سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تحلیل کردی

صباح نیوز / طفیل احمد  ہفتہ 13 جنوری 2018
اٹارنی جنرل کو پی ایم ڈی سی کا بنیادی ڈھانچہ بنانے کا حکم، سیکریٹری کا عہدہ برقرار رہے گا۔ فوٹو: فائل

اٹارنی جنرل کو پی ایم ڈی سی کا بنیادی ڈھانچہ بنانے کا حکم، سیکریٹری کا عہدہ برقرار رہے گا۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کونسل کو تحلیل کر کے عبوری کمیٹی قائم کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو پی ایم ڈی سی کا بنیادی ڈھانچہ بنانے کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس پورے عمل کی نگرانی میں خود کروں گا۔ جمعے کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے پی ایم ڈی سی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پی ایم ڈی سی سے متعلق ایڈووکیٹ سردار لطیف کھوسہ کی طرف سے دائر اپیل منظور کرلی جبکہ پی ایم ڈی سی کے وکیل کی جانب سے کونسل کو کام کرنے دینے سے متعلق اپیل مسترد کر دی۔

سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل  تحلیل کرتے ہوئے عبوری کمیٹی بنانے کا حکم دیا، جس کی سربراہی جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کریں گے۔پی ایم ڈی سی کے سیکریٹری اپنے عہدے پربرقرار رہیں گے، عبوری کمیٹی میں اسلام آباد اور چاروں صوبوں سے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، خیبر میڈیکل یونیورسٹی، سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزکے وائس چانسلرز (وی سی) ، فوج کے سرجن جنرل اور پرنسپل بولان میڈیکل کالج شامل ہوں گے جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان بھی عبوری کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

یہ عبوری کمیٹی پی ایم ڈی سی کے نئے انتخابات کرانے کی ذمے دار ہو گی، یہی سیٹ اپ کمیٹی بناکر میڈیکل کالجز کی انسپکشن کرے گا ۔عدالت کا کہنا ہے کہ آرڈیننس کی مدت پوری ہونے کے بعد کونسل کی قانونی حیثیت پرسوالیہ نشان ہے، پی ایم ڈی سی کی اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، وجوہ تحریری فیصلے میں دی جائیں گی۔

گزشتہ روز مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب کے تمام میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ تمام کالجز کا دورہ کیا جائے گا اور معیار پر پورا نہ اترنے والے کالج بند کر دیے جائیں گے۔

پی ایم ڈی سی 1962میں ایک آرڈینس کے تحت عمل میں آئی تھی

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) 1962 میں ایک آرڈینس کے تحت قیام عمل لائی گئی تھی جس کے بعد قومی اسمبلی سے آرڈیننس کی منظوری دی گئی، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا مقصد ملک کی طبی و دانتوں کے امراض کی تعلیم کی مانیٹرنگ کرنا اور ان کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کی نگرانی اورکالجوں میں تمام طبی یونٹس اور فیکلٹی کو بھی مکمل کروانا تھا لیکن بدقسمتی سے 1990کے بعد جب پرائیویٹ میڈیکل کالجز بننا شروع ہوئے تو یہ سوال اٹھایا گیا کہ پی ایم ڈی سی کی کونسل کی ایگزیکٹو باڈی میں پرائیویٹ میڈیکل کالجزکے نمائندوں کو بھی نمائندگی دی جائے۔

کونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی میں پہلے میڈیکل یونیورسٹیز کے نمائندوںکوکونسل میں نمائندگی کی منظوری دی گئی تھی، بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور میں تمام پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کے نمائندوںکو بھی کونسل میں نمائندگی دے دی گئی، اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور میں بھرپور پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجوںکے قیام کی اجازت دی گئی جبکہ منظور کیے جانے والے نئے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں بیشتر پرائیویٹ میڈیکل کالجوںکی عمارت اورمیڈیکل فیکلٹی بھی ادھوری تھی۔

پیپلز پارٹی کے دور میں بیشتر پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کو ایم بی بی ایس کی تعلیم کیلیے عارضی طور پر کلاسیں شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی جبکہ بعض ایسے بھی ڈینٹل کالجز ہیں جنھوں نے سیاسی اثر رسوخ کی بنا پر ڈینٹل کے ساتھ میڈیکل کالج (ایم بی بی ایس)کی کلاسیں بھی شروع کرا دی گئی تھیں جس کی وجہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوںکی نمائندگی سرکاری کالجوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گئی اور اس طرح پی ایم ڈی سی کے تمام فیصلے پرائیویٹ کالجوں کے نمائندوںکے ہاتھوں میں چلے گئے، جس کا نقصان اور خمیازہ امیدواروں کو مہنگی فیسوں کی شکل میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

سیاسی بنیادوں پر پی ایم ڈی سی سے اجازت لینے والے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں من مانی فیسوں میں ہولناک اضافہ کر دیا گیا، نامکمل فیکلٹی و عمارت کے ساتھ ایم بی بی ایس کی سیٹوں میں بھی اضافہ کر دیا جبکہ بیشتر پرائیویٹ میڈیکل وڈینٹل کالجوں میں تعلیم اور کلینکل کی سہولتیںکم جبکہ ماحول آزادانہ بنا دیا گیا۔

واضح رہے کہ کسی بھی میڈیکل و ڈینٹل کالج کے قیام کیلیے اس کا اپنا اسپتال ہونا بھی لازم ہوتا ہے، منظور کیے جانے والے بیشتر پرائیویٹ میڈیکل کالجوںکے اپنے اسپتال بھی نہیں جبکہ ایسے کالجوں نے اپنے امیدواروں کو کلینکل پریکٹس کیلیے دوسرے اسپتالوں سے رابطہ کر رکھا ہے جبکہ بعض کالجوں نے ٹرسٹ کے اسپتالوںکوکرائے پر لے رکھا ہے۔

کسی بھی میڈیکل کالج کے قیام کیلیے ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ اسپتال میں 10فیصد غریب مریضوں کو مفت علاج کی سہولتیں دی جائیں جوکسی بھی پرائیویٹ میڈیکل کالج کے تحت فراہم نہیں کی جا رہیں، کراچی میں پرائیویٹ اسپتال مکمل طور پر تجارتی بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں، پی ایم ڈی سی قواعد کے مطابق کالجوں میں غریب اور مستحق طالب علم کو تمام فیسوں کا 10فیصد حصہ طالب علموںکو اسکالر شپ کی صورت میں دینا لازم ہوتا ہے جوکوئی بھی نہیں دیتا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔