ٹھنڈا کر کے کھا ورنہ …؟

انیس منصوری  جمعرات 1 مارچ 2018
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

کراچی کی دیواروں پر لکھا ہوتا تھا کہ ’’ہم کریں تو غداری ہے، تم کرو تو سرکاری ہے‘‘ سندھ اور بلوچستان کے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ’تم‘  بتاؤ کہ اب کہاں گیا تمھارا غداری کا سرٹیفکیٹ۔ ہم نے اگر مجیب کا نام لیا ہوتا، تو اب تک ہمارے گھروں پر اتنے چھاپے پڑچکے ہوتے کہ ہمارے گھر والے مرنے کی بد دعائیں دے رہے ہوتے۔

ہم نے عدالت کے خلاف اگر طبل ِ جنگ تو دورکی بات ہے اگر منہ بند کرکے زبان چلانے کا سوچا بھی ہوتا تو ہماری ساری نیکیاں دھل گئی ہوتیں۔ میں یہ باتیں، یہ طعنے سندھ کے چائے خانوں اور بلوچستان کی بیٹھک میں اکثر ہی سُنتا ہوں اور معلوم نہیں کیوں مجھے ایسے میں شیخ سعدی یاد آجاتے ہیں۔

شیراز میں پیدا ہونے والے سعدی کی دونوں کتابیں۔گلستان  اوربوستان حکمرانوں کو ضرور پڑھنی چاہییں۔گلستان کا پہلا باب بادشاہوں کے متعلق ہے۔ شیخ سعدی اپنی پہلی حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے قیدی کا مقدمہ سننے کے بعد اُسے پھانسی کی سزا سُنا دی۔اب بادشاہ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج تو نہیں کیا جاسکتا کہ پیشی پر پیشی لگتی رہے اور تاریخ پر تاریخ ملتی جائے  اور ملزم روزانہ ٹی وی پر آکرکہتا رہے کہ ’’مجھ سا ہو تو سامنے آئے‘‘ اب دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں کہ بادشاہ سے رحم کی اپیل کی جا سکے یا پھر بادشاہ کوگالیاں دینا شروع کردی جائیں۔

شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ بیچارے نے  ناامیدی کی حالت میں بادشاہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ بادشاہ اُس شخص کی مقامی زبان کو سمجھ نہیں پارہا تھا، لیکن وہ شخص غصے میں بادشاہ کو بہت برا بھلا کہہ رہا تھا۔ ایسے موقعے پر سعدی نے شعر کہے کہ جب ضرورت کے وقت بھاگنا ناممکن رہے تو پھرکمزور ہاتھ بھی تلوارکی نوک پکڑلیتے ہیں۔ اس پر بعد میں بات ہوگی کہ کیا نواز شریف کے پاس بھاگنے کا وقت نہیں تو انھوں نے تلوارکی نوک پکڑی ہے۔ سعدی کہتے ہیں کہ جب انسان نا امید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے۔

بادشاہ کے دربار میں جب قیدی کا شور بڑھ گیا تو بادشاہ نے ایک وزیر سے پوچھا۔ وزیر احترام سے اٹھا اور بادشاہ کے حضور سر جھکاتے ہوئے ادب سے کہا کہ ’’یہ قیدی آپ کی تعریف کر رہا ہے اورکہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں پر رحم کرتے ہیں‘‘ سزائیِ موت پانے والا تو برا بھلا کہہ رہا تھا لیکن وزیر نے اس انداز میں کہا کہ بادشاہ کا سارا غصہ ٹھنڈا  ہو گیا  اور بادشاہ نے مسکراتے ہوئے حکم دیا کہ قیدی کو آزاد کردیا جائے۔  میڈیا،کچھ سیاسی دوست اورکچھ کاروباری لوگ بھی ایسے وزیرکی تلاش میں ہیں جو بادشاہ کو محبت سے یہ بتا سکے کہ جناب ملزم تو اصل میں آپ کا خادم ہے لیکن غصے میں بول رہا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا۔‘‘

لیکن آپ کو تو معلوم ہے کہ ہر جگہ حسد کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ’’صاحب‘‘ نے بادشاہ کی خوشامد کرنے کی کوشش کی۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ وہ وزیر دوسرے وزیر سے حسد کرتا تھا۔ اسی لیے اُس کے دل میں آگ لگ گئی کہ بادشاہ نے ایک جھوٹی بات کیسے مان لی، وہ فورا کھڑا ہوا اور بادشاہ کی خدمت میں اپنا سر خم کرکے کہنے لگا کہ ہم جیسے ’’ہم پیشہ‘‘ کے لیے یہ بات اچھی نہیں کہ بادشاہ کے دربار میں جھوٹ بولیں یا سچ کے سوا کچھ اورکہیں۔

جس شخص کے سارے گناہ آپ نے معاف کردیے ہیں یہ تو آپ کوگالیاں دے رہا تھا۔ وزیر صاحب نے آپ کی خدمت میں جھوٹ کہا ہے۔ بادشاہ کا چہرہ ایک دم غصے سے سرُخ ہوگیا۔ وزیر یہ سمجھ رہا تھا کہ اُس نے آج اپنا کام مکمل کر دیا۔ اُس کے دشمن اور بادشاہ کے چہیتے وزیر کا فیصلہ آج ہو جائے گا، پورے دربار میں سناٹا چھاگیا۔

بادشاہ کبھی قیدی کو دیکھتا،کبھی اپنے من پسند وزیرکو اورکبھی اُس وزیرکو جس نے حسد کے مارے سچ توکہا لیکن دربار کا ماحول خراب ہوچکا تھا۔

بادشاہ کچھ سوچنے لگا۔ اپنے لاڈلے کی طرف دیکھا اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ اُس کے چہرے پرآگئی۔

شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے حاسد وزیرکی طر ف دیکھ کرکہا کہ وہ جھوٹ جو اس وزیر نے کہا وہ مجھے تمھارے سچ سے زیادہ پسند آیا۔اس نے جو جھوٹ کہا وہ نیکی کے لیے تھا کہ اس طرح کسی کی جان بچ جائے اور میرا غصہ بھی ٹھنڈا ہو جائے۔ جب کہ تو نے جو سچ کہا ہے اُس کی بنیاد خباثت پر ہے  اور اس کا مقصد صرف اور صرف فتنہ ہے۔ اسی لیے توکہتے ہیں کہ مصلحت آمیز جھوٹ، فتنہ پیدا کردینے والے سچ سے بہتر ہے۔ شیخ سعدی نے اس کے بعد فیصلہ سازوں کے لیے ایک اہم شعرکہا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فیصلہ سازوں پر اتنا اثر رکھتا ہے کہ وہ جوکہہ دے وہ ہی فیصلہ سازکردے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی کہ وہ شخص نیکی اور بھلائی کے علاوہ کوئی اور بات کرے۔

کہانی کو آج کے دور میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو یہ سمجھ رہا ہے کہ قیدی، بادشاہ کو جوکہہ رہا ہے وہ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہی تو یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے۔ فیصلہ کرنے والے جس قدر’’ٹھنڈا کرکے کھا رہے  ہیں‘‘  یہ بات قیدی بھی سمجھ رہا ہے۔ میں شیخ سعدی کی اس بات سے انکارکرنے والا کون ہوتا ہوں کہ ناامیدی میں کمزور ہاتھ بھی تلوار کی نوک پکڑ لیتے ہیں، لیکن اس وقت حکمران جماعت کو یہ بات معلوم ہے کہ ہم تلوارکی نوک پکڑکرکیا کرسکتے ہیں۔

میں اس بات کا حامی ہرگز نہیں ہوں کہ تلوارکی نوک پکڑنے سے پنجاب میں تمام جلسے کامیاب ہوجائیں گے اورساری سیٹیں وہ جیت جائیں گے۔ نواز شریف صاحب بھی قائد بن چکے ہیں۔کراچی میں ایک قائدکے ساتھ کیا ہوا؟یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 22 اگست کی تقریر سے پہلے ہی کراچی کے قائدکی تقریر اورخبر پر پابندی لگ چکی تھی۔کراچی سے اُن  کی ساری تصاویر ہٹا لی گئی تھیں۔ 22 اگست تو صرف ایک دن تھا۔ قیدی یہ بات جانتا ہے کہ کراچی کی جس فضا پر وہ خوش تھا وہ ہی سزا اُسے سُنائی جا رہی ہے۔

پنجاب کے دیہی علاقوں سے جیت کر آنے والے پرندوں نے اڑنا شروع کر دیا ہے۔ شیخ سعدی کی حکایت میں موجود قیدی کو آزاد کرانے کے لیے ایک نیک وزیر موجود تھا جس نے بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا کیا ۔ ایسے وزیر آج بھی موجود ہیں، لیکن انتہائی کمزور ہیں۔کراچی میں بھی ایسے وزیر’’گورنر‘‘ کی صورت میں موجود تھے لیکن رات کی تاریکی میں ہونے والی میٹھی باتیں، دن کے اجالے میں فتنہ پیدا کرنے لگتی تھیں۔ بالکل اسی طرح کے وزیر آج کل بھی سرگرم ہیں، لیکن جیسے ہی وہ رات کی تاریکی میں ماحول ٹھنڈا کر کے آتے ہیں ایک  وزیر سارے معاملے کو بگاڑ دیتا ہے۔اب ایک اورکوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح سے وقت کوگزار دیا جائے۔ انگریزی کا محاورہ time killing پالیسی لیکن کارگر ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

کراچی کے قائد پر تمام تر پابندیوں کے باوجود میڈیا کے کچھ ’’گرو‘‘اس بات پر دنگ رہ گئے تھے کہ عزیز آباد کی سیٹ متحدہ جیت گئی تھی، لیکن انجام وہ ہی ہوا جو لکھا جاچکا تھا۔اسی طرح  لودھراں کی نشست پر جیت کو حتمی کامیابی نہ سمجھا جائے۔ شہباز شریف کی صورت میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک نیک دل وزیرآچکا ہے اور شیخ سعدی کے قیدی کی رہائی پکی ہے، وہ غلط فہمی میں ہیں،کیونکہ اس مرتبہ آپ بادشاہ نہیں ہیں۔

شیخ سعدی ایک جگہ لکھتے ہیں۔آپ نے وہ بات سُنی ہے جو ایک دُبلے عقلمند نے موٹے بے وقوف سے کہی کہ عربی گھوڑا چاہے جتنا کمزور ہو لیکن لمبے گدھے سے بہت بہتر ہے  اور پھرکہتے ہیں کہ جب تک نکلنے کا راستہ معلوم نہ ہو اندر داخل نہ ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔ تلوار کی نوک کو پکڑ تو لیا گیا ہے، لیکن باہر نکلنے کا راستہ نہیں معلوم۔اس کے برعکس جو لوگ قیدی کی ساری باتوں کو سمجھ رہے ہیں وہ ٹھنڈا کرکے کھانے کی پالیسی پر ہیں اور شیخ سعدی کو پڑھنے کا وقت آپ کو ملا نہیں ہوگا،اس لیے آپ نے داخل ہونے سے پہلے نکلنے کا راستہ نہیں سوچا اوراب آپ پوچھ رہے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔