ریاستی اداروں میں طاقت کا توازن

سلطان محمود  پير 14 مئ 2018
ڈاکٹر طاہرالقادری نے الزام لگایا تھا کہ نواز شریف کے اقتدار کی جنگ بھارت لڑ رہا ہے کیونکہ نواز شریف کا اقتدار میں رہنا بھارتی عزائم اور مفادات کے حق میں ہے۔ (فوٹو: فائل)

ڈاکٹر طاہرالقادری نے الزام لگایا تھا کہ نواز شریف کے اقتدار کی جنگ بھارت لڑ رہا ہے کیونکہ نواز شریف کا اقتدار میں رہنا بھارتی عزائم اور مفادات کے حق میں ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں پچھلے ستر برس سے پاکستان میں دو طرح کا طرز حکمرانی رہا ہے: ایک آمرانہ اور دوسرا جمہوری۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جب کوئی آمر آیا تو اس نے جمہوری طریقے سے حکومت کرنا چاہی اور جب کوئی جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آیا تو اس نے آمرانہ طرزِ حکمرانی اپنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے آج تک ارضِ پاک میں کوئی بھی حکمران ملک و قوم کو منزل تو دور کی بات، سمت بھی نہ دے سکا اور ملک دن بدن ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف بڑھتا گیا۔ ہر حکمران نے قوم کو ذاتی غلام اور اداروں کو ذاتی ملکیت سمجھ کر چلانے کی کوشش کی۔

ہر دورِ حکومت میں اگر کوئی چیز قدرِ مشترک رہی ہے تو وہ اداروں سے اختیارات کے حصول کی جنگ ہے۔ ہر حکومت اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھتی رہی ہے جس کے نتیجے میں کوئی ادارہ بھی پنپ نہیں سکا۔ اختیارات کی اس رسہ کشی میں ملکی سلامتی تک کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں سوال اٹھے کہ اختیارات کی رسہ کشی کا ملکی سلامتی سے کیا تعلق ہے تو جواب یہ ہے کہ ستمبر 2016 میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف پر الزام لگایا تھا کہ نواز شریف کے اقتدار کی جنگ بھارت لڑ رہا ہے کیونکہ نواز شریف کا اقتدار میں رہنا بھارتی عزائم اور مفادات کے حق میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر میں کچھ دستاویزی ثبوت بھی پیش کیے تھے اور ملکی سلامتی کے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ادارے انہیں بلاتے ہیں تو وہ اپنی کہی ہوئی ایک ایک بات ثابت کریں گے۔

اس کے فوراً بعد اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا مگر آج کے دن تک وہ صرف اعلان ہی ثابت ہوا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں نے صرف اس ڈر سے کہ ان پر اختیارات سے تجاوز کا الزام نہ لگے، نہ تو ڈاکٹر طاہر القادری کو ثبوت پیش کرنے کی زحمت دی اور نہ نواز شریف سے کوئی پوچھ گچھ کی جس کے نتیجے میں اگلے ہی ماہ یعنی اکتوبر 2016 میں ڈان لیکس نامی اسکینڈل سامنے آ گیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ڈان لیکس کو قومی سلامتی پر دراڑ کا نام دینے کے باوجود مصلحت کی نذر کردیا گیا اور ذمہ داروں کو دوبارہ قومی سلامتی پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کردیا گیا۔

اداروں کی اس بے حسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ اسی صحافی کو استعمال کرتے ہوئے 12 مئی 2018 کو پھر قومی سلامتی پر حملہ کیا گیا ہے اور ڈان لیکس ٹو منظرعام پر آئی ہے۔ یہ حملہ پچھلے حملے سے کہیں زیادہ بڑا ہے، مگر شاید اس بار بھی قومی ادارے کسی نہ کسی مصلحت کو جوازبنا لیں۔

دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور آرمی ہوتی ہے مگر سوائے پاکستان کے یہ مسئلہ کہیں بھی درپیش نہیں کیونکہ ہر ادارہ اپنے بنائے ہوئے آئین اور قانون پر مکمل عملدرآمد کرتا ہے چاہے وہ عمل کسی پارلیمنٹ ممبر کے خلاف ہو، کسی جج یا کسی فوجی کے یا کسی بھی عام شہری کے خلاف۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کو سزا ضرور ملے گی۔

ریاست کے تمام ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جمہوریت اور بادشاہت میں اصل فرق یہی ہے کہ بادشاہت میں جو شخص صاحب اقتدار ہوتا ہے، وہی ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں کوئی فرد نہیں بلکہ ریاست کا آئین اور قانون سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ادارے تمام تر طاقت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں قانون سب کےلیے برابر ہوتا ہے اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جاتے ہیں نہ کہ ووٹ کو جواز بنا کر صرف ایک شخص کو پوری ریاست اور جمہوریت سمجھا جاتا ہے۔

اگر ریاست کا ہر ستون اپنی حدود میں رہ کر کام کرے اور آئین و قانون پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے تو طاقت کا توازن بھی برقرار رہتا ہے اور ریاست ہر شعبے میں ترقی کی منزلیں طے کرتی جاتی ہے۔ آج ملک پاکستان کو بھی اسی طرز عمل کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سلطان محمود

سلطان محمود

بلاگر منہاج القرآن سائپرس کے سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی آرگنائزر پی اے ٹی فرانس رہ چکے ہیں اور آج کل پیرس ہی میں مقیم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔