ذمہ داری ہم سب کی ہے

میاں عمران احمد  جمعرات 25 اکتوبر 2018
 پاکستان میں پولیس تحفظ اور امن کے بجائے غنڈہ گردی اور دہشت کی علامت ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان میں پولیس تحفظ اور امن کے بجائے غنڈہ گردی اور دہشت کی علامت ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کسی نے گاڑی کی ڈکی پر ہاتھ مارا۔ کچھ دیر بعد ایک شخص گاڑی کے قریب آ کر سروس لین میں آنے کا اشارہ کرنے لگا، شہری نے سروس لین میں آنے سے انکار کیا۔ وہ گاڑی کے قریب آیا اور دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ پان کی سرخی کو اس نے خون کا نام دیا اور کہنے لگا کہ آپ کی گاڑی سے مجھ سمیت دو لوگ شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ پھر موبائل فون پر کسی سے بات کی اور شہری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بندہ مر گیا ہے۔ آپ پر قتل کا مقدمہ ہوگا۔

شہری پہلے گھبرایا، لیکن پھر اپنے حواس پر قابو پا کر اسے جواب دیا کہ تم جو بھی ہو نکلو میری گاڑی سے۔ شہری نے جب اسے کوئی گھاس نہ ڈالی تو اس شخص نے پیسے مانگنا شروع کر دیے۔ شہری اس کی باتوں میں نہیں آئے۔ اللہ کا کرم ہوا اوروہ شخص موبائل پر بات کرتا ہوا گاڑی سے باہر نکل گیا۔ شہری نے گاڑی اسٹارٹ کی اور دفتر چلے گئے۔ شہری نے تھانے جا کر شکایت درج کروانے کی ہمت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ پولیس نے کیا کرنا ہے بلکہ الٹا مجھے پریشان کرے گی۔ البتہ بیٹے کے اصرار پر واقعہ ہونے کے دس گھنٹے بعد ڈولفن کو فون کیا۔ انھوں نے بھی یہ بات کہہ کر جان چھڑا لی کہ آپ کو اسی وقت پولیس کو اطلاع دینی چاہیے تھی۔ اب ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

جب متاثرہ شہری نے یہ واقعہ دوست احباب سے ڈسکس کیا تو پتہ چلا کہ ان میں سے بھی کئی افراد اس واردات کا شکار ہو چکے ہیں، اور باقاعدہ لٹ بھی چکے ہیں۔ ان میں سے بھی اکثریت نے پولیس کو شکایت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ کیونکہ ملک پاکستان میں پولیس تحفظ اور امن کے بجائے غنڈہ گردی اور دہشت کی علامت ہے۔ پولیس کے اس امیج نے عوام کو پولیس سے دور اور خوف کے نزدیک کر دیا ہے۔ کسی شہری کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی ہوجائے تو وہ جان اور مال بچ جانے پر شکر گزار ہونے اور نقصان ہو جانے پر صبر کرنے کوترجیح دیتاہے، لیکن پولیس کے پاس جانا نہیں چاہتا۔ جس کی وجہ سے یہ احساس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ پنجاب، خصوصاً لاہور میں حکومت عوام کو تحفظ کا احساس دلانے میں ناکام ہو رہی ہے۔

ان حالات کے پیش نظر پولیس کے امیج کو بہتر بنانے کےلیے پنجاب، خصوصاً لاہور میں پولیس ریفارمز وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس شعبے میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ عثمان بزدار صاحب! پولیس ریفامز تو تحریک انصاف کے سیاسی ایجنڈے میں سب سے پہلی ترجیح تھی۔ آپ سے گزراش ہے کہ اس ایجنڈے کو بروقت مکمل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ آپ سب سے پہلے پروفیشنل سابق انسپیکٹر جزلز افضل علی شیگری، کمال دین ٹیپو، شاہد ندیم بلوچ، سید محب اسد، ڈاکٹر شعیب سڈل، اکرم درانی، اے ڈی خواجہ اور مشتاق سکھیرا کی سربراہی میں ایک پولیس ریفامز کمیٹی تشکیل دیں۔ سابق آئی جی افضل علی شیگری پولیس آرڈر 2002 کے معمار بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نوید مختار صاحب اور سابق ڈی جی انٹیلیجنس بیورو شجاعت اللہ قریشی کو بھی اس کمیٹی کا حصہ بنایا جائے۔

جاپان، کینڈا، نیوزی لینڈ اور اٹلی کے پولیس ریفامز ماڈل دنیا میں بہترین ماڈلز مانے جاتے ہیں۔ ان ماڈلز کو اس کمیٹی کا حصہ بنایا جائے۔ ان چاروں ممالک کی پولیس فورس کا ایک اک نمائندہ بھی اس کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ اس کمیٹی کو دو ماہ کا وقت دیا جائے۔ یہ کمیٹی جو سفارشات دے، اس پر تمام تر ذاتی اور سیاسی ترجیحات سے بالاتر ہو کر عمل درآمد کیا جائے۔ جو بھی رکاوٹ آئے اسے فوری ختم کیا جائے۔ ان سفارشات کو اتنی ہی برق رفتاری سے عملی جامہ پہنایا جائے جس تیزی سے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جس دن آپ نے نیک نیتی اور صدق دل سے یہ کام کرلیا، اس دن آپ پنجاب کے باسیوں کو تحفظ کا احساس دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس دن پولیس عوام کی دشمن نظر آنے کی بجائے غم خوار اور دوست دکھائی دے گی۔ اور اس دن کوئی پولیس اہلکار عام شہری کی تکلیف سن کر یہ نہیں کہے گا کہ اب ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

اب ایک نظر تصویر کے دوسرے رخ پر بھی ڈالتے ہیں جہاں حکومت کے علاوہ کچھ ذمہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے عوام یہ ذہن نشین کر لیں کہ اگر کوئی انجان شخص آپ کو سڑک پر رکنے کا اشارہ کرے تو آپ رکنے کی غلطی مت کریں۔ اگر آپ کو کسی وجہ سے رکنے کی ضرورت پڑ جائے تو گاڑی کو ان لوک مت کریں۔ اگر بات کرنا ضروری ہو جائے تو فوراً گاڑی میں سے باہر نکل کر گاڑی لاک کر دیں۔ سب سے پہلے اس شخص کی تصویر اتار لیں۔ اس شخص کی موٹر سائیکل یا گاڑی کا نمبر نوٹ کریں اور آس پاس کے لوگوں کو اس گفتگو میں شامل کریں، اس واقعہ کی ویڈیو بنائیں اور ہر صورت میں متعلقہ تھانے سے رابطہ ضرور کریں۔ اس طرح کے واقعات کو میڈیا پر لائیں اور تب تک اس کا پیچھا کریں جب تک اس معاملے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل آتا۔ آپ کے اس ذمہ دارانہ عمل سے بہت سے لوگ لٹنے سے بچ جائیں گے اور معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی آ سکے گی۔ حکومت اکیلے یہ کام نہیں کر سکتی۔ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔

(یہ واقعہ لاہور کے شہری خالد شفیع صاحب کے ساتھ علامہ اقبال ٹاون کی حدود میں پیش آیا ہے اور اس کے تمام نکات حقائق پر مبنی ہیں۔)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔