ممنون حسین کا دور صدارت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 12 ستمبر 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ممنون حسین بارہویں صدرکی حیثیت سے اپنی آئینی مدت پوری کرکے ایوانِ صدر سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے پارلیمانی روایت کے مطابق مخالف سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان سے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا، اگرچہ عمران خان نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے حلف اٹھانے کے بعد صدر ممنون حسین سے مصافحہ نہیں کیا مگر ممنون حسین نے پھر بھی وفاقی کابینہ کے اراکین سے حلف لیا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر ممنون حسین نے نو منتخب وزیر اعظم سے حلف لینے کے لیے ایڈنبرا یونیورسٹی جانے اور اعزازی ڈگری لینے کا پروگرام منسوخ کیا۔ ممنون حسین نے اپنے پیش رو آصف زرداری، رفیق تارڑ اور فضل الٰہی چوہدری کی پیروی کرتے ہوئے آئین کی  پاسداری کی اور امور ریاست میں مداخلت نہیں کی۔ 1973ء کے آئین کے تحت وفاقی کابینہ کی کارروائی کو منگوانے، اس کارروائی کا مطالعہ کرنے اور وفاقی کابینہ کو مشورہ دینے کی بھی کوشش نہیں کی۔

سابق صدر ممنون حسین نے اپنا حلف اٹھانے کے بعد کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں صحافیوں اور کالم نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ آئین کے تحت دیے گئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کابینہ کی کارروائی کا مطالعہ کیا جائے۔ صدر ممنون حسین کے اس آئینی کردارکا سوشل میڈیا پر بڑا مذاق اڑایا گیا۔ نامعلوم افراد نے ایسے کارٹون وائرل کیے جس میں ان کی ریاستی امور میں عدم مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہاں تک کہا گیا کہ وہ صرف 14اگست کو مسلح افواج کی پریڈ کے موقعے پر ہی اپنا منہ کھولتے ہیں۔

سابق صدر ممنون حسین فاٹا اور قبائلی علاقو ں کے امور کے نگراں تھے۔ پھر وہ وفاقی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی تھے۔ فاٹا اور قبائلی علاقوں میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران طالبان اور مذہبی شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رہا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کے بہت سے گروپ ختم ہوئے مگر اس کے ساتھ ہی لاپتہ افراد کا سنگین مسئلہ پیدا ہوا۔ ان علاقوں میں نوجوانوں کی ایک مزاحمتی تحریک پیدا ہوئی جس کی گونج بین الاقوامی منظرنامے پر بھی ابھری مگر ممنون حسین نے اپنے اختیارات کو کبھی استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔

سابق صدر ممنون حسین نے افغانستان، نائیجیریا، ایران، ترکی، چین، برطانیہ اور دیگر ممالک کے دورے کیے۔ ممنون حسین اس وقت افغانستان گئے جب افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے پاکستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ممنون حسین کے اس دورے میں افغانستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں دو طرفہ تجارت،افغان طالب علموں کے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے، اساتذہ، صحافیوں اور فنکاروں کے وفود کے تبادلے اور ثقافتی تعلقات کو مستحکم کرنے سے متعلق تھے۔

سابق صدر ممنون حسین کے اس دورے میں کئی وزراء اور متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ صدر ممنون حسین افغانستان کے دور سے بہت مطمئن ہو کر واپس آئے تھے مگر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا جائزہ لینے والے صحافیوں کا  کہنا تھا کہ ان میں سے 80 فیصد معاہدوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ تاجروں کی ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس میں افغانستان کے امور کے نگراں ایک تاجر نے ایک مجلس میں کہا تھا کہ ممنون حسین کی نگرانی میں ہونے والے بیشتر معاہدے اخبارات کی خبروں تک محدود رہے۔

ایسی ہی صورتحال دیگر ممالک کے دوروں کی بھی ہوئی۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے وفاقی حکومت کے چیف ایگزیکٹو تھے اور تمام وزارتیں اور خودمختار ادارے ان کے ماتحت تھے۔ ممنون حسین وفاقی یونیورسٹیوں کے چانسلر تھے۔ میاں نواز شریف نے اپنے صدر کو وفاقی یونیورسٹیوں کی نگرانی اور تمام فیصلوں کا اختیار دیا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ممنون حسین کے دور میں وفاقی یونیورسٹیوں کے حالات انتہائی ابتری کا شکار ہوئے۔

ممنون حسین نے ان یونیورسٹیوں کے معاملات اپنے پرانے دوستوں کے سپرد کیے جن میں کچھ تاجر،کچھ سابق بیوروکریٹ اور سیاسی کارکن تھے۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم کے تقاضوں سے واقف نہیں تھے۔ ممنون حسین کے دور میں کم از کم دو وفاقی یونیورسٹیاں مسلسل بحران کا شکار رہیں۔ ایک وفاقی اردو یونیورسٹی نگراں وائس چانسلر کی پی ایچ ڈی کی ڈگری وفاقی حکومت کے اعلیٰ تعلیم کے سب سے بڑے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سرقہ قرار دیدی۔

کسی وائس چانسلر کی ڈگری مشکوک ہونے کا مطلب اس یونیورسٹی کی ساکھ کا ختم ہونا ہوتا ہے۔ پھر آئین کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن وفاق کے اعلیٰ تعلیم کے تمام معاملات کا نگراں ہے۔ اس کے چیئرمین کا تقرر ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت وزیر اعظم کرتے ہیں مگر صدر ممنون حسین نے اس ادارے کے فیصلے پر عملدرآمد کے بجائے اپنے ذاتی دوستوں کے مشورہ پر عمل کرنا بہتر جانا، یوں یہ ذرایع ابلاغ کا پسندیدہ موضوع بنا ۔

ایوان صدر کی خاموشی کی بناء پر معاملات اعلیٰ عدالتوں میں رہے۔ یونیورسٹی عدالتوں کے جاری کردہ حکم امتناع پر چلتی رہی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے وفاقی اردو یونیورسٹی کو بلیک لسٹ میں شامل کیا، یونیورسٹی کے ترقیاتی کام رک گئے۔ اساتذہ اور طلبہ فروعی معاملات میں الجھ گئے۔ یہ عجیب  وقت تھا کہ ایوان صدر اپنے ادارہ کے خلاف سرگرم تھا۔ پھر ایوان صدر نے وزارت تعلیم کے مشورے پر عملدرآمد نہیں کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور تعلیم کی سلیکٹ کمیٹی نے بھی صدر کو مشورہ دیا کہ یونیورسٹی کو بچانے کے لیے کارروائی کی جائے مگر ممنون حسین اپنے معاونین میں کھوئے رہے۔

جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو انھوں نے ایچ ای سی اور وزارت تعلیم کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے ایوان صدر کو نگراں وائس چانسلر کو ہٹانے کی ہدایت کی جس پر صدر ممنون حسین اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور  ہوئے۔ اسی طرح اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی مستقل جھگڑوں، طلبہ اور اساتذہ کے احتجاج کا شکار رہی ۔ اس یونیورسٹی کے اساتذہ وائس چانسلر کو ہٹانے کے لیے مہم چلاتے رہے۔ ایوان صدر یونیورسٹی میں پرسکون تعلیمی ماحول قائم کرنے میں ناکام رہا۔ تعلیمی اداروں کی تباہی اپوزیشن کے لیے کوئی اہم مسئلہ نہیں تھا اس لیے اس پر شور نہیں مچایا گیا اور نہ نیب کو تعلیمی اداروں کی تباہی پر ریفرنس دائر کرنے کا خیال آیا۔

ممنون حسین نے اپنے عہدے صدارت کے ابتدائی برسوں میں مختلف معاملات پر لبرل رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے فیصل آباد میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے فری مارکیٹ اکانومی میں سود کے استعمال سے متعلق جدید تحقیق کے حوالوں سے تقریر کی۔ ممنون حسین نے اپنے مؤقف کو مضبوط کرنے کے لیے اسلامی اسکالر کے حوالے دیے۔ بعض کم پڑھے لکھے انتہاپسند مذہبی رجحان رکھنے والے ایک گروہ نے ممنون حسین کے خلاف مذموم مہم شروع کی۔

ممنون حسین اس مہم سے خوفزدہ ہو گئے۔ انھوں نے 12 ربیع الاول کو کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں علماء کی ایک مجلس منعقد کی اور اس مجلس میں بعض علماء کے انتہاپسندانہ خیالات کی تائید کی۔ یوں ان کے خلاف یہ مہم بند ہوئی۔ جب پاناما اسکینڈل کا ذرایع ابلاغ پر چرچا ہوا تو ممنون حسین اس اسکینڈل کی گہرائی کو محسوس نہ کرسکے۔ انھوں نے ایک تقریر میں کہا کہ اب بہت سے بدعنوان افراد کے چہرے سیاہ ہوںگے۔ انھیں شاید یہ اندازہ نہ تھا کہ ان کے محبوب وزیر اعظم کا اس اسکینڈل میں چہرہ سیاہ ہوگا۔

بعض کالم نگاروں نے لکھا ہے کہ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کی ہائی کمانڈ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ سابق صدر ممنون حسین اور مسلم لیگ ن کے تینوں گورنر ایک پریس کانفرنس میں انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج کرکے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونگے۔ صدر ممنون نے اس تجویز سے اتفاق کیا مگر فرمایا کہ ایڈنبر یونیورسٹی انھیں اعزازی ڈگری دے رہی ہے، وہ ڈگری وصول کرنے کے بعد مستعفی ہونگے۔ یوں یہ تجویز بے اثر ہوگئی، مگر سندھ کے گورنر محمد زبیر نے  فوری طور پر استعفیٰ دیدیا۔

تحریک انصاف کی قیادت کے کہنے پر ممنون حسین ایڈنبر یونیورسٹی نہیں گئے اور عمران خان سے حلف لیا۔ ممنون حسین نے اپنے 14 اگست کی تقریر میں الیکشن میں دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے کردارکا تنقیدی ذکر کیا۔ پھر وہ نجی دورے پر لندن گئے اور نوا ز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کی اور پہلی دفعہ انھوں نے اس موقعے پر نواز شریف سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ ممنون حسین کا شمار ملک کے دو تین صدرو میں ہوگا جن کا کوئی ذاتی اورکرپشن کا اسکینڈل نہیں بنا۔ اپنی کچھ کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود آئین کی تابعداری کی بناء پر تاریخ میں اچھے نام سے یاد کیے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔