- مسلح ملزمان نے سابق ڈی آئی جی کے بیٹے کی گاڑی چھین لی
- رضوان اور فخر کی شاندار بیٹنگ، پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو ہرادیا
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 6 اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی
- نارتھ ناظم آباد میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کردیا
- کراچی ایئرپورٹ پر روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کا افتتاح،پہلی پرواز عازمین حج کو لیکر روانہ
- شمسی طوفان سے پاکستان پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے، سپارکو
- سیاسی جماعتیں آپس میں بات نہیں کریں گی تو مسائل کا حل نہیں نکلے گا، بلاول
- جرمنی میں حکومت سے کباب کو سبسیڈائز کرنے کا مطالبہ
- بچوں میں نیند کی کمی لڑکپن میں مسائل کا سبب قرار
- مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آوازوں کے متعلق ماہرین کی تنبیہ
- دنیا بھر کی جامعات میں طلبا کا اسرائیل مخالف احتجاج؛ رفح کیمپس قائم
- رحیم یار خان ؛ شادی سے انکار پر والدین نے بیٹی کو بدترین تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالا
- خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین منتخب
- وزیراعظم کا ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام کا اعلان
- برطانیہ؛ خاتون پولیس افسر کے قتل پر 75 سالہ پاکستانی کو عمر قید
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- جماعت اسلامی کا اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے سے انکار
- بجٹ میں سیلز اور انکم ٹیکسز چھوٹ ختم کرنے کی تجویز
- پیچیدہ بیماری اور کلام پاک کی برکت
- آزاد کشمیر میں مظاہرین کا لانگ مارچ جاری، انٹرنیٹ سروس متاثر، رینجرز طلب
DNA فنگر پرنٹ تکنیک سے کوئی مجرم شناخت سے بچ نہیں سکتا
کراچی: ڈی این اے فنگر پرنٹ تکنیک سے کوئی بھی مجرم اپنی شناخت سے بچ نہیں سکتا۔
طبی نکتہ نگاہ سے مذکورہ تکنیک کسی بھی جاندارکی شناخت کیلیے حتمی سمجھی جاتی ہے، قدرتی طورپر ہر انسان کا ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid )ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جس طرح سے کسی بھی فردکی انگلیوں کے نشانات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ہر انسان کا ڈی این اے اسٹرکچر(بنیادی ڈھانچہ) دوسرے انسان سے علیحدہ ہوتا ہے۔
کسی بھی انسان کو تلاش یا سراغ لگانے کیلیے اس سے حاصل ہونے والا ڈی این اے اس کے استعمال کی جانے والی اشیا تولیہ،کپڑے، تھوک، کٹے ہوئے بال، ناخن سمیت ہر وہ اشیا جو اس کے استعمال میں ہو، ڈی این اے حاصل کیاجاسکتا ہے، دوسری جانب متاثرہ افراد یا زیادتی کا نشانہ یا قتل کیے جانے والی لڑکی کا بھی ڈی این اے حاصل کیاجاتا ہے۔
ڈی این اے خون کے نمونے سے بھی لیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں افرادکے ڈی این اے کا موازنہ کیا جاتا ہے اورفنگر پرنٹ تکنیک کے ذریعے یہ معلوم کیاجاتا ہے کہ زیادتی کرنے والا شخص کا ڈی این اے میچ کررہا ہے یا نہیں، اس تیکنیک سے تصدیق کی جاتی ہے، مذکورہ تیکنیک کسی بھی جاندارکی شناخت کیلیے حتمی سمجھی جاتی ہے۔
ڈی این اے تیکنیک کے ذریعے یہ بھی معلوم کیاجاسکتا ہے کہ مجرم کی نسل کیا ہے، اسے تکنیکی اعتبار سے Short Tendem Repcat کہا جاتا ہے،ڈی این اے کے (STR ) ہر انسان سے مختلف ہوتے ہیں اس کی شناخت اور (STR ) کی فنگرپرنٹ کسی بھی انسان کی شناخت کے لیے حتمی سمجھی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں اس تیکنیک نے شعبہ طب میں انقلاب برپاکردیا ،اس تیکنیک سے کوئی بھی مجرم اپنی شناخت سے چھپا نہیں سکتا تاہم یہ تیکنیک صرف پنجاب میں موجود ہے لیکن سندھ میں اس تیکنیک سے محکمہ صحت محروم ہے البتہ 5سال قبل سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے حیدرآباد جامشورومیں لمس میڈیکل یونیورسٹی میں ایک ادھوری لیب کوڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ڈیکلرقرار دیاتھا لیکن اس لیب میں فنگرپرنٹ تیکینک سمیت دیگرسہولتیں میسر نہیں جبکہ یہ لیبارٹری بھی اب غیر فعال ہوگئی۔
دریں اثنا ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر ایس شمسی نے ایکسپریس کوبتایاکہ زنیب کی لاش اور اس کے جسم اورکپٹروں سے حاصل کیا جانے والا ڈی این اے لیاگیا جوگرفتارکیے جانے کے شخص سے میچ کرگیا اس تیکنیک کے ذریعے مجرم کے کپڑے ، پکڑنے یا جسم کو ہاتھ لگانے سے مجرم کا ڈی این اے کپٹروں یا جسم میں لگ جاتا ہے، اسی تیکنیک سے گمشدہ کوئی بھی مجرم یا جھلس کرجاں بحق ہونے والے کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر ایس شمسی کاکہنا تھا کہ اس تیکنیک میںکسی بھی غلطی کا امکان نہیں ہوتا یہ تیکنیک شعبہ طب میں حتمی اورمستند سمجھی جاتی ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ یہ تیکنیک 20سال قبل امریکا میں متعارف کرائی گئی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تیکینک ملٹری کمبائنڈ اسپتال پنڈی میں بھی موجود ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔