزِ سیاست سے شدید ترین اختلاف رہا ہے اور وہ اسے اپنے کارکنان و رہنماؤں کے قتل کا ذمہ دار بھی ٹھہراتی رہی ہے، اس کے باوجود حافظ نعیم الرحمن کا ڈاکٹر فاروق ستار کو آگے بڑھ کر گلے لگانا بڑی اعلیٰ ظرفی اور ملکی سیاست میں ایک بہت مثبت روایت کی بنیاد ہے۔ الزام تراشی کی سیاست کرتے ہوئے ماضی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بجائے پرانی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے میں نہ صرف دونوں جماعتوں کا، بلکہ ملک و قوم، بالخصوص کراچی کا مفاد ہے۔ کیونکہ دونوں جماعتوں کے قائدین اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی سیاست بھی یہیں کی گلی کوچوں سے وابستہ ہے۔ جماعت اسلامی کا کراچی کے اس بدلتے منظرنامے میں اہم کردار ہوسکتا ہے، کیونکہ ایم کیو ایم سے قبل یہی جماعت اس شہر کی نمائندہ تھی اور آج بھی شہرِ قائد میں اس جماعت سے وابستگان کی بڑی تعداد موجود ہے، جبکہ دونوں جماعتیں ہی متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔

لندن سے ہلائی جانے والی ڈوریوں کی وجہ سے شہرِقائد اور اہلیانِ شہر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک بھیانک خواب ہے، اُس سب کا انصاف ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن کراچی میں اپنے لوگوں کے درمیان موجود فاروق ستار کی قیادت میں اب اگر یہ آگ سرد پڑنے اور برف پگھلنے لگی ہے تو ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت کو ایک موقع دیں اور صحت مند قومی سیاست میں ان کے ساتھ تعاون کریں؛ تاکہ پھر کسی ذہنی بیمار اور تخریبی مزاج شخص کو موقع نہ مل پائے کہ وہ مخلص اور محبِ وطن اردو بولنے والوں کے احساسِ محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا استحصال کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یوسف ابوالخیر

یوسف ابوالخیر

بلاگر وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایم اے ابلاغِ عامّہ کے طالب علم ہیں۔ مختلف اخبارات اور چینلوں سے وابستہ رہ چکے ہیں جبکہ حالات حاضرہ پر لب کشائی کرتے رہتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ انداز و اصالیب سے ہٹ کر کچھ منفرد لکھنے کے قائل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔