اہم سیاسی راہ نماؤں کی واپسی اور نئی حلقہ بندیاں

جی ایم جمالی  بدھ 27 مارچ 2013
پرویز مشرف کی وطن واپسی کے شو پر کروڑوں نہیں، اربوں روپے خرچ کئے گئے ہوں گے لیکن یہ ہر حوالے سے ایک فلاپ شو تھا۔  فوٹو: فائل

پرویز مشرف کی وطن واپسی کے شو پر کروڑوں نہیں، اربوں روپے خرچ کئے گئے ہوں گے لیکن یہ ہر حوالے سے ایک فلاپ شو تھا۔ فوٹو: فائل

کراچی: نگران حکومت کے قیام اور انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد سندھ میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔

سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف ساڑھے 4 سال کی جلا وطنی کے بعد اور بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این بی) (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل چار سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچے اور انہوںنے اپنی واپسی کے لئے کراچی کا انتخاب کیا۔ قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ (ہم خیال) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم بھی وطن واپس پہنچے لیکن انہوںنے کراچی کے بجائے لاہور اترنے کو ترجیح دی کیونکہ ساڑھے چار سال پہلے سندھ اسمبلی میں ان کے ساتھ جو ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تھا، اس کے بعد شاید انہوںنے کراچی آنا مناسب نہیں سمجھا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد کراچی آنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی آمد سے قبل یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کے ساتھ ان کا سیاسی معاہدہ ہوچکا ہے ان کے استقبال کے لئے ایم کیو ایم کے کارکن بھی جلوس میں شرکت کریں گے اور کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250 میں ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کی حمایت کرکے ایم کیو ایم اردو بولنے والے حاضر سروس فوجی جرنیلوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایم کیوایم انہیں سیاسی طور پر ’’اکاموڈیٹ‘‘ کرسکتی ہے لیکن پرویز مشرف کی آمد سے تین دن پہلے ایم کیو ایم نے ان سے کسی قسم کا معاہدہ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تردید کردی۔

پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کی طرف سے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بڑے پیمانے پر اشتہارات چلائے گئے۔ کراچی کی مختلف شاہراہوں پر بڑے بڑے سائن بورڈز لگائے گئے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں کئی دن پہلے استقبالیہ کیمپ بھی قائم کئے گئے لیکن استقبال کا شو مکمل طور پر ناکام رہا۔ چند سو افراد کراچی ایئرپورٹ پہنچے تھے اور ان میں بھی زیادہ تر لوگ پرویز مشرف کی آمد سے لاتعلق نظر آرہے تھے۔

پرویز مشرف کی وطن واپسی کے شو پر کروڑوں نہیں، اربوں روپے خرچ کئے گئے ہوں گے لیکن یہ ہر حوالے سے ایک فلاپ شو تھا۔ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر 24 مارچ 2013ء کو پرویز مشرف 5 گھنٹے سے زیادہ ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میںمحصور رہے۔ اس وقت انہیں 12 مئی 2007ء یاد آرہا ہوگا۔ جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔

24 مارچ 2013ء کو لوگ اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ کیا پرویز مشرف اس جرأت کا مظاہرہ کریں گے جو 18 اکتوبر2007ء کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایئرپورٹ سے استقبالی جلوس کے ساتھ سفر کرکے کی تھی؟ لیکن پرویز مشرف ایسی جرأت کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ انہوںنے ساڑھے پانچ گھنٹے بعد ایئرپورٹ پر صحافیوں سے مختصر بات کی اور اپنے استقبال کرنے والے لوگوں کو چھوڑ کر انتہائی سخت سیکورٹی میں مقامی ہوٹل روانہ ہوگئے۔ اگرچہ مزار قائد پر ان کے جلسے کا اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ وہاں جلسہ منعقد بھی نہیں کرسکتے تھے کیونکہ جلسے کے لئے لوگ ہی نہیں تھے۔

بی این پی کے رہنماء سردار اختر جان مینگل کی وطن واپسی کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں سب سے اہم سوال بلوچستان میں انتخابات کا پر امن انعقاد ہے۔ اگر بی این پی کو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کرلیا جاتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس سے نہ صرف بلوچستان میں انتخابات کی حامی قوتوں کو تقویت ملے گی بلکہ اس کے مثبت اثرات کراچی کی صورتحال پر بھی پڑیں گے۔ اس وقت کراچی میں پر امن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جن گروہوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ ان میں طالبات کے مختلف گروہ، بلوچ علیحدگی پسندوں کے مختلف گروہ اور مختلف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ شامل ہیں۔

اس مرتبہ کراچی میں نہ صرف مضافاتی علاقوں میں انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگا بلکہ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں بھی امیدواروں کا عوام سے رابطہ کرنا خطرات سے خالی نہیں ہوگا ۔اگرچہ کراچی کا علاقہ لیاری سب سے زیادہ حساس ہے لیکن کراچی کے دیگر علاقے بھی نارمل نہیں ہیں ۔کراچی میں بدامنی کے سبب اس شہر کے بہت سے سینئر سیاسی رہنما انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کررہے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی بدامنی کیس میں نگران حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ کراچی میں 15 دن کے اندر امن قائم کرے اور تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے ۔

نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) زاہد قربان علوی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ 15، دنوں میں امن و امان کی صورتحال میں فرق نظر آئے ۔اگر کوئی فرق پیدا ہوا تو سپریم کورٹ سے ہم مزید وقت مانگیں گے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت الیکشن کمیشن نے کراچی میں انتخابی فہرستیں ازسرنو مرتب کی ہیں لیکن ان فہرستوں سے تقریباً تمام سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہیں ۔

الیکشن کمیشن نے کراچی کی قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی کے 42 حلقوں میں قومی اسمبلی کے صرف تین اور صوبائی اسمبلی کے صوف 8 حلقوں کی حلقہ بندیاں تبدیل کردی ہیں ۔اس تبدیلی کی پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اورعوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) مخالفت کررہی ہیں ۔جبکہ دیگر جماعتیں نہ صرف ان تبدیلیوں کی حامی ہیں بلکہ مزید حلقہ بندیاں تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں ۔کراچی میں پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان انتخابات کے ماحول کو پر امن رکھنے کیلئے غیر اعلانیہ مفاہمت نظر آرہی ہے ۔اگر ایسا ہے تو کراچی کے حالات پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

آئندہ عام انتخابات کیلئے امیدواران نے کاغذات نامزدگی جمع کرانا شروع کردیئے ہیں ۔پیپلزپارٹی میں کئی چہرے تبدیل ہوسکتے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے نوجوان رہنما سید اویس مظفر نے ٹھٹہ سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔سندھ حکومت سے معاونت اور صوبے میں سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے ان کا کردار بہت اہم ہے ۔پیپلزپارٹی کے کارکن ان کے انتخابات لڑنے پر بہت خوش ہیں۔ سندھ کی آئندہ کی سیاست میں ان کا کردار بہت اہم ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔