ایک گمشدہ خزانہ

شاہد سردار  اتوار 2 ستمبر 2018

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ قوم و ملک پر ابتلائیں اس وقت آتی ہیں جب اس کی مملکت اور عوام اپنے عقائد و نظریات، اپنے دین و مذہب اور احترام انسانیت کو پس پشت ڈال کر بے راہ روی اور برے فعلوں کو اپنا شعار یا مطمع نظر بنالیں۔ پھر اس سرزمین پر بھوک، بے روزگاری، ننگ و افلاس، استحصال، بدامنی، قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوتا ہے یوں اس ملک کی اقدار بالآخر شکست و ریخت کا شکار ہوجاتی ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ سب کا سب ہمارے بیشتر بڑے اسلامی ممالک میں بڑی شد و مد سے ہوا اور مورخین اور تاریخ دونوں نے ان کی بربادی اور پستی یا تنزلی کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

طویل برسوں سے ہماری سر زمین پر بھی یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اخلاق، شرم وحیا اور احترام انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ بے راہ روی عروج پر ہے، رہی سہی کسر جدید ٹیکنالوجی یعنی موبائل اور انٹرنیٹ وغیرہ کے انتہائی غلط استعمال نے پوری کرکے ہمارے معاشرے کو شرمسار یا شرمندہ بناکر رکھ دیا ہے۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ دنیا کی سب سے پرانی، طویل اور دشوار ترین شاہراہ کا نام ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے۔ افسوس ہم مسلمانوں کی غالب اکثریت اس شاہراہ پر چلنے میں کنی کتراتی ہے۔

دنیا میں اسلام سے بڑھ کر کوئی دوسرا مذہب بے حیائی پر قدغن لگانے والا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فحاشی کی بنیاد آنکھوں کو قرار دیا گیا ہے اور دل کی بے ایمانی کو خدا معاف کردیتا ہے لیکن آنکھوں کی نہیں۔ اسی لیے آنکھ کی بے احتیاط کو سختی سے قابو میں رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، یہ ایسی بنیاد ہے کہ اگر صرف اسی پر قابو پالیا جائے تو ساری بے حیائیاں دنیا سے رخصت ہوسکتی ہیں۔

جابجا اس بات کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ خواتین کے جسم کا کوئی حصہ بھی عریاں دیکھ کر مرد کی نظریں بھٹکنے لگتی ہیں اور اس میں عمرکی قید نہیں ہوتی، خواتین ناسمجھی، بھولپن یا پھر بے خبری کے باعث دعوتِ گناہ کا موجب بن جاتی ہیں۔ بدنظری صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ غیر محرم عورتوں کو دیکھ لیا، بلکہ بدنظری ایک وسیع عنوان ہے جو بہت سے طریقوں اور صورتوں کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے۔ تاہم کسی غیر محرم پر نگاہ ڈالنا، بالخصوص بدنظری کے ساتھ نگاہ ڈالنا، خواہ غیر محرم کی تصویر ہی کیوں نہ ہو اور ایسی چیز کو دیکھنا جس سے شریعت نے روکا ہو اس سے اجتناب دین کا بنیادی تقاضا ہے۔

بدنظری بہت سے حرام کاموں کو جنم دیتی ہے جو انسان کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ یوں ثابت ہوجاتا ہے کہ بدنظری اپنے دامن میں گناہوں کا سمندر رکھتی ہے اور بدنظری سے بچ کر انسان سیکڑوں گناہوں اور لعنتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ نگاہ بد ہی سب سے پہلا اور مرکزی قصور یا جرم ہوتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کچھ چیزیں ہماری ذات سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ وہ ہماری سانسوں کا ایندھن ہوتی ہیں، آسانی سے سانس لینے میں مدد دیتی ہیں۔ ہماری شرم وحیا، عفت وعصمت بھی ایسی ہی چیزیں ہیں جنھیں ہم سب نے ارزاں کرکے خود کو بے توقیر یا بے حیا بنا لیا ہے۔ عورت کی عزت یا اس کی حرمت وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن خواتین کی بھاری اکثریت ازخود اس خزانے کو لٹا چکی ہے، حالانکہ قدرتی طور پر عورت کے اندر ایسے آلات نصب ہوتے ہیں جو مردوں کے گندے یا اوچھے پن کو ٹریس کرلیتے ہیں، یا ان کی چھٹی حس کے علاوہ ایک زائد حس بھی ہوتی ہے۔

’’سورۃالنور‘‘ میں فرمان الٰہی ہے کہ ’’مومن مردوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں کہ یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے۔ عورتیں اپنی آرائش یعنی زیور کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور سوائے اپنے خاوند، باپ، خسر، اپنے بچوں، بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے کسی پر اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں۔‘‘

اللہ کے رسول کا بھی فرمان ہے کہ ’’بے حیائی جس شے میں پیدا ہو اسے بدنما کردیتی ہے اور حیا جس شے میں ہوتی ہے اسے مزین کردیتی ہے۔‘‘ اللہ کے رسول کا ایک کہنا یہ بھی ہے کہ ’’عورت کے محاسن اس کے حسن و جمال کے مقام کی طرف نظرکرنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔ اور جس نے نامحرم کی طرف دیکھنے سے اپنی آنکھ کو پھیر لیا اللہ اسے ایسی عبادت کی توفیق دے گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں ہمیشہ پائے گا۔‘‘

ہم سبھی کو اس حقیقت سے روگردانی ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ شرم و حیا سے دوری یا بدنظری کا عمل نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ کہ ممنوع یا حرام کاموں سے نفس کو روکنا بھی صبر کی دوسری قسم ہے۔ ہم زمین پر ہمیشہ کے لیے رہنے نہیں آئے لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور اس کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم مرنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے کس چہرے کے ساتھ سامنا کریں گے۔

بہرکیف اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں ہر طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہو ایسے میں کون کیوں کر یا کیسے اپنی نگاہوں پر اپنے ہاتھ رکھ سکتا ہے؟یہ ایک انتہائی تلخ یا کڑوا گھونٹ ہے جسے پینا بہت ہی مشکل کام ہے۔ مگر پھر بھی خدا کے جن نیک بندوں کو ایمان کی حلاوت حاصل کرنا مقصود ہو اور خدا سے تعلق اور محبت منظور ہوتی ہے اور جنھیں باطن کی صفائی، طہارت یا تزکیہ مدنظر ہوتی ہے، وہ اس کڑوے گھونٹ کو جی کڑا کرکے پی جاتے ہیں اور جب ان کی یہ عادت پختہ یا راست ہوجاتی ہے تو وہ لوگ اس کی لذت یا تاثیر اپنے وجود میں محسوس کرتے اور نتیجے میں چین و سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ خدا ایسے لوگوں پر بے انتہا انعامات کی بارش کرتا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

مشاہدہ ہے کہ دنیا سے ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ جنھوں نے اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھا، اس پر حاوی رہے اور ضبط کے اس کڑوے کسیلے گھونٹ کو پیا تو ان کے مرنے کے بعد سے لحد میں اترنے تک ان کے جسم سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں آتی رہیں۔ آج ہم میں سے اکثریت اپنے وجود سے اٹھتی بدبوکو ملکی اور غیر ملکی مہنگی مگر وقتی خوشبوؤں کے اسپرے کرکے اسے چھپانے کی سعی ناکام کرنے میں مصروف ہیں لیکن جس عمل سے اس بوکا خاتمہ ہوسکتا ہے وہ کام کرنے پر ہم ذرہ برابر آمادہ نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے صرف لباس ہی اجلے رہ گئے ہیں ہمارا تن ہمارا من سبھی تعفن زدہ ہوچکا ہے۔

اس لیے اب سے، آج سے ہم ایسے اصول وضع کریں جو ہمارے رسولؐ نے مسلمانوں کے اچھے وصف کے لیے مقرر فرمائے انھی اصولوں پر چل کر ہم اپنی عاقبت میں سدھار لاسکتے ہیں۔ ویسے بھی اصولوں کی عمر ہمیشہ انسان کی زندگی سے زیادہ طویل ہوتی ہے، اگر ہم نے اصولوں پر عمل نہ کیا تو زندہ لاش بن جائیں گے اور وقت کے گدھ ہمیں نوچ کر کھا جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔