9 برس سے زیرالتواء مردم شماری کا مرحلہ مکمل ہوا

رانا نسیم  اتوار 31 دسمبر 2017
قیام پاکستان سے قبل برطانوی سامراج نے آخری بار 1941ء میں اس خطے میں مردم و خانہ شماری کرائی۔ فوٹو: فائل

قیام پاکستان سے قبل برطانوی سامراج نے آخری بار 1941ء میں اس خطے میں مردم و خانہ شماری کرائی۔ فوٹو: فائل

مردم و خانہ شماری کے ذریعے کسی بھی ملک یا مخصوص علاقہ کی آبادی، مذہب، تعلیم، زبان، نسل، ضروریات، وسائل جیسی معلومات کا حصول مطلوب ہوتا ہے تاکہ ان حقائق کی بنیاد پر بہتر مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جا سکے۔  اس کا ایک اہم مقصد عام انتخابات کے لیے آبادی کے درست اعدادوشمار فراہم کرنا بھی ہے جو جمہوری نظام کی ناگزیر ضرورت ہے۔

مردم شماری کی تعریف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان معلومات کا حصول ایک مقررہ وقفے کے بعد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے۔ لیکن افسوس! پاکستان کے حکمرانوں کو شائد اس ملک کے بہتر مستقبل کی کوئی چاہ ہے نہ ضرورت، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو حال ہی میں ہونے والی خانہ و مردم شماری 9 سال قبل ہو چکی ہوتی۔ مردم شماری کی اہمیت کا اندازہ ایسے تمام ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے، جن پر ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے لوگ رشک کرتے ہیں، کیوں کہ ان ممالک نے اپنی ہزاروں، سینکڑوں سالہ تاریخ میں مردم و خانہ شماری کے انعقاد پر بہت کم سمجھوتہ کیا ہے، حتیٰ کہ جنگوں کے دوران بھی مقررہ وقت کے مطابق مردم شماری کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔

عصر حاضر میں دنیا بھر کے ممالک کامیاب پالیسی سازی کے لئے مقررہ وقت پر مردم و خانہ شماری کو غیرمعمولی اہمیت دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ عمل نہ صرف کئی بار تعطل کا شکار ہوا بلکہ ایک آدھ بار چھوڑ کر اس کی شفافیت پر سوالیہ نشانات بھی لگتے آ رہے ہیں۔ 1998ء کی مردم و خانہ شماری کے بعد ملک میں جاری سیاسی بحرانوں کی وجہ سے اسے 9 سال تک زیرالتوا رکھا گیا، اس دوران کئی بار ملک میں مردم شماری کروانے کے اعلانات کئے گئے، تاہم اس میں دانستہ یا نادانستہ طور پر مختلف رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں، یوں وہ مردم شماری جو قانون کے مطابق 10 سال بعد یعنی 2008ء میں ہونا تھی، وہ 19 سال بعد 2017ء میں کروائی گئی۔

حالیہ مردم شماری کے عمل کی بروقت تکمیل اور اسے شفاف بنانے کے لئے دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ فوج کا تعاون بھی حاصل کیا گیا۔ تقریباً سوا لاکھ تربیت یافتہ سول ملازمین کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد فوجی جوانوں کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا گیا۔ ملک کی چھٹی مردم و خانہ شماری کے لئے 19 ارب کے لگ بھگ بجٹ مختص کیا گیا، جس میں سے 6 ارب روپے دفاعی بجٹ جبکہ باقی رقم سویلین بجٹ سے لی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار خواجہ سراؤں اور بے گھر افراد کو بھی مردم شماری کا حصہ بنایا گیا۔

وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے چھٹی ملک گیر مردم و خانہ شماری کے نتائج کی روشنی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق  وطن عزیز کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 ہے، جن میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار 322  اور خواتین کی تعداد 10 کروڑ 13 لاکھ 14 ہزار 780 ہے۔ 1981ء کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی 146.6 فیصد جبکہ 1998ء کے مقابلے میں 57 فیصد بڑھی۔ گزشتہ 19 سال میں ملک کی آبادی میں 7 کروڑ 54 لاکھ 22ہزار241 افراد کا اضافہ ہوا جبکہ  آبادی میں اضافے کی اوسط سالانہ شرح 2.4 فیصد رہی۔ ملک میں اس وقت مخنثوں کی تعداد 10 ہزار 4 سو 18 بتائی گئی ہے۔

ملک میں مجموعی طور پر 3 کروڑ 22 لاکھ 5 ہزار گھر ہیں۔ دیہی علاقوں میں 2 کروڑ 12 ہزار 797 جبکہ شہری علاقوں میں ایک کروڑ 21 لاکھ 92 ہزار324 گھرانے آباد ہیں۔ ملک کی 13 کروڑ 21 لاکھ آبادی دیہات جبکہ 7 کروڑ 55 لاکھ شہری شہروں میں آباد ہیں۔ صوبوں میں سب سے زیادہ آبادی پنجاب کی ہے جو 11 کروڑ 12 لاکھ 422 بنتی ہے جبکہ سندھ 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51 ، خیبرپختونخوا 3 کروڑ 5 لاکھ 23 ہزار 271 اور بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 ہے۔

پنجاب میں ملک کی کل آبادی کا 53 فیصد، سندھ 23.12 فیصد، خیبرپختونخوا  14.7فیصد جبکہ فاٹا میں 2.4 فیصد ہے۔ پنجاب میں دیہی آبادی کا تناسب 63 فیصد جبکہ 37 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ سندھ میں شہری آبادی کا تناسب 52.2 فیصد یعنی 2 کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار 458 ہے اور دیہی آبادی 2 کروڑ 29 لاکھ 75 ہزار 593 ہے۔ خیبرپختونخوا کی شہری آبادی 57 لاکھ 29 ہزار 634 اور دیہی آبادی 2 کروڑ 47 لاکھ 93 ہزار 737 ہے۔

اسی طرح فاٹا کی شہری آبادی ایک لاکھ 41 ہزار 889 ہے اور دیہی آبادی 48 لاکھ 59 ہزار 778 ہے۔ ملک بھر میں مجموعی طور پر شہروں کی آبادی 36.38 فیصد بڑھی۔ ملکی آبادی میں تناسب کے اعتبار سے پنجاب اور سندھ کی آبادی میں کمی جبکہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور فاٹا کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت نے ملک میں چھٹی مردم شماری کے انعقاد کا اعلان کیا تو طریقہ کار پر کچھ تحفظات کے باوجود ہر طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا اور کیوں نہ کیا جاتا؟ یہ ملک کے بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کا سوال ہے۔ لیکن جیسے ہی اس شماری کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو روایات کے عین مطابق سیاسی جماعتوں نے اس پر واویلا شروع کر دیا۔

تاہم ن لیگی حکومت اپنے اس کارنامے کو منزل تک پہنچانے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ سرکاری سطح پر ان نتائج کو نہ صرف تسلیم کر لیا گیا ہے بلکہ نئے انتخابات بھی انہی اعداد و شمار پر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ سے نئی حلقہ بندیوں کے بل کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن نے تیزی سے کام کا آغاز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں پنجاب میں قومی اسمبلی کی 9 نشستیں کم ہو جائیں گی، جو خیبرپختونخوا(5)، بلوچستان (3) اور اسلام آباد (1)کو ملیں گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حالیہ مردم و خانہ شماری سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں ملک کے بہتر مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔ ملکی آبادی میں 2.4فیصد سے اضافے کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بھارت میں اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح 1.26فیصد، ایران میں 1.27 فیصد، بنگلہ دیش میں 1.2فیصد اور چین میں 0.52 فیصد ہے۔ اس طرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح تقریباً دگنی ہے جس پر اگر حکومت نے قابو نہ پایا تو مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ لہٰذا ایک طرف نہ صرف خاندانی منصوبہ بندی کو از سر نو تشکیل دیا جائے بلکہ دستیاب افرادی قوت کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے مواقع پیدا کئے جائیں۔

ماضی کی مردم شماریاں،کب کیا ہوا
1951ء کی مردم شماری
قیام پاکستان سے قبل برطانوی سامراج نے آخری بار 1941ء میں اس خطے میں مردم و خانہ شماری کرائی اور بعدازاں پاکستان کو یہ نظام اسی طرح ورثے میں مل گیا۔ اس نظام کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی پہلی مردم و خانہ شماری ٹھیک دس سال بعد یعنی اس کے قیام سے صرف 4 سال بعد1951ء میں کروائی گئی۔ اس مردم شماری کے انعقاد پر زیادہ سوالات نہیں اٹھائے جاتے کیوں کہ اس دور میں پاکستان ایک نومولود ریاست تھی اور لوگوں کے ذہن میں ابھی علاقائی حقوق کا تصور اجاگر نہیں ہوا تھا، پھر ابھی ہجرت بھی مکمل نہیں ہو سکی تھی، اس وقت بھی چند ماہ کے دوران تقریباً 70 لاکھ مہاجرین آئے۔ اس مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی ساڑھے 7 کروڑ تھی، جس میں سے 3 کروڑ 37 لاکھ مغربی جبکہ 4 کروڑ 20 لاکھ شہری مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر تھے۔

1961ء کی مردم شماری
1961ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ پر پہنچ گئی، جس میں سے 4کروڑ 28 لاکھ لوگ مغربی جبکہ 5 کروڑ مشرقی پاکستان میں تھے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں شرح خواندگی 21.5 فیصد جبکہ مغربی پاکستان میں 16.3 فیصد تھی تاہم ملک میں مجموعی شرح خواندگی 19.2 فیصد تھی۔ لیکن اس مردم شماری کے بارے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا۔ مشرقی پاکستان سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اس کی آبادی دانستہ کم ظاہر کی گئی ہے تاکہ اس کو ملنے والے وسائل اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹا کم کیا جا سکے۔ ان اعتراضات اور اختلافات کے باعث ایک بار تو یہ مردم شماری ہی ناکام ہونے جا رہی تھی، لیکن بعدازاں صوبائیت، لسانیت اور سیاسی بنیادوں پر اسے مکمل کر لیا گیا۔

1972ء کی مردم شماری
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باعث 1971ء میں ہونے والی مردم و خانہ شماری 1972ء میں کروائی گئی، جسے اب تک ملک کی شفاف مردم شماری قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ اس وقت پوری قوم ملک ٹوٹنے پر سکتے کے عالم میں تھی اور نجی مفادات کسی حد تک بالائے طاق رکھے گئے۔ اس مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 7 کروڑ 20 لاکھ تھی۔

1981ء کی مردم شماری
1981ء کی مردم شماری کو مختلف مضبوط دھڑوں کے سیاسی اور علاقائی تعصبات کا سامنا تھا۔ مردم شماری کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان کے کچھ مخصوص علاقوں میں آبادی کی تعداد حقائق کے منافی تصور کی گئی، جسے کراچی کی منتخب قیادت نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔جنرل ضیاء الحق نے جماعت اسلامی کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے محدود پیمانے کی مردم شماری کرائی، لیکن مختصر مردم شماری کا تجربہ لوگوں کو مطمئن نہ کرسکا۔ بلوچستان کے متعلق جب تمام دستاویزات صدر ضیاء الحق کو پیش کی گئیں تو بقول حکام (محکمہ شماریات) ان کی خواہش پر بلوچستان کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا گیا تاکہ عالمی فنانشل اداروں سے مالی فوائد حاصل کئے جا سکیں۔ پاکستان کی چوتھی مردم شماری (1981ء) میں پاکستانیوں کی کل تعداد 8 کروڑ 37لاکھ بتائی گئی۔

1998ء کی مردم شماری
1991ء میں ایک بار پھر مردم شماری موخر کر دی گئی کیوں کہ 1990ء کا عشرہ پاکستان کی سیاست میں خاصا ہیجان انگیز تھا۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران چار حکومتیں قائم ہوئیں، جن میں سے کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکی۔ کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا تھا ، جب کہ ملک کے دیگر حصوں کے بارے میں بھی یہ رائے پائی جاتی تھی کہ وہاں بھی حالات مردم شماری کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ چنانچہ 1991ء میں متوقع مردم شماری کرانے کا رسک کوئی بھی حکومت نہیں لے سکی۔ یوں مردم شماری مسلسل ٹلتی رہی۔ بالآخر سات برس کی تاخیر کے بعد میاں نواز شریف کی دوسری حکومت نے 1998ء میں مردم شماری کرانے کا بیڑا اٹھایا لیکن اس پر اٹھائے گئے سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔ لیکن اس کی بنیاد پر آج تک بڑے قومی، سیاسی اور مالیاتی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ وطن عزیز کی اس پانچویں مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی لگ بھگ 13کروڑ تک پہنچ گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔