راجا پرویز کا دور، 69 ارکان پارلیمنٹ کو 47 ارب فنڈ دینے کا ازخود نوٹس

نمائندہ ایکسپریس  بدھ 17 اپريل 2013
پلازا قبضہ کیس میں اویس ٹپی ودیگرکونوٹس،کامران فیصل کیس میں نیب کابینچ پر اعتراض،یہ قدرتی موت نہیں ہے، سپریم کورٹ۔ فوٹو: فائل

پلازا قبضہ کیس میں اویس ٹپی ودیگرکونوٹس،کامران فیصل کیس میں نیب کابینچ پر اعتراض،یہ قدرتی موت نہیں ہے، سپریم کورٹ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سابق ارکان قومی اسمبلی کیلیے 47ارب روپے کے سرکاری فنڈز جاری کرنے کا ازخود نوٹس لے لیا۔

سیکریٹری خزانہ اورسیکریٹری کابینہ ڈویژن کو آج طلب کر لیا ہے۔چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹ پر ازخود نوٹس لیا  ہے جس میںکہا گیا کہ سابق وزیر اعظم پرویز اشرف نے  قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے دس دن بعد ترقیاتی فنڈزکے نام پر اربوں روپے جاری کیے۔فائدہ حاصل کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم  سید یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہیں جنھوں نے نااہلیت کے بعد ڈھائی کروڑ روپے پرویز اشرف سے حاصل کیے، اس کے علاوہ یوسف رضا گیلانی کے دونوں صاحبزادے عبدالقادر گیلانی اور موسیٰ گیلانی بھی شامل ہیں۔

مونس الہیٰ کو پانچ کروڑ ،شجاعت حسین، پرویز الہیٰ اور وجاہت حسین کو ایک ارب روپے ترقیاتی فنڈزکی صورت میں دیے گئے ۔شیخ وقاص اکرم تین کروڑ، سندھ کے شیرزای برادران کو 10 کروڑ اور راجا پرویز اشرف کے حلقے کو ڈھائی ارب روپے  جاری کیے گئے۔مجموعی طور پر 69پارلیمنٹیرینزکو اربوں روپے جاری ہوئے۔

وزارت خزانہ نے رقم کے اجرا کی تصدیق کی ہے اور اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں پیپلز ورکس پروگرام کیلیے 22ارب روپے جاری کیے گئے اور وزیر اعظم کی ہدایت پر مزید 25ارب جاری ہوئے۔تفصیلات سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس نے حکم جاری کیا ہے کہ 47 ارب روپے جاری کرنے کی تصدیق ہوگئی ہے اس لیے مفاد عامہ میں اس کیس کو کھلی عدالت میں آج سنا جائے گا۔فاضل بینچ نے نیب کے تفتیشی افسرکامران فیصلہ کی موت کے معاملے پر تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ کامران فیصل کا قتل ہوا یا اس نے دباؤ میں آ کر خودکشی کی، یہ معاملہ انویسٹی گیٹ ہونا ہے تاہم یہ قدرتی موت نہیں۔ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ اس معاملے کا رینٹل پاورکیس پر عملدرآمد سے کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں۔نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے سماعت کرنے والے بینچ اور عدالتی معاون انورکمال پر اعتراضات اٹھائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔