فیشن ڈیزائننگ اور گھریلو بوتیک

اہلیہ محمد فیصل  اتوار 11 فروری 2018
آج کی عورت معاشی جدوجہد میں مرد کا ساتھ دے رہی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

آج کی عورت معاشی جدوجہد میں مرد کا ساتھ دے رہی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پہلے کے دور میں لڑکیوں اور خواتین کا سلائی اور کڑھائی سے واقف ہونا ان کی زندگی کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا تھا۔

اس دور کی لڑکیاں اور خواتین عام طور سے اپنے کپڑے اور ملبوسات خود ہی سیا کرتی تھیں، البتہ ان لباسوں کو خوب صورت اور دیدہ زیب بنانے کے لیے ان پر ہلکے پھلکے سادہ گلے یا پھر متعدد اقسام کی ہلکی کڑھائی یا کشیدہ کاری وغیرہ کروالی جاتی تھی یا پھر ان پر سلمیٰ ستارے ٹانک کر انہیں مزید دیدہ زیب بنالیا جاتا تھا۔ لیکن وقت اور حالات نے جیسے جیسے ترقی کی تو زمانے نے بھی پلٹا کھایا، روایات و اقدار فیشن کے جدید تقاضوں سے روشناس ہوئیں، جس کے بعد سلائی اور کڑھائی کا نام فیشن ڈیزائننگ رکھ دیا گیا اور اس شعبے میں اس قدر جدت آگئی کہ اب فیشن کے مطابق کپڑے بنوانے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔

نیٹ سے ڈیزائن ڈھونڈے جاتے ہیں۔ مختلف فیشن شوز اورماڈل گرل کے ملبوسات کی تصاویر کھینچ کر درزی سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ اسی طرح کے ہو بہو لباس ہمیں بھی سی کر دیے جائیں اور اس طرح کے ملبوسات کے حصول کے لیے بے تحاشا وقت اور پیسہ صرف کیا جاتا ہے۔

آج کے دور میں فیشن ڈیزائننگ ایک آرٹ ہے، یہ قدرتی حسن کو نکھارنے کا ایک فن ہے۔ عموماً کسی بھی قسم کا آرٹ سیکھنے سے ہی پالش ہوتا ہے اور بہترین کا خطاب پاتا ہے۔ اس ضمن میں آج کل خواتین ایک لان کے سوٹ کو بھی اتنا فینسی اور نمایاں بنادیتی ہیں کہ اس کو دیکھ کر ستائشی کلمات بے اختیار منہ سے نکلتے ہیں۔

لان کے عام استعمال کے سوٹ کی جا بجا نمائشیں لگتی ہیں جو گرمیوں کی آمد کی علامت یا اعلان بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ شادیوں کے سیزن میں لہنگے، شرارے اور پارٹی ویئر کی نمائشیں بھی ہر جگہ نمایاں اور عام ہیں۔ نیٹ پر باقاعدہ اس کے آن لائن کورسز بھی ہورہے ہیں جس کی بدولت بہت سے نام اس شعبے میں سامنے آرہے ہیں اور شہرت پارہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہماری معاشرتی روایات میں عورت کا ملازمت کے لیے باہر نکلنا یا کسی بھی قسم کا کاروبار کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ لوگوں کی سوچ اور فکر کھل گئیں، آج بیش تر خواتین یا تو ملازمتیں کررہی ہیں اور بہت سی خواتین بڑے پیمانے پر اپنے بوتیک بھی چلارہی ہیں۔ انہی میں سے کچھ خواتین چھوٹے پیمانے پر گھریلو بوتیک قائم کرکے اپنے مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنے خاندان کی کفالت بھی کررہی ہیں۔

چھوٹے پیمانے کے ان بوتیک کو عام فہم زبان میں گھریلو معاشیات کا ایک شعبہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ گھریلو معاشیات کو کالج اور یونی ورسٹی لیول پر بہ طور مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں کل سات بڑے اداروں میں اس مضمون کی تدریس کی جارہی ہے اور نوجوان لڑکیاں اس مضمون سے بھرپور استفادہ کرکے آگے عملی زندگی کے لیے اپنی ٹھوس راہیں متعین کررہی ہیں۔ گھریلو بوتیک میں عام طور سے لان اور کاٹن کے اوسط درجے کے برانڈڈ سوٹ فروخت کیے جاتے ہیں۔

بعض خواتین بینچز اور لیسیں ورک کا کام کرواکر کپڑے کو مزید پرکشش بناکر فروخت کرتی ہیں۔ واٹس ایپ گروپ اور ایف بی پیج بناکر وہاں مختلف ملبوسات کی تصاویر اپ لوڈ کرکے کپڑے، جیولری، کاسمیٹکس اور ہینڈ بیگز وغیرہ فروخت کیے جاتے ہیں اور یہ سب کام آسانی سے گھر بیٹھے بھی ہورہے ہیں۔

اس کام اور اس محنت سے ایک عام عورت نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے۔ بلکہ اس کے اندر عدم اعتمادی کی جو فضا پروان چڑھ رہی تھی، وہ بھی اب چھٹ گئی ہے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ فروغ پارہا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔