محبّت اہلِ بیت معراج  ِایمان

مفتی محمد وقاص رفیع  جمعـء 21 ستمبر 2018
اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت رکھنا، اُن کی تعظیم و توقیر بجالانا ایمان کی معراج ہے۔ فوٹو: فائل

اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت رکھنا، اُن کی تعظیم و توقیر بجالانا ایمان کی معراج ہے۔ فوٹو: فائل

اہل بیت کے لغوی معنی گھر کے افراد ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں اس لفظ کا اطلاق حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے افراد پر ہوتا ہے۔ اہل بیت کے تعیّن میں مختلف روایات مروی ہیں۔

ایک طرف تو وہ روایتیں ہیں کہ جن سے بنو ہاشم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال پر ’’اہل بیت‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ روایتیں ہیں جن سے ’’اہل بیت‘‘ کا مصداق صرف حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے علمائے کرام نے ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یوں بٹھائی ہے کہ ’’بیت‘‘ کی تین نوعیتیں ہیں: ٭بیت نسب ٭ بیت سکنی ٭ بیت ولادت

بنو ہاشم یعنی جناب عبدالمطلب کی اولاد کو تو نسب اور خاندان کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اہل بیت‘‘ کہا جائے گا اور ازواجِ مطہراتؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اہل بیت سکنی‘‘ (اہل خانہ) کہا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو ’’اہل بیت ولادت‘‘ کہا جائے گا۔

( بہ حوالہ: مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف )

حضرت علی،ؓ حضرت فاطمہ،ؓ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو خاص فضل و شرف اور کمال درجے کا قرب و تعلق حاصل تھا، اور ان کے فضائل و مناقب جس کثرت سے ذخیرۂ احادیث میں وارد ہوئے ہیں اُس بنا پر ’’اہل بیت‘‘ کا خصوصی و امتیازی مصداق صرف یہی مذکورہ چار حضرات ہیں۔

(مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف )

اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت رکھنا، اُن کی تعظیم و توقیر بجالانا ایمان کی معراج ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت اطہارؓ کے ساتھ نیک اور عمدہ سلوک کرنے والے کو پسند فرمایا ہے اور ان کے ساتھ بُرا اور غلط سلوک کرنے والے کو ناپسند فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے حق میں ارشاد فرمایا : ’’جو کوئی ان سے لڑے گا میں اُس سے لڑوں گا، اور جو کوئی اِن سے مصالحت رکھے گا میں اُس سے مصالحت رکھوں گا۔‘‘

(جامع ترمذی)

حضرت جُمیع بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اپنی پھوپھی کے ساتھ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: ’’اور مَردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’ فاطمہ ؓکے شوہر (حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ) سے۔‘‘(جامع ترمذی)

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’ فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہؓ کو خفا کیا اُس نے مجھے خفا کیا۔‘‘ (بخاری و مسلم)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپؐ کے کندھے پر سوار تھے اور آپؐ فرما رہے تھے: ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تُو بھی اس سے محبت کر۔‘‘ (بخاری و مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کے ایک حصے میں باہر نکلا۔ جب آپ ؐ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پہنچے تو پوچھا: ’’ کیا یہاں مُنّا ہے؟ کیا یہاں مُنّا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے۔ ابھی آپ ؐنے چند ہی لمحے گزارے تھے کہ حضرت حسن ؓ آپؐ کے گلے سے اور آپ ؐ حضرت حسن ؓ کے گلے سے لپٹ گئے، اور پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ اے اللہ! میں اس سے محبّت کرتا ہوں، پس تو بھی اس سے محبّت کر، اور جو اس سے محبّت کرے تو اُس سے بھی محبّت کر۔‘‘ (بخاری و مسلم)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے ) دیکھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپؐ کے پہلو میں تھے، کبھی تو آپؐ (وعظ و نصیحت میں تخاطب کے لیے) لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی ( محبت اور پیار بھری نظروں سے ) حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے، اور فرماتے : ’’میرا یہ بیٹا سیّد ہے، اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت عبدالرحمن بن ابی نعم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، جب کہ (اہل کوفہ میں سے) کسی شخص نے اُن سے ’’مُحرِم‘‘ کے بارے میں پوچھا تھا (اس روایت کو حضرت عبدالرحمن سے روایت کرنے والے راوی) شعبہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ پوچھنے والے نے ’’مکھی‘‘ کو مار ڈالنے کا حکم دریافت کیا تھا۔ اس پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’عراق یعنی کوفہ کے لوگ مجھ سے مکھی مار ڈالنے کے بارے شرعی حکم دریافت کرتے ہیں، حالاں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو مار ڈالا ہے، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ: ’’ یہ دونوں (حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ) میری دُنیا کے دو پُھول ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

(جامع ترمذی)

حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن، رات میں اپنی کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے گھر کے اندر سے ) اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے ساتھ لپیٹے ہوئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی، پھر جب میں اپنی ضرورت کو عرض کرچکا تو پوچھا کہ یہ کیا چیز آپؐ نے لپیٹ رکھی ہے؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس چیز کو کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حسنؓ و حسینؓ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو گود میں لے کر چادر سے لپیٹ رکھا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ دونوں (حکماً) میرے بیٹے ہیں (کہ نواسے بھی بیٹے ہی ہوتے ہیں) اور (حقیقتاً) میری بیٹی (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تُو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان دونوں سے محبت رکھے تُو اس سے بھی محبت رکھ۔‘‘ (جامع ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’ آپؐ کے ’’ اہل بیت‘‘ میں سے کون شخص آپؐ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہے؟ ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حسنؓ اور حسینؓ۔‘‘ اور (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، جب کسی وقت حضرت حسنؓ و حسینؓ کو گھر میں نہ دیکھتے تو) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے : ’’میرے دونوں بیٹوں کو بلا لاؤ۔‘‘ پھر جب (حضرت حسنؓ و حسینؓ آجاتے تو) آپ ان دونوں کے جسموں کو سونگھتے (کیوں کہ وہ آپ کے دو پھول تھے) اور ان دونوں کو اپنے گلے سے لگا لیتے۔‘‘ (جامع ترمذی)

حضرت یعلی ٰ بن مرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، اللہ تعالیٰ اُس شخص سے محبت رکھتے ہیں جو حسینؓ سے محبت رکھتا ہو، حسین ’’ اسباط‘‘ میں سے ایک ’’سبط‘‘ (یعنی میرا بیٹا ) ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجیے کہ میں آج مغرب کی نماز جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھوں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کروں کہ وہ میرے اور آپ کے لیے بخشش و مغفرت کی دُعا فرمائیں۔ چناں چہ (میری والدہ نے مجھے اجازت دے دی اور) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ آپؐ (مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ) نوافل پڑھتے رہے، یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز پڑھی، اور جب آپ ؐ نے میری آواز سنی تو پوچھا : ’’ کون ہے؟ ‘‘ اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری والدہ کو بخشش و مغفرت سے نوازے! (دیکھو!) یہ ایک فرشتہ ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اُترا، اِس فرشتے نے اپنے پروردگار سے اس بات کی اجازت لی ہے کہ (زمین پر) آکر مجھے سلام کرے اور مجھے اس بات کی خوش خبری سنائے کہ : ’’ فاطمہؓ جنّت کی عورتوں کی سردار ہے اور حسنؓ و حسینؓ جنّت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی)

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں حضرات اہل بیت اطہارؓ کے ساتھ سچی عقیدت و محبت عطا فرمائے اور ہمیں اُن کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے اُن کا سچا اور حقیقی پیروکار اور اُن کی کامل اتباع کرنے والا بنائے اور قیامت کے دن ہمارا حشر بھی انہیں کے ساتھ فرمائے۔ آمین

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔