بلوچستان، انتخابات اور میڈیا کی مشکلات

عابد میر  جمعرات 2 مئ 2013
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

ذرائع ابلاغ کی عالمی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان گزشتہ تین برس سے مسلسل صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک، جب کہ بلوچستان اس کاخطرناک ترین خطہ رہا ہے۔ بعض میڈیا آرگنائیزیشنز نے اپنی رپورٹوں میں اسے ’وار زون‘ ڈکلیئر کر دیا ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران بلوچستان میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 33 ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ قاتلوں میں مسلح تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

سرکار اور سرمچار کے درمیان سینڈوچ بنے بلوچستان کے صحافی ،عدلیہ کی مداخلت کے بعد اب تہری مشکلات سے دوچار ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے کچھ عرصہ قبل کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی، بہ صورت دیگر چھ ماہ جرمانے کی سزا کا اعلان کیا گیا تھا۔

جس کے بعد صحافتی تنظیموں اور اداروں کے درمیان ہونے والے اجلاسوں میں متفقہ طور پر یہ طے کیا گیا کہ کیونکہ کالعدم تنظیموں کی جانب سے کھلی دھمکی دی گئی تھی کہ ان کے بیانات کی اشاعت روکنے پر وہ صحافیوں کو براہِ راست نشانہ بنائیں گے، اس لیے اندھی گولی کا نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ چھ ماہ کی قید بھگت لی جائے۔

البتہ احتیاط یہ کی گئی کہ کالعدم تنظیموں کے بیانات کو مناسب حد تک ایڈٹ کیا جانے لگا۔ نیز پہلے جہاں مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے کارروائیوں کے قبول کرنے کی سنگل کالم خبر کے ساتھ، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی تردید کی خبر بھی ساتھ ہی ایک اور سنگل کالم میں دے دی جاتی تھی، وہاں اب دونوں خبریں ایک ہی سنگل کالم میں’ذمے داری قبول، اداروں کی تردید‘ کی سرخیوں کے ساتھ شائع ہونے لگیں۔

لیکن یہ طریقہ کار بھی جہاں ایک فریق کو مطمئن نہ کر سکا تو دوسرے فریق کو مشتعل کرنے کا باعث بھی بنا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کالعدم تنظیموں کی خبریں اخبارات، ٹی وی چینلز اور خبررساں اداروں کو اس نوٹ کے ساتھ موصول ہوتی ہیں کہ، ’اگر خبر من و عن شائع نہ ہوئی، تو آپ ذمے دار خود ہوں گے‘ ۔ صحافی ابھی اس کھلی دھمکی سے نمٹنے کی حکمت عملی ہی نہ جوڑ پائے تھے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک بار پھر انھیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

اب کے الزام ، پہلے سے کہیں سنگین، توہینِ عدالت کا تھا۔ یعنی عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ کرکے جو توہین عدالت کی گئی، اب صحافی اس کی صفائی پیش کریں۔ کالعدم تنظیمیں بھی اکثر اوقات صحافیوں کے لیے شاہی فرمان جاری کرتی رہتی ہیں۔ مثلاََ ان کا یہ مطالبہ کہ ان کے بیانات من وعن شائع ہوں، کسی صورت قابلِ عمل نہیں۔ ان تنظیموں کی زبان اکثر اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے، جسے شائع کرنا بھی صحافی اور صحافتی ادارے کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اس لیے ان تنظیموں کو صحافتی اقدار اور حدود کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اخبارات نوٹس بورڈ نہیں کہ جہاں جس کا جو جی چاہا، چپکا دیا۔ ہر بیان اور خبر من و عن شائع ہونے لگے تو ایڈیٹر اور سب ایڈیٹرز کا کام ہی کیا رہ جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی ایسی صحافتی ادارہ نہیں جہاں خبریں مناسب ایڈیٹنگ کیے بنا شائع کی جاتی ہوں۔

لیکن کالعدم تنظیموں سے یہ گلہ کم ہی بنتا ہے، اور ان کا ردِعمل سمجھ میں بھی آتا ہے کہ کیونکہ ان کی جدوجہد کا انحصارہی طاقت پر ہے ، اس لیے وہ اپنا ہر کام، ہر فیصلہ طاقت کی بنیاد پر کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لیکن ریاستی اداروں کی جانب سے ویسا ہی شدت پسند مؤقف قابل افسوس ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ دن بھر آگ اور خون کے درمیان اپنے فرائض سر انجام دینے والے صحافیوں کے لیے تحفظ کا انتظام ہونا چاہیے۔ انتخابات کے قریب آتے ہی بلوچستان میں فریقین کی جانب سے میڈیا پر دبائو میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

مکران میں سخت مؤقف کی حامل قوم پرست جماعتوں کے اتحاد نے گزشتہ تین ماہ سے ٹی وی چینلز کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اب کچھ عرصے سے اخبارات کی ترسیل بھی روک دی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچ مؤقف کے حامل دو اخبارات کی ترسیل اس کے باوجود جاری ہے۔ حالانکہ ان اخبارات میں بھی نوے فیصد خبریں وہی ہوتی ہیں، جب کہ ان کے ادارتی صفحات پر مضامین بھی ملکی اخبارات سے ہی لے کر شائع کیے جاتے ہیں۔ اندرونِ بلوچستان عوام الناس کی معلومات تک رسائی کا سب سے اہم ذریعہ یہی ٹی وی چینلز اور اخبارات ہیں۔

ان کی بندش سے عوام بنیادی معلوماتی ذرائع سے محروم ہیں۔ وہیں قوم پرست حلقوں پر یہ تنقید بھی ہو رہی ہے کہ انتخابات آتے ہی میڈیا کے اداروں کا بائیکاٹ نہ صرف غیر سیاسی و غیر جمہوری رویہ ہے، بلکہ ان حلقوں کی بوکھلاہٹ کو بھی واضح کرتا ہے۔ اگر قوم پرست حلقے خود کو عوامی قوت کا نمائندہ سمجھتے ہیں تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ بائیکاٹ عوامی حلقوں کی جانب سے از خود ہوتا۔ گو کہ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوامی حلقوں نے اس فیصلے کے خلاف بھی کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا، لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ ان سخت گیر مؤقف کی حامل قوتوں کے کسی فیصلے سے اختلاف کا مقصد خود کو موت کے منہ میں دینے کے برابر ہے۔ اس کا کم سے کم ردِعمل بھی غداری کے الزام کی صورت میں ہوگا۔

دوسری طرف ریاستی ادارے ہیں جو میڈیا سے اس لیے نالاں ہیں کہ وہ مسلح تنظیموں کو ریاست کی جانب سے کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود ان کی میڈیا کوریج کیوں کر تے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی خبروں سے عوام میں بے چینی پھیلتی ہے اور سماج میں غیر یقینی کی کیفیت جنم لیتی ہے۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے اسامہ بن لادن کو مفرور،دہشت گرد اور اس کی تنظیم کو کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود تمام عالمی نشریاتی ادارے ان کے پیغامات کو دنیا بھر میں فوری طور پر نشر کرتے رہے، انھیں کبھی نہیں کہا گیا کہ وہ عالمی عوامی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں اور القاعدہ کی ویڈیو نشرکرنے سے دنیا میں افراتفری پھیلتی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ خود پاکستان میں کالعدم قرار دی جانیوالی تحریک طالبان کی خبریں ملکی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں۔ ان کے خلاف کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے۔

یہ بات ریاستی اداروں اور مسلح تنظیموں کو سمجھناہو گی کہ میڈیا کا اولین کام محض خبر کی رسائی ہے،رائے عامہ ہموار کرنے میں اس کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ میڈیا ان کے مفادات کے برعکس رائے عامہ ہموار کر رہا ہے، تو اس کا حل اِس میڈیا کو خاموش کرانا نہیں بلکہ متبادل میڈیا کا قیام ہی ہو سکتا ہے۔

انتہائی افسوس ناک بات یہ کہ ملکی میڈیا بھی ،بلوچستان میں صحافیوں او ر صحافتی اداروں سے اختیار کیے گئے اس رویے اور سلوک کو مناسب کوریج نہیں دے رہا، جس کے باعث یہ اہم ایشو عالمی میڈیا کی نظروں سے بھی اب تک اوجھل ہے۔ بلوچستان میں میڈیا کے ساتھ اختیار کیا گیا یہ رویہ نہیں۔ ایک آزاد میڈیا کی عدم موجودگی میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان بہرصورت قائم رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔