78 کاریں و موٹر سائیکلیں روزانہ چھینی و چوری کی جانے لگیں

کاشف ہاشمی  ہفتہ 4 اگست 2018
گاڑیوں کی ریکی،چھیننے ،چوری کرنے اور صوبے سے باہر لے جانے والے گروپس الگ الگ کام کرتے ہیں۔ فوٹوفائل

گاڑیوں کی ریکی،چھیننے ،چوری کرنے اور صوبے سے باہر لے جانے والے گروپس الگ الگ کام کرتے ہیں۔ فوٹوفائل

 کراچی: ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں برسوں سے گاڑیوں کے چھیننے اور چوری کیے جانے کے منظم دھندے میں ملوث بین الصوبائی گروہوں کا خاتمہ نہیں کیاجاسکا، شہر سے روزانہ78 کاریں اور موٹرسائیکلیں چھینی و چوری کی جارہی ہیں۔

گاڑیوں کی چھینا چھپٹی روکنے کے لیے پولیس کا خصوصی شعبہ اینٹی کارلفٹنگ سیل اور ضلعی پولیس تاحال وارداتیں روکنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ گاڑیوں کی حفاظت کرنے کے لیے لگائے جانے والے ٹریکر سسٹم کو فیل کرنے کے لیے بھی کار لفٹرزگروہوں نے ڈیوائس حاصل کرلی، رواں سال کے7 ماہ کے دوران شہر کے مختلف مقامات سے 16650 کاریں اور موٹرسائیکلیں چوری اور چھین لی گئی ہیں اس طرح شہری روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کی قیمتی گاڑیوں سے محروم ہورہے ہیں۔

ضلعی پولیس اور اینٹی کارلفٹنگ سیل ان جرائم میں بین الصوبائی گروہوں کو ملوث قرار دیتے ہوئے200 کار اور موٹرسائیکل لفٹرز کو وارداتوں میں سرگرم ظاہر کیا اورکچے کے راستوں پر نگرانی نہ ہونے کا عذر پیش کرکے خاموش ہیں مختلف کارروائیوں میں کارگردگی ظاہر کرنے کے لیے اے سی ایل سی اور پولیس مسروقہ گاڑیوں سمیت گرفتار لفٹرز سے چند گاڑیاں برآمد ظاہر کرکے کارکردگی دکھارہے ہیں۔

شہر کے پوش علاقوں اور پارکنگ ایریاز سے منظم وارداتوں میں پولیس اور پارکنگ عملے کے ملوث ہونے کی اطلاعات ملی ہیں ایک طرف بڑے پیمانے پر گاڑیاں چوری کرنے اور چھیننے کا منظم کاروبار جاری ہے۔

دوسری جانب گاڑیوں کے باڈی پارٹس چوری کرنے کی وارداتوں میں بھی منظم نیٹ ورک سرگرم ہے ان وارداتوں میں ملوث ملزمان بین الصوبائی نیٹ ورک سے جڑے ہونے کے باعث چوری اور چھینی گئی گاڑیوں کو دوسرے صوبوں میں فروخت کرنے میں ملوث ہیں ان گروپوں میں گاڑیوں کی ریکی کرنے،گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے اور صوبے سے باہر منتقل کرنے کے لیے الگ لگ گروپ بنائے گئے ہیں۔

اے سی ایل سی سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ منظم کاروبار کو روکنے کے لیے بین الصوبائی حمکت عملی کی ضرورت ہے جو تاحال اختیار نہیں کی گئی بین الصوبائی حکمت عملی کے تحت صوبوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ اے سی ایل سی کی ٹیمیں بھی مقرر ہونا چاہیے تاہم اے سی ایل سی کی نفری اور وسائل کی کمی کے باعث یہ ممکن نہیں ہوسکا ہے جس کے باعث برسوں سے کارلفٹرز گروہ گاڑیوں کی وارداتوں اور منتقلی کے کاروبار میں ملوث ہیں اس گروہ میں انتہائی پڑھے لکھے تعلیم یافتہ ملزمان کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین بھی ملوث پائے گئے ہیں جو پولیس کے روکنے پر اپنی شناخت کرواکر موقع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ایسے ہی کچھ ملزمان سابقہ کارروائیوں میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں اور انھوں نے اپنے ایسے ہی ساتھیوں کے نشاندہی بھی کی ہے۔

کارلفٹرز نے گاڑی کاسیکیورٹی سسٹم فیل کرنیوالی ڈیوائس بنالی

کارلفٹرز گروہ نے قیمتی گاڑیوں میں نصب سیکیورٹی اور ٹریکر سسٹم کو فیل کرنے کے لیے جدید ڈیوائس تیار کی ہے جس کے لگانے سے ٹریکنگ سسٹم فیل ہوجاتا ہے وہ ڈیوائس گاڑی کی باڈی میں کسی بھی جگہ لگائی جاتی ہے اس ڈیوائس میں مقناطیس لگا ہوتا ہے جو باڈی سے چپک جاتا ہے اینٹی کارلفٹنگ سیل پولیس کے سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ شہری اپنی گاڑیوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرکے ٹریکنگ سسٹم نصب کراتے ہیں لیکن اس جدید ٹیکنالوجی کو بھی کارلفٹرز گروہ کے کارندوں نے بری طرح ناکام بنادیا ہے ٹریکر کمپنیاں چھینی جانے والی اور چوری ہوجانے والی گاڑیوں کی لوکیشن حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔

گاڑیاں منتقل کرنے والے گروپ معاوضے کے علاوہ رشوت کی رقم الگ سے لیتے ہیں

شہر میں گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے والے کارلفٹرز گروہوں نے چھینی گئی اور چوری کی گئی گاڑیوں کی دوسرے صوبوں اور شہروں میں منتقلی کے لیے الگ الگ گروپس بنارکھے ہیں گاڑیاں لے جانے والے کار لفٹرز گروپ گاڑی دوسرے صوبے منتقل کرنے کے اپنے معاوضے کے علاوہ راستے میں چیک پوسٹوں پر اور پولیس کے روکنے کی صورت میں رشوت دے کر جان چھڑانے کے لیے کارلفٹرز گروہوں سے الگ سے بھاری رقوم بھی وصول کرتے ہیں تاکہ گاڑی اپنی منزل تک باآسانی پہنچائی جاسکے۔

کارلفٹرز نے7ماہ میں16650گاڑیاںچھینی اورچوری کرلیں

گاڑیوں کے چھیننے اور چوری کیے جانے کے متعلق اے سی ایل سی، سی پی ایل سی اور متعلقہ اداروں کی جانب سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق بین الصوبائی کارلفٹرز گروہ کے کارندوں نے7 ماہ کے دوران 16ہزار 650 سے زائد گاڑیاں چھینی اور چوری کی ہیں ماہ جنوری میں 26 کاریں اور209 موٹرسائیکلیں چھینی گئیں ،108 کاریں اور1863چوری کرلی گئیں، ماہ فروری میں 14کاریں اور180موٹرسائیکلیں چھین لی گئیں ،87کاریں اور 1772چوری ہوئیں ،ماہ مارچ میں 27کاریں اور 196موٹرسائیکلیں چھینی گئیں ، 103 کاریں اور1884چوری ہوئیں، ماہ اپریل میں 16کاریں اور 234موٹرسائیکلیں چھین لی گئیں ،85کاریں اور 1915 موٹرسائیکلیں چوری کرلی گئیں۔

ماہ مئی میں 17کاریں اور 152موٹرسائیکلیں چھینی گئیں ،109کاریں اور2218 موٹر سائیکلیں چوری کرلی گئیں ، ماہ جون میں 15کاریں اور 149موٹر سائیکلیں چھینی گئیں ،90کاریں اور2424موٹرسائیکلیں چوری کرلی گئیں، ماہ جولائی میں 20کاریں اور31موٹرسائیکلیں چھینی گئی ہیں، 109 کاریں اور 2583موٹرسائیکلیں چوری کرلی گئیں جبکہ اس دوران پولیس اوراے سی ایل سی نے جوگاڑیاں برآمد کی ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے بر ابر ہے ان سات ماہ کے دوران پولیس نے صرف3 ہزار کے قریب گاڑیاں برآمد کی ہیں جو عرصہ پہلے چھینی اور چوری کی گئی تھیں۔

گاڑیاں عارضی طورپر ڈمپ کرنےکے لیے خفیہ ٹھکانے بنالیے گئے

کراچی میں چھینی گئی اور چوری کی جانے والی گاڑیاں عارضی طورپر ڈمپ کرنے کے لیے سہولت کار اور ان کے خفیہ ٹھکانوں کا انتظام موجود ہے جہاں عارضی طور پر اور کئی ماہ تک گاڑیوں کو رکھنے کا بندوبست ہے قیمتی گاڑی چوری ہونے کی صورت میں متعلقہ اداروں کی جانب سے گاڑی چوری ہونے کی اطلاع وائرلیس کنٹرول سے تمام تھانوں اور چوکیوں کو مل جاتی ہے ایسی صورت میں کارلفٹرز سیکیورٹی صورتحال دیکھ کرگاڑی کو منتقل کرتے ہیں اور کچھ دن گاڑی کو کسی خفیہ مقام پر ڈمپ کردیا جاتا ہے جب صورتحال معمول پر آتی ہے تو گاڑی کو منتقل کردیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔