گوگل اور فیس بک آپ کے متعلق کیا جانتے ہیں؟

ویب ڈیسک  جمعـء 30 مارچ 2018
دونوں اداروں کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا اپنے پاس رکھنے سے متعلق اہم معلومات سامنے آگئیں (فوٹو: انٹرنیٹ)

دونوں اداروں کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا اپنے پاس رکھنے سے متعلق اہم معلومات سامنے آگئیں (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیلی فورنیا: دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل اور سماجی رابطے کی مشہور ترین ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے حوالے سے اہم معلومات سامنے آگئیں۔

فیس بک کے ڈیٹا چوری کے اب تک کے سب سے بڑے اسکینڈل کے بعد سے صارفین کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں متعدد نامور شخصیات کی جانب سے فیس بک سے اپنے اکاؤںٹس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے اعلانات سامنے آرہے ہیں جس کے بعد فیس بک انتظامیہ نے پرائیویسی سیٹنگز کو مزید سخت کرنے اور صارفین کےلیے آسانیاں پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سماجی رابطے کی جانب سے پرائیویسی سیٹنگز کو مزید سخت کرنے کے باوجود آپ کا ڈیٹا کتنا محفوظ ہے؟ ہم آپ کو بتائیں گے کہ فیس بک اور گوگل اپنے صارفین کے بارے میں کتنا کچھ جانتے ہیں اور تمام تر سیکیورٹی کے باوجود کون سا ڈیٹا چھپایا جاسکتا ہے جب کہ ہم یہ بھی دیکھیں گے یہ دو بڑے نیٹ ورک کس طرح صارفین کا ڈیٹا اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: فیس بک پرائیوسی سیٹنگز میں بڑی تبدیلیاں

  • گوگل اور فیس بک اسمارٹ فون رکھنے والے صارف کی ان  تمام معلومات اور کاموں سے واقف رہتے ہیں جو صارف آن لائن یا آف لائن رہتے ہوئے اپنے موبائل سے انجام دیتا ہے، یہاں تک کہ صارف اپنے موبائل سے ڈیٹا ڈیلیٹ بھی کرلے لیکن گوگل اسے اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔
  • دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کی بات کریں تو وہ اپنے صارفین کی لوکیشن محفوظ رکھتا ہے (اگر لوکیشن آن ہو) اس کے ذریعے آپ کے اسمارٹ فون استعمال کرنے کے پہلے دن سے لے کر اب تک کی لوکیشن حاصل کی جاسکتی ہیں۔
  • چونکہ ایک اسمارٹ فون (اینڈروئیڈ) رکھنے والے صارف کےلیے لازمی ہے کہ اس کا گوگل اکاؤنٹ ہو اور اسی کے ذریعے وہ اپنی تمام تر ڈیوائسز استعمال کرتا ہے لیکن وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ گوگل صارف کی جانب سے تمام ڈیوائسز پر سرچ کیا جانے والا مواد ایک الگ جگہ محفوظ رکھتا ہے اور صارف کی جانب سے موبائل، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر سے سرچ ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی وہ سرچ ہسٹری گوگل کے پاس محفوظ رہتی ہے اور یہ تمام ڈیوائسز سے ایک ساتھ مکمل طور پر ڈیلیٹ کرنا ہوگی۔

  • گوگل اپنے صارف کی فراہم کردہ معلومات سے متعلق ایک فرضی پروفائل بھی بناتا ہے جس میں صنف، عمر، جگہ، دلچسپی، رشتے کی حیثیت وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
  • گوگل صارف کی جانب سے استعمال کردہ تمام ایپلی کیشنز کا ڈیٹا بھی محفوظ رکھتا ہے کہ وہ انہیں کب، کہاں، کس سے رابطہ کرنے کےلیے استعمال کرتا ہے اور اس دوران کیا باتیں کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ گوگل آپ کے سونے کی اوقات سے متعلق بھی آگاہ رہتا ہے۔
  • صارفین کی جانب سے لی گئی تصاویر، ویڈیوز، یا کوئی بھی محفوظ کردہ ڈاکیومنٹس گوگل کی آنکھ سے نہیں بچ سکتیں اور یہ تمام ڈیٹا صارف کی جانب سے ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی گوگل کے پاس محفوظ رہتا ہے جو وہ بوقت ضرورت آپ کو فراہم بھی کرسکتا ہے۔
  • گوگل اپنے صارفین کو محفوظ کیا گیا ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کرنے کا بھی آپشن دیتا ہے جو کہ ڈاکیومنٹس کی صورت میں ہوگا جب کہ فیس بک بھی صارفین کو ڈیٹا محفوظ کرنے کا ایسا ہی آپشن دیتی ہے۔

  • گوگل یا فیس بک کی جانب سے محفوظ کی جانے والی فائل میں وہ تمام پیغامات، مواد، تصاویر، آڈیو پیغام اور رابطہ نمبر ہوتے ہیں جو صارف کی جانب سے بھیجے یا موصول کیے گئے ہوں۔
  • فیس بک کی جانب سے صارفین کا وہ ڈیٹا بھی محفوظ رکھا جاتا ہے جو خود ویب سائٹ کو لگتا ہے کہ یہ صارف کےلیے دلچسپی کا باعث ہوگا اور وہ تمام مواد بھی جو صارف کی جانب سے لائک، کمنٹس یا شیئر کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ صارف کی جانب سے بھیجی گئی ایموجی بھی فیس بک کی محفوظ فائل کا حصہ ہوتی ہے۔
  • فیس بک صارفین کی جانب سے لاگ ان اور آؤٹ کا تمام ڈیٹا بھی محفوظ رکھا جاتا ہے جس میں مقام، اوقات اور ڈیوائسز بھی شامل ہوتے ہیں کہ وہ کب اور کس ڈیوائسز سے لاگ ان ہوا۔
  • فیس بک صارفین کی جانب سے کسی پیچ کو لائک کرنا، گیم کھیلنا، میوزک سننا، سرچنگ کرنا، پیغامات بھیجنا، کسی سے چیٹ کرنا، آڈیو پیغام دینا اور ویب سائٹ میں رہتے ہوئے تمام تر اقدامات پر کڑی نظر رکھتا ہے اور اسے اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ صارفین کا ڈیٹا استعمال ہونے پر فیس بک نے معافی مانگ لی

واضح رہے کہ فیس بک کی جانب سے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران تحقیقی کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا کو 5 کروڑ صارفین کا ڈیٹا فراہم کرنے کا اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس سے فیس بک کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔