بچوں کو کوالٹی ٹائم دینا کتنا ضروری ہے؟

زبیدہ رؤف  ہفتہ 16 جون 2018
نونہالوں کی بہترین تعلیم وتربیت دینے کے لئے انھیں گوگل کی گود سے ماں کی آغوش میں لانا نہایت اہم ہے۔ فوٹو: فائل

نونہالوں کی بہترین تعلیم وتربیت دینے کے لئے انھیں گوگل کی گود سے ماں کی آغوش میں لانا نہایت اہم ہے۔ فوٹو: فائل

برسوں پہلے ایک ماں مسز رائے ایل پیفر نے ایک نظم لکھی تھی جو بچے کی زندگی میں ماں کے وقت کی اہمیت کی بہترین عکاسی کرتی ہے، اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:

’’میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چل دی

میرے برتن آج دھلے بغیر رہ گئے

میں نے بستر بھی تہہ نہیں لگایا

میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چل دی

جہا ں اس کے اشتیاق بھرے پاؤں لے چلے

اوہ ہاں ، ہم کچھ انوکھا کرنے چلے

میرا ننھا بیٹا اور میں

گھر سے باہر کی بڑی دنیا کو دریافت کرنے

گرمیوں کے آسماں کے نیچے

ہم شفاف شیشے جیسی ندی میں چلے

ہم جنگل میں گھومے

آج میرے باورچی خانے کی صفای نہیں ہو ئی

لیکن زندگی خوشگوار اور اچھی تھی

ہم نے سورج کی پرچھائیوں والی اچھی جگہ ڈھونڈی

اور اب میرا چھوٹا سا بیٹا یہ جانتا ہے

کہ خرگوش ماں کیسے اپنا گھونسلہ چھپاتی ہے

ہم نے ایک نیلی چڑیا کو اپنے بچے کو کھانا کھلاتے دیکھا

ہم دھوپ والی پہاڑی پر چڑھے

ہم نے آسمان پر بادلوں سے بنی بھیڑ دیکھی

ہم نے نرگس کا پھول توڑا

میں اپنے گھر کو نہ دیکھ سکی

میں نے سیڑھیوں پر جھاڑو نہیں لگائی

اگلے بیس سالوں میں ، اس زمین پر کوئی بھی

نہ یہ جانے گا اور نہ کسی کو اس کی پرواہ ہوگی

لیکن یہ کہ میں نے اپنے ننھے لڑکے کی مدد کی

اسے اچھا انسان بننے میں

بیس سالوں میں پوری دنیا

شاید یہ دیکھے،پہچانے اور جانے‘‘

اس نظم پر بہت کچھ لکھا گیا۔ جہاں بچوں کی نفسیات اور ماں کی توجہ کا ذکر آتا ہے وہاں اس نظم کو ضرور دہرایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی سادہ اظہار ہے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا جو ہر بچہ کرنا چاہتا ہے مگر ہر ماں ان کی اہمیت اس طرح نہیں سمجھ پاتی جیسے کہ’ مسز پیفر‘ نے سمجھائی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خاتون پھوہڑ اور بد سلیقہ ہے بلکہ اس کی نزدیک ان کاموں سے زیادہ اہمیت اس وقت کی ہے جو وہ اپنے بچے کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے کیونکہ یہ وقت رائیگاں نہیں جائے گا۔

بچہ ماں باپ کے ساتھ وقت گزار کر جو کچھ سیکھتا ہے وہ کوئی درسگاہ اور ڈے کئیر نہیں سکھا سکتے۔ یہ تو ایک غیر مسلم کی نظم ہے اگر ہم حضور اکرم ﷺ کی زندگی کی طرف دیکھیں تو بچوں کے ساتھ ان کا رویہ بالکل ایسا ہی ہوتاتھا جیسا کہ دنیا کے بڑے بڑے ما ہرین نفسیات اب تحقیق کے بعد اختیار کرنے کا کہتے ہیں۔ مثلاً حضور صلعم کا بچوں کو اہمیت دینا ، انہیں محفل میں پیچھے سے آگے بٹھانا، کھانے کو پہلے دینا، پوری توجہ سے ان کی بات سننا اور تسلی بخش جواب دینا۔ ان کی دلچسپی میں دلچسپی لینا ، اس سے بڑ ی کیا بات ہے کہ حضرت انس ابن مالکؓ کے چھوٹے بھائی ابوعمیر کا پالتو پرندہ( غالباً بلبل)مر گیا تو آپﷺ نے اس بچے سے اس کا افسوس کیا اس کی دل جوئی کی۔ اس واقعہ کا بیان دیگر مختلف انداز میں بھی کیاگیا ہے۔

آپﷺ بچوں سے کبھی تنگ نہیں پڑتے تھے بلکہ ان کی ذہنی سطح پر جا کران سے گفتگو فرماتے تھے۔ انگریزی کی ایک اصطلاح ہے ’’کوالٹی ٹائم‘‘ یعنی وقت کا صحیح استعمال۔ بڑی بڑی مصروف اور عظیم عورتوں نے اپنے بچوں کو کوالٹی ٹائم دے کر پالا ۔ کوالٹی ٹائم سے مرادہے کہ تھوڑا مگر کارآمد وقت۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ بیشک آدھ گھنٹہ یا بیس منٹ ہی بچے کے ساتھ گزاریں لیکن وہ وقت پورے کا پورا بچے پر توجہ ہونی چاہئے  ایسا نہیں کہ ٹی وی پر شو چل رہاہو یا فون پر بات ہو رہی ہو اور ساتھ بچے کا ہوم ورک ہو رہا ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچے کی پڑھنے کی صلاحیت بہت اچھی کرنا چاہتے ہیں تو دن میں کم از کم بیس منٹ اس کے ساتھ بیٹھ کر اس سے کچھ پڑھوائیں۔ یعنی اگر ماں اپنی مصروفیت میں بچے کو بہت زیادہ وقت نہیں بھی دے پاتی تو بیس منٹ اس کے ساتھ بیٹھ کر کوئی بھی اس کی پسند کی کہانی پکڑ کر اس سے پڑھوائیں۔ روزانہ اتنا مطالعہ بچے کو پڑھنے میں در پیش مسائل سے بچا لے گا اور اس کے ان گنت فائدے ہیں۔

بچوں کو گوگل کی گود سے ماں کی آغوش میں لانا ضروری ہے۔ انٹرنیٹ سے اعداد و شمار تو مل سکتے ہیں کہ 1947 میں کتنے مسلمانوں کو ناحق مارا گیا لیکن قائد اعظم سے عقیدت اور ملک سے عشق صرف ماں کا مخصوص جذباتی اور پر تاثیر انداز ہی روح میں اتار سکتا ہے۔ مکتب کی کرامت اور فیضان نظر کے مقابلے میں فتح ہمیشہ فیضان نظر کی ہوتی ہے۔ خواہ کتنے ہی اعلیٰ سکول، اکیڈمی اور ٹیوشن سینٹر میں پڑھ کر بچے ڈاکٹر انجینئر بن جائیں، ان کے اندر کا انسان پروان نہیں پاتا۔ تعلیم بظاہر پالش کرتی ہے لیکن اندر کا خالی پن صرف ماں کی تربیت دور کرتی ہے ، ماں جب پاس بٹھا کر شیخ عبدالقادر جیلانی ،ٹیپو سلطان، صلاح الد ین ایوبی اور واقعہ کربلا کے واقعات سناتی ہے تو ماں کی آواز میں جو جذبہ ایمانی میں ڈوبے ہوئے اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں وہ بچوں کے لا شعور میں محفوظ ہو کر ان کی کردار سازی کرتے ہیں۔ اگرچہ درسی کتب میں بھی یہ واقعات ہوتے ہیں لیکن ماں کے سنانے سے ایک خاص اثر پذیری جنم لیتی ہے،مشہور اسکالر استاد نعمان علی کہتے ہیں کہ پڑھنے سے زیادہ سننا یاد  رہتا ہے۔

ماں کا بچے کے ساتھ گزارے وقت کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ سکول ،سکول سے ٹیوشن سے ٹیوشن سے ہوم ورک کی دوڑ اپنی کامیابی اور دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ ہے اس مقابلے کی دوڑ میں اچھا انسان بنانے کا جذبہ دب گیا پھر معاشرتی دباؤ سے مر گیا۔ کھیل اور خوراک جسم کو مضبوط بناتے ہیں مگر ماں کا مثبت اور کارآمد وقت روح کی پرورش کرتا ہے، طاقتور دماغ اور جسم کے ساتھ اگر روح کو پروان نہ چڑھایا جائے تو جسم اور روح کا کمزور تعلق قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ جب بچے علم کی بجائے معلومات کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور دنیا کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرنے کے لیے اخلاقی اقدار کو اعدا دو شمار کے ترازو میں تول دیا جاتا ہے تو پھر انسانوں کی شکل میں احساس سے عاری مشینیں پروان چڑھتی ہیں اور قوم کی جگہ ملک اور قائد کی جگہ سیاستدان رہ جاتے ہیں۔

ٹی وی کے ایک پروگرام ’’بچے من کے سچے‘‘ میں کثرت سے معصوم مگر مصنوعی ،لائق مگر ذہانت سے خالی اور اخلاقی طور پر لٹے پٹے بچے آئے، ویسے تو وہ اپنے سکو لوں میں پہلی دوسری پوزیشن پر آئے ہوتے تھے لیکن ان کی حالت بحیثیت قوم کے معمار اور اچھے شہری کے انتہائی تشویشناک تھی اور جس کا نوٹس نہ تو پروگرام کا میزبان لیتا تھا نہ پروڈیوسر اور یقینا عوام نے بھی نہیں لیا ہوگا۔ مثلاً اس میں کچھ بچوں نے کہا کہ وہ اعلیٰ سٹیٹس کے لئے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں ،کچھ نے کہا کہ زیادہ پیسے کے لیے اور کچھ بچوں نے کہا کہ وہ اس جگہ سیر کے لیے جاتے ہیں جہاں ان کے آفیسررشتہ داروں کی اعلیٰ پوسٹ کی وجہ سے ان کا داخلہ مفت ہوتا ہے… فطرت کا اصول ہے کہ موت سے زندگی پیدا ہوتی ہے۔

ماں خود کو ختم کرے گی تو انسان پیدا ہوں گے، جب ماں نے اپنی شناخت کی تلاش شروع کی تو بچوں کی شناخت مسخ ہو گئی۔ سنا ہے کہ حشر کے میدان میں تپش سے مائیں بچوں کو پاؤں تلے لے لیں گی لیکن مقابلے کی دوڑ اور شناخت کو پانے کے جنون میں دنیا میدان حشر ہو گئی۔ اچھا انسان ماں کی بہترین شناخت تھا نہ کہ بے رحم ڈاکٹر، فراغ کو فراق لکھنے والا وزیر، غلط قرآن پڑھنے والا سیاستدان اور پیسے کے بدلے ملکی ناموس کا سودا کرنے والے لیڈر۔ نظم کے آخر میں مسز رائے ایل پیفر بڑے کام کی بات کہہ گئی ہیں کہ آ ج سے بیس سال بعد کسی کو یہ یاد نہیں ہوگا کہ میری سیڑھیاں گندی تھیں ہاں بیس سال بعد شاید میرا بچہ میرے اس وقت اور توجہ کی وجہ سے اچھے انسان کے طور پر پہچانا اور جانا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔