قومی کھیل کی تباہی کے اصل اسباب تلاش کرنے کی ضرورت

میاں اصغر سلیمی  اتوار 7 اکتوبر 2018
پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔ فوٹو: فائل

ہاکی وہ کھیل تھا جس نے اقوام عالم میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بار بار لہرایا، یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا۔

پاکستان نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی، 1960 کے روم اولمپکس میںگرین شرٹس نے روایتی حریف بھارت کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دے کر پہلی مرتبہ اولمپک چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3 چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشینز گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے تاہم ماضی کی ہاکی فیڈریشنوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 1960ء ، 1968ء اور 1984ء کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے چلا گیا۔ پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا۔

قومی کھیل کو اس کے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے کھوکھلے دعوے لئے پی ایچ ایف میں میوزیکل چیئر کی گیم جاری رہی، عہدیدار آتے اورحکومت سے کروڑوں اربوں کے فنڈز لیتے رہے، جائیدادیں بناتے ، بینک بیلنس بڑھاتے اور اپنوں کو نوازتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ ہاکی ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی چلی گئی، ایک وقت وہ بھی آیا جب گرین شرٹس نہ صرف ورلڈ کپ 2014ء بلکہ اولمپکس2016ء کی دوڑ سے بھی باہر ہوئے ۔

تین سال قبل پاکستان ہاکی فیڈریشن کی نئی انتظامیہ نے چارج سنبھالا،1994ء کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر کے سیکرٹری فیڈریشن بننے کے بعد بظاہر محسوس ہونے لگا کہ شاید اب قومی کھیل کی تقدیر بدلنے والی ہے لیکن ان کے دور میں بھی پاکستانی ٹیم کی شکستوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

کامن ویلتھ گیمز کے بعد ایشین گیمز میں بھی قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد سابق اولیمپئنز اور شائقین کی طرف سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے تاہم ہمیں یہ حقائق بھی ہر گز فراموش نہیں کرنے چاہئیں کہ ہاکی کے زوال کے ذمہ دار اکیلے پی ایچ ایف حکام یا کھلاڑی ہی نہیں بلکہ کئی اور عوامل بھی ہیں جن پر کبھی کسی نے بات کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

ماضی میں کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کے لیے نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔

ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید،آصف باجوہ، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، دانش کلیم سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے ذاتی معاشی حالات کو استحکام دیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔

وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے۔

کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں، دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھنتے جا رہے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم جاپان اور ملائشیا سمیت دیگر ایشیائی ممالک سے بھی ہارنا شروع ہو گئی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ کتنے کھلاڑی ایسے ہیں جو میچ کے دوران وطن اور اپنی کھیل سے محبت کا ایسا جذبہ لے کر میدان میں میں اترتے ہیں؟ وہ تو اس وقت بھی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کامیابی کی صورت میں کتنے ڈالرز ہمارے ہاتھ آئیں گے، غیر ملکی لیگز اور کلبوں کے ساتھ معاہدوں کی صورت میں کتنے ڈالرز اور پاؤنڈز ان کے بینک اکاؤنٹس کی رونق بڑھائیں گے۔

قومی ٹیم کے کپتان رضوان سینئر کیمپ چھوڑ کر ہالینڈ میں ہاکی لیگ کھیلنے میں مصروف ہیں، تجربہ کار کھلاڑی راشد محمود نے بھی کیمپ کو لفٹ نہیں کروائی اوریورپ سے وطن واپس آنے کے بعد لاہور میں آل پاکستان نیول ہاکی چیمپئن شپ کھیلنے میں مصروف ہیں لیکن انہوں نے بھی کیمپ کا حصہ بننے کی زحمت گوارا نہیں کی، ایک اور کھلاڑی شفقت رسول نے تو کینیڈا میں ہاکی کی وجہ سے کیمپ میں آنے سے ہی معذرت کر لی۔

بلاشبہ ہاکی کے موجودہ حالات بد سے بھی بدتر ہیں، شائقین کھیل کی طرح راقم کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے لیکن کیا ہمیں یہ فرض کر لینا چاہیے کہ کامن ویلتھ اور ایشین گیمز کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا؟ تو جواب سیدھا سادا ہے کہ نہیں ہر گز نہیں، رات جتنی اندھیری، تاریک اور سیاہ ہوتی ہے، اس کی صبح اتنی ہی روشن اور امید افزاء ہوتی ہے اور شائقین ہاکی کو بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔