صدارتی الیکشن

جاوید قاضی  جمعرات 6 ستمبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہمیں صدارتی انتخابات کے نہ آداب آئے نہ اس کی روح سمجھ میں آئی، ایک بے یقینی سی ہے۔ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ تین اطراف سے ہوا اورکچھ جم کے ہوا۔ یوں بھی تھا کہ اگر اپوزیشن متحد رہتی تو اس بار صدر پاکستان حکومتی جماعت سے نہ جیتتا بلکہ وہ حزب اختلاف کے ووٹوں سے جیتتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار اور دو سے قدرے بہتر تھے۔ قانون دان ہیں، وکلاء تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ نواز شریف نے ان کے خلاف ایک مرتبہ اپنا امیدوار قومی اسمبلی کے لیے نہیں کھڑا کیا تھا۔ یہ موصوف خود اپنی پارٹی سے ججوں کی بحالی کے لیے لڑ پڑے تھے۔ یوں کہیے رول آف لاء کے لیے، جمہوریت کی بحالی کے لیے، آمریت کے خلاف یہ پارٹی کے مفادات سے بھی اوپر چلے گئے تھے۔

پارٹی صدارتی امیدوار سنجیدہ لائی تھی لیکن انتخابات کے لیے سنجیدہ نہیں تھی، جنہوں نے مولانا فضل الرحمان کو اپنی طرف سے صدارتی انتخابات میں کھڑا کیا وہ ایک ایسے امیدوارکو سامنے لے آئے جو فاٹا کو کے پی کے میں ضم ہونے کے خلاف تھے۔ آپ مذہبی رہنما ہیں، طالبان کے حمایتی بھی رہے ہیں، آمریتوں کے ساتھ بھی رہے ہیں اور جمہوریت کے ہمنوا بھی، اقتدار ان کی بھی مجبوری رہی ہے۔ جو مذہبی سیاست کرنے والے سیاسی رہنما ہیں ان میں پھر بھی معقول اور درمیانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ عمران خان وزیراعظم ہوں اور مولانا فضل الرحمان اگر صدر ہو جاتے تو آپ ہی سوچیے کیا نقشہ بنتا۔

ڈاکٹر عارف علوی پی ٹی آئی کے تین چار بڑے لیڈروں میں سے ایک ہیں، جب کہ صدارتی عہدہ تھوڑا سا ٹھہرائو والا ہے اورخود صدر پاکستان کی شخصیت جارحانہ ہو۔ خیر سے دونوں باقی مقابلہ کرنے والوں کے پیچھے غیر سنجیدگی کی وجہ سے بہت آسانی سے وہ صدر پاکستان بن گئے۔ بنیادی طور پر صدر پاکستان علامتی عہدہ ہے۔ یہ سینیٹ کا تسلسل ہے، اس کا الیکٹوریٹ کالج سینیٹ انتخابات کے الیکٹوریٹ کالج کا تسلسل ہے اور ان کے ایک لحاظ سے کونسل آف کامن انٹرسٹ یعنی سی سی آئی بھی جڑتی ہے۔

سینیٹ معنی خیز ادارہ ہے تو سی سی آئی بھی لیکن سی سی آئی ابھی تک فعال نہیں ہوئی جو اٹھارویں ترمیم کے بعد سی سی آئی کو فعال کرنے کے حوالے سے کام بھی ہوا اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ جس کا سب سے بڑا ملزم خود پی ایم ایل نون کوکہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے بیانیے میں وفاقیت بہت کم تھی یہ اور بات ہے کہ اٹھارویں ترمیم خود پی ایم ایل نون کے بغیر ممکن نہ تھی ۔

ہندوستان کے دستور میں اور ہمارے دستور میں صدر مملکت کی حیثیت بہت حد تک ملتی جلتی ہے اور وہاں اس عہدے پر ایسے شخص کو بٹھایا جاتا ہے جو انتہائی غیر متنازع ہو اور تمام طبقات و مختلف رنگ و نسل ومذہب کے حوالے سے سب کو بھاتا ہو یوں کہیے کہ ہندوستان کے ایک ہونے کی علامت ہو۔

ہمارے آصف علی زرداری جب صدر پاکستان بنے تو خود وہ اپنے بنائے ہوئے وزیر اعظم پرگھیرائو بنا کے بیٹھ گئے اور اقتدار کا مرکز یوں کہیے وزیراعظم ہائوس کم، ایوان صدر زیادہ لگتا تھا۔ ایک صدر بینظیر بھٹو نے بھی پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے بنوایا تھا جب محترمہ خود وزیراعظم تھیں وہ عارف علوی کی طرح پارٹی کے چند بڑے لیڈروں میں سے ایک تھے 58(2)(b) کا زمانہ تھا۔ خود خنجر نکال کر اپنی محسن بینظیرکے وزیراعظم ہونے پرگھونپ دیا۔ جس طرح جنرل ضیاء الحق کے بعد بننے والے اسحاق خان نے گھونپا تھا۔ میاں صاحب کو بھی یہ خنجر اسحاق خان سے نصیب ہوا ۔ پھر جب دوسرے دور میں 58(2)(b) ختم ہوئی تو رفیق تارڑ کو میاں صاحب نے صدر پاکستان بننے میں مدد کی۔ وقت آیا تو پھر 58(2)(b) کی بھی ضرورت نہ پڑی۔میاں صاحب گئے تو تارڑ صاحب صدر پاکستان ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکے۔ چار بڑے آمر بھی صدر پاکستان بنے۔

بالآخر ڈاکٹر عارف علوی سے پہلے اس عہدے پر ممنون حسین صدر پاکستان بنائے گئے، اتنے گوشہ نشین کے شاید خود صدر پاکستان کا عہدہ بھی نہیں ہو یا خود ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے تو ان کے چوہدری فضل الٰہی بھی نہ ہوں کم از کم اسلامی سربراہ کانفرنس میں ان کو چبوترے پر تو اپنے ساتھ کھڑا کرتے تھے، جب کہ اسلامی ملک کا سربراہ لاہور کے ایئرپورٹ پر اترتا تھا۔

اس زمانے میں ایک چرچہ بہت عام ہوا تھا وہ زمانہ ’’واٹس ایپ‘‘ کا زمانہ نہ تھا مگر وہ اپنے انداز میں اتنا ہی وائرل ہوا جیسا کہ آج کل قائم علی شاہ کے چرچے عام ہوتے تھے۔ وہ چرچہ یہ تھا کہ ایوان صدرکے باہرکی دیوار پر ایک تحریر چاکنگ کی ہوتی تھی کہ صدر پاکستان فضل الٰہی کو رہا کرو۔ وہ چاکنگ فورا مٹائی جاتی پھر وہیں پر چاکنگ کی ہوئی کہ ہوشیار صدر پاکستان کو رہا کرو۔ بالآخر جب یہ بات ذوالفقارعلی بھٹو تک پہنچی تو طے یہ پایا کہ چپ کرکے وہاں درختوں کے اندر اسپاٹ لگائی جائی اور جیسے ہی چاکنگ کرنے والا آئے تو لائٹیں کھول دی جائیں، رات کو کیا دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص چہرے پر نقاب اوڑھے، رنگ کا ڈبا اپنے ہاتھ میں لیے آرہا ہے جیسے ہی اس نے چاکنگ شروع کی تو ایک دم ساری اسپاٹ لائٹ کھول دی گئیں، وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ خود صدر پاکستان چوہدری فضل الہی تھے۔

آج جب ڈاکٹر عارف علوی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں تو پھر ہمیں بھی ساری باتیں، سارے عذاب، غبار خاطرکے مانند یاد آگئیں اور ایک لمبی تاریخ پاکستانی وفاق کے حوالے سے اور وفاق کے انکار کے حوالے سے۔ دستور 1973ء کے حوالے سے اس توازن کو امریکا کے آئین سے لیے ہوئے doctrine of federation کے حوالے سے سب یاد آگیا۔

جب صدر پاکستان آمر تھا تو وزیراعظم کمزور تھا ۔ وہ محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفر اللہ جمالی یا غلام مصطفیٰ جتوئی ہوں اور جب وزیراعظم طاقتور تھا تو صدرکمزور۔

اب کی بار یہ تیسرا مسلسل صدر پاکستان ہے جو 58 (2)(b) کے ساتھ تو نہیں ہے، سوائے زرداری کے باقی جن صدور کے پاس 58(2)(b) تھا، انھوں نے اپنے اپنے وزیر اعظم پر استعمال کیا۔ زرداری صاحب کے پاس 58(2)(b) کوئی معنی نہیں رکھتی تھی اور وہ خود وزیر اعظم سے علامتی طور اور بحیثیت پارٹی چیئرمین طاقتور تھے۔

ڈاکٹر عارف علوی سے شاید ہماری دوبارہ ملاقات حلف اٹھانے کے بعد، صحیح طرح سے پھر چودہ اگست یا تیئس مارچ کو سلامی کے چبوترے پر شیروانی پہنے ملیں گے اور ایوان صدرکے اندر ہر اس کام میں لگے ہوئے ہوں گے جو پی ٹی آئی کے لیے ہو جوکہ خود صدر پاکستان کے عہدے کے حساب سے ٹکرائو میںہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی بحیثیت صدر پاکستان آئین کی رو سے جو اس عہدے کا تشخص ہے برقرار رکھ پائیں گے۔ اپنی پارٹی کے مفادات سے جڑے رہ پائیں گے۔

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔