ڈار اور ڈالر

جاوید قاضی  جمعرات 14 دسمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بالآخر ڈالر نے اپنے جوہر دکھانے شروع کر دیے۔ ڈار صاحب کیا گئے ڈالر کا پریشر بڑھنے لگا۔ ڈار ڈر گئے تو ڈالر بڑھ گیا۔ عجیب تھے ہمارے ڈار صاحب۔ آپ تعلیمی اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں۔

ہندسوں سے کھیلنے کا ان کے پاس ہنر بہت ہے جب کہ ایسا کام کوئی سوشل سائنسز کے زمرے میں نہیں آتا۔ معاشیات سوشل سائنس کا مضمون ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ سے پہلے ہندوستان کی معیشت سوشل اور پبلک سیکٹر وغیرہ کے زمرے میں آتی تھی اور پھر جیسے معیشت مارکیٹ کے اصولوں پر چلنے لگی یا جس طرح منموہن سنگھ نے نہرو ڈاکٹرین کو الوداع کہا ہندوستان کی معیشت گزشتہ 25 سال میں اوسطاً 7 فیصد سے بڑھتے ہوئے اب دگنی تگنی بڑھ گئی ہے، یہ اور بات ہے کہ دیہی اور شہری ہندوستان میں بڑا واضع فرق ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی مڈل کلاس تو امیر ہوئی مگر غریب کی حالت زار نہ بدلی لیکن پھر بھی آج جو ہندوستان ہم دیکھ رہے ہیں وہ معاشیات کے مضمون کے شاگرد کی سوچ کے مرہون منت ہے۔ ایک ایسی سوچ جو نہرو کی نہ تھی۔ خیر نہرو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھتے تھے اور منموہن اپنے عہد کے تناظر میں۔ ہاں مگر ہمارے معاشیات دان ڈاکٹر محبوب الحق بھی کوئی کام نہ کر سکے۔

رہا سوال ڈار صاحب کا، تو انھوں نے جب چند ماہ قبل اسٹیٹ بینک کے گورنر ریٹائر ہوئے اور وائس گورنر کو قائم مقام گورنر ہونا پڑا تو موصوف نے ڈالر کی قدر میں روپیے کی نسبت اضافہ کر دیا اور ڈار صاحب نے انکوائری کروائی کہ انھوں نے کروڑوں روپے کا ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ جب کہ زمانے سے یہ بات بڑے بڑے معاشیات کے تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ روپیہ کی قدر کو ڈالر کی نسبت کم کرنا ہو گا۔ اربوں ڈالر کا یہ کم نقصان نہیں تھا کہ ہماری Export  پچھلے سال کی نسبت مالی سال 2017-2016ء میں چار ارب ڈالر اور گر گئی۔ ڈار صاحب نے اس مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں وہ بیرونی قرضہ لیے کہ ان چار سال کا قرضہ ایک طرف اور ملک کی تمام تاریخ میں، فارن کرنسی میں لیے گئے قرضے دوسری طرف۔

اور جب دوبارہ ہمیں زرمبادلہ میں مسائل آ رہے ہیں تو ہمیں ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے قرضے کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے۔ ہم نے ان کے کہنے پر بالآخر یہ مان لیا کہ ہمارے روپے کی قدر حد سے زیادہ یعنی Over Valued  ہے۔ اب بتائیے کیا اگر آپ کو کوئی اصل حقیقت بتائے تو یہ بری بات ہے؟ ڈار صاحب یہ قدم خود پہلے اٹھا لیتے تو شاید ہمیں ایکسپورٹ میں اتنا نقصان نہ ہوتا وہ اس لیے کہ ہمارے ایکسپورٹر کو باہر Bid  دینے میں فوقیت دی جاتی وہ روپئے کے اعتبار سے تو مہنگا بیچتا لیکن ڈالر کے اعتبار سے سستا ہوتا۔ جب کہ ایسے ایکسپورٹرز کو Cost of Goods  کی ادائیگی روپیوں میں کرنی ہوتی۔ مغربی ممالک چین پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر کم اور سستی کر کے باہر چیزوں کو بیچتا ہے جو غلط ہے اور ان کی چیزوں کے بیچنے کے حوالے سے غیر مناسب ہے۔

اور ایک ہم ہیں کہ امپورٹ سستی منگواتے ہیں اور ایکسپورٹ مہنگی کر کے بیچتے ہیں۔ امپورٹ ما سوائے تیل کے باقی سب تقریباً متوسط طبقے یا پھر امیروں کے لیے ہے اور غریبوں کے لیے ہے کہ ان کو روزگار ملے۔ اور روزگار تب ملے گا جب ملک کی معیشت 7 فیصد شرح نمو سے بڑھے گی۔ اور ہماری معیشت کا ایک حصہ یعنی ایکسپورٹ کو فالج لگا ہوا ہے۔ ہماری امپورٹ 55 ارب ڈالر ہے تو ہماری ایکسپورٹ 24 ارب ڈالر ہو گی۔ یقیناً آئی ایم ایف کی اس تجویز سے یا ڈالر کا روپئے کی نسبت مہنگا ہونے میں Export  پر اچھا اثر پڑے گا خود باہر سے Remittances  بھی بڑھیں گے یا ان لوگوں کے لیے جو روپیہ تجوریوں میں رکھتے ہیں اور Undocumented  سودے کرتے ہیں ان کے لیے یہ خبر اچھی نہیں ہو گی۔ وہ لوگ جو باہر سے گاڑیاں منگواتے ہیں ان کے لیے بھی یہ خبر اچھی نہ ہو، ہو سکتا ہے افراط زر جو اس وقت چار فیصد ہے وہ بڑھ کر پانچ فیصد ہو جائے۔

Export  کیا ہے؟ ۔ کسی بھی ملک کی پیداوار کا وہ حصہ جو دنیا سمجھتی ہے کہ خریدا جائے۔ ہم بہت سی چیزیں خام مال کی حیثیت میں باہر بیچتے ہیں جو خود کے ساتھ زیادتی ہے، ہمیں اپنی چیزیں Value Add  کر کے بیچنی چاہئیں۔ آج بنگلا دیش 25 ارب ڈالر Import  کی نسبت زیادہ Export کرتا ہے اور ہم لگ بھگ تیس ارب ڈالر Export کی نسبت زیادہ Import  کرتے ہیں۔ وہ کپاس نہیں اگاتا لیکن چین کی بعد دنیا میں سب سے زیادہ گارمنٹ ایکسپورٹ کرتا ہے اور ہمارے گارمنٹ صنعت بھی اچھی خاصی وہاں منتقل ہو گئی ہے۔ در اصل Export کا تعلق انسانی وسائل کے معیار سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے بھی کہ آپ کا انفرا اسٹرکچر کتنا بہتر ہے۔

یقیناً CPEC کی وجہ سے یا مشینری کی بھاری امپورٹ سے ہمارے زر مبادلہ پر اثر پڑا ہے لیکن یہ جھٹکا Short Term  ہے جو جو پاکستان کی 70 سالا تاریخ میں Infrastructure  کے حوالے سے کام ہوا ہے یا ہو رہا ہے وہ CPEC ہے لیکن ان سب باتوں کا انسانی معیار کو بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں۔

آج سے 20 سال قبل اور 2005ء تک ہندوستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہنر مند لوگ امریکا کے silicon valley کام کرنے کے لیے جاتے تھے اور پھر یوں ہوا کہ ہندوستان کے اندر ہی انفرا اسٹرکچر اتنا وسیع ہوا کہ وہاں کے لوگوں کو ہندوستان کے اندر ہی بہتر تنخواہیں ملنے لگیں۔

خیر ڈار گئے تو ڈالر بھی آزاد ہوا اور میں اسی بات کو خوش آیند سمجھتا ہوں لیکن یہ اور بات ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔