مستقبل کے معماروں پر توجہ کی ضرورت

شبنم گل  جمعرات 19 اپريل 2018
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

ملک کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تبدیلی کا طریقہ کار بہت سست ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگ تبدیل نہیں ہو سکتے۔ جب تک ذہن و سوچ کا اندازہ نہیں بدلتا، حالات نہیں بدل سکتے۔ لیکن اگر تبدیلی لانی ہے تو اس کے لیے ہمیں اپنے بچوں پر توجہ دینی ہوگی۔

اس ملک میں صورتحال یہ ہے کہ نہ فقط بچے نظرانداز ہوتے ہیں بلکہ غیر انسانی رویوں و تضاد کے باعث تکلیف اٹھاتے ہیں۔بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے، بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیے بغیر، مطلوبہ نتائج نہیں حاصل ہوسکتے۔ اس وقت بچوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جس میں جبری کام، جنسی و جسمانی تشدد، غذائی قلت اور تعلیم سے محرومی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

بچے کی عمر کے ابتدائی سال اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں بچوں کو جس طرح نظرانداز کیا جاتا ہے وہ ایک قابل مذمت رویہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بائیس ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ حالانکہ آرٹیکل 25-A کے مطابق ہر بچے کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ جس کے مطابق مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جائے گی۔ یہ دورانیہ پانچ سال سے سولہ سال تک محیط ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔

اس فیصلے کے بعد بھی بچوں کے اسکول میں داخلے کا گراف نہ بڑھ سکا۔ جس کی وجہ والدین کے غیر سنجیدہ رویے اور علم کی افادیت سے بے خبری ہے۔ جب کہ بہت سے والدین نے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو اسکول سے اٹھالیا۔ کم آمدنی رکھنے والے ہر گھر میں پانچ سے آٹھ بچے پلتے ہیں۔ اسکول کے اخراجات ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے یہ بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن گزشتہ چند سال میں مفت تعلیم کے اعلان کے بعد چند بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا اب وہ دوبارہ اسکول جانے لگے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے ہیں، جن کے سروں پر والدین کا سایہ نہیں وہ کم عمری میں ہی محنت مزدوری کرنے لگتے ہیں۔

پرائمری میں داخلہ لینے والے 69 فیصد بچے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ فقط 28 فیصد بچے میٹرک کر پاتے ہیں۔ 62 فیصد بچے اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں مگر 20 فیصد اعلیٰ تعلیم کے ہدف تک پہنچ پاتے ہیں۔ کافی اسکول بغیر عمارت و بنیادی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے بچوں کو پڑھائی جاری رکھنے کی ترغیب نہیں دے سکتے۔ سندھ میں 17 فیصد اسکول بغیر عمارت کے علمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں 44 فیصد ادارے بجلی کی سہولت سے عاری ہیں، 28 فیصد کے پاس ٹوائلٹ اور 34 فیصد اسکولوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں تعلیم کو فروغ نہیں دیا جاسکتا جب تک تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں۔

امن و امان کے مسائل اور کم عمر بچیوں کے ساتھ نازیبا واقعات کے بعد، لڑکیوں کا تعلیمی تسلسل بری طرح متاثر ہو جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 49 فیصد لڑکیاں تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔ جب کہ چالیس فیصد لڑکے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ بچے محبت کی زبان زیادہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ انھیں ہمہ وقت تحرک و ترغیب کی ضرورت رہتی ہے۔ بہت سے بچے ذہنی و جسمانی بیماریوں کی وجہ سے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے یا ان کے سیکھنے کا طریقہ بے حد سست ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں والدین اور اساتذہ کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ و جسمانی سزاؤں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سارے بچے اسکول کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ والدین کی سختیوں اور اساتذہ کے جسمانی تشدد کی وجہ سے کئی ذہنی و طبعی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ کے جارحانہ رویوں کی مختلف وجوہات ہیں جن میں قابل ذکر رویے کچھ اس طرح سے ہیں:

اذیت پسندانہ رویے

گھریلو جھگڑے

تعلیمی اداروں میں ذہنی تضادات

کام کی زیادتی

منفی رویوں کی بوچھاڑ وغیرہ شامل ہیں

لہٰذا ایک اور قانون متعارف کروایا گیا جسے Sindh Prohibition of Corpral Punishment Act کا نام دیا گیا۔ جس کے تحت اٹھارہ سال تک کے بچوں کی جسمانی سزائیں، بدترین تشدد ، عزت نفس مجروح ہونے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ بچوں کی سزائیں دنیا کے باون ملکوں میں بین کردی گئی ہیں۔ یہ مسئلہ فقط چھوٹے بچوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے کالج و اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبا، اساتذہ کے نامناسب رویوں کی شکایت کرتے آئے ہیں۔ جن میں ان کی طرف کوئی چیز مارنے والے انداز میں پھینکنا، انھیں کلاس روم سے باہر نکال دینا، امتحان میں فیل کرنے کی دھمکیاں دینا شامل ہے۔

طالب علموں کا کہنا ہے کہ یہ اساتذہ خود کو اپنے اداروں کے بے تاج بادشاہ گردانتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ طالب علموں کو پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے تک، ایک مربوط قانونی نظام چاہیے۔ جو قدم قدم پر ان کی حفاظت پر مامور ہو۔ کیونکہ جسمانی و اخلاقی تحفظ دیے بغیر ہم نئی نسل کو کارآمد شہری نہیں بناسکتے۔ چاہے تعلیمی اداروں کے ساتھ ہاسٹلز پر بھی مشاہدے و نظرداری کی اشد ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ اساتذہ کو بھی اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ انھیں پڑھائی سے دور بھاگنے والے کام چور بچوں کو راہ راست پر واپس لانے کے لیے شدید محنت کرنی پڑتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی بہتر کارکردگی کے لیے چند بنیادی باتوں کو مدنظر رکھا جائے۔

بہترین انفرااسٹرکچر۔ بنیادی ضروریات جیسے صاف غذا، پانی اور ماحول کی صفائی وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے نفسیاتی موضوعات پر مذاکرے و تربیتی ورکشاپ وغیرہ منعقد کرنا، اساتذہ کے لیے جدید تربیتی ورکشاپ، جو ان کے مضمون میں مہارت کے ساتھ ان میں قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دے سکیں۔

طالب علموں کی غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرنا۔

نجی اسکولوں میں مادری زبان کا مضمون شامل کیا جانا چاہیے۔ نجی اسکولوں کو چاہیے کہ وہ مختلف گریڈز کے الگ اسکولز کی عمارت کے بجائے ایک کیمپس کو ترجیح دیں جس میں کھیل کود کے لیے گراؤنڈ وغیرہ ہو۔ بچوں کو ماحولیاتی آگہی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کتاب کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اداروں کے کتب خانوں کی سرگرمیوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

نصاب میں ماحول، نفسیات، باغبانی و مثبت رویوں سے متعلقہ زیادہ سے زیادہ معلومات دینی چاہیے۔ تعلیم کے بجٹ میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے۔ تعلیم، صحت اور قانون کے شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ تعلیمی قانون سازی کے حوالے سے 25-A ایکٹ کے تحت اساتذہ کے فرائض کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق استاد کے لیے وقت کی پابندی، مقررہ مدت میں نصابی سرگرمیوں کی تکمیل، بچے کی علمی و تخلیقی صلاحیت کا فروغ، دوستانہ ماحول، والدین سے رابطہ وغیرہ لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ اس قانون کے اطلاق اور موثر ہونے کے لیے مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ اگر غیر جانبدار نظام کو فوقیت دی جائے اور اچھے نتائج پر اساتذہ کو جلدی ترقی و دیگر انعام واکرام سے نوازا جائے تو ہر شعبے میں بہتری آسکتی ہے۔

تعلیمی نظام، ہر قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تعلیمی اداروں میں فقط علم نہیں بانٹا جاتا بلکہ نئی نسل کی ذہنی، جسمانی و روحانی تربیت کی جاتی ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب اساتذہ بھی ذہنی و روحانی طور پر فعال ہوں۔ ہماری زیادہ تر توجہ ہائر سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ نظام تعلیم پر مرکوز ہوتی ہے۔ جب کہ پرائمری نظام تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو نہیں سمجھا جاتا۔ جب تک بنیاد پختہ نہ ہو تو عمارت مضبوط نہیں ہو سکتی۔

دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو رتبے و عہدے کو ذہنی قابلیت پر زیادہ فوقیت دیتا ہے۔ پرائمری اساتذہ کے معیار زندگی اور تنخواہوں کو بہتر سے بہتر بنانا چاہیے تاکہ ان کے اندر جو احساس محرومی پروان چڑھتی رہی ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔