زندگی کیسے بسر ہورہی ہے؟

آفتاب احمد خانزادہ  پير 29 اکتوبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

فلپس بروکس کہتا ہے’’آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ رہے ہوں گے یا کسی بڑی خواہش سے نبرد آزما ہو رہے ہوں گے لیکن اصل جدوجہد کا وقت ’اب‘ ہے، ’اب‘ یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پورے ہونے کے وقت آپ مکمل طور پر فیل ہوجائیں گے یا کامیابی آپ کے قدم چومے گی ،کردار ایک مستقل اورلمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا ۔‘‘

آپ پاکستان کے بیس کروڑ انسانوں میں سے کسی سے بھی اگر یہ سوال کر بیٹھیں کہ آپ کی زندگی کیسے بسر ہو رہی ہے تو دوسرے ہی لمحے آپ آگے آگے بھاگ رہے ہونگے اور وہ صاحب لمبی لمبی اور موٹی موٹی گالیاں دیتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہونگے ۔ یہاں ایک بڑ ا ہی سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کیا آپ کی غلطی ہے کہ آپ نے یہ سوال پوچھا یا ان صاحب کی جو آپ کے سیدھے سادے سے سوال پر اتنے برہم اور سیخ پا ہوگئے ۔

ظاہر ہے آپ کے غلط ہونے کا توسوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ساری غلطی ان صاحب کی ہے جو خواہ مخواہ آپ کے سیدھے سادے سے سوال پر اتنے غصے میں آگئے ، لیکن دوسری طرف اگر ہم ان صاحب کی ذہنی کیفیت کو ٹھنڈے دل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے زندگی کے شب و روز ان کے مسائل کا اگر باریکی کے ساتھ جائزہ لیں تو دوسرے ہی لمحے انھیں بھی ہم ہرگز ہرگز قصور وار نہیں ٹہرائیں گے کیونکہ جن حالات اور مسائل کے وہ شکار ہیں ان حالات اور مسائل کی موجودگی میں کوئی بھی انسان نارمل رویے کا مظاہرہ کسی بھی صورت نہیں کرسکتا ہے۔

اگر ان حالات ، واقعات اور مسائل کا شکار ہونے کے باوجود کوئی انسان نارمل رویے اختیارکیے رکھے تو یا تو وہ ولی اللہ ہوگا یا پھر وہ ان حالات، واقعات اور مسائل کے ذمے داروں میں سے ایک ہوسکتا ہے ۔ آپ کے خیال میں کیا ایک عام انسان بیس بیس گھنٹے بجلی نہ ہونے پر سارا سارا دن رات گیس کاانتظار کرتے کرتے پانی کی چند بالٹیوں کے سہارے وہ اور اس کے اہل خانہ دن رات بسر کر رہا ہو اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہو جب وہ روزگار کے لیے دھکے کھاتا پھر رہا ہو جب وہ طاقتوروں، با اختیاروں کی دن رات ذلت اورگالیاں برداشت کر رہا ہو جب اس کی زندگی گندگیوں میں گذر رہی ہو، جب اس کی ساری امیدیں اور خواب جل چکے ہوں، جب اس کے آنسو مرچکے ہوں جب اس کے دل میں زخم ہوچکے ہوں ، جب اس کے سامنے اس ہی جیسے انسان لوٹ ، مار،کرپشن ، غنڈہ گردی ، قبضوں، بھتوں کے ناجائز پیسوں پر عیاشیاں کرتے پھر رہے ہوں اور اس کی ایمانداری ، شرافت، دیانتداری کا مذاق اڑا رہے ہوں تو ان حالات، واقعات اور مسائل کی موجودگی میں بڑے سے بڑے انسان کا ایمان اورعقیدہ تک ڈگمگا جائے گا، ذہنی توازن برقرار رکھنا تو چھوٹی سے بات ہے جو انسان ان حالات، واقعات اور مسائل کی گندگیوں میں دھنسے ہوئے ہیں وہ ہی زندگی کی ذلالتوں، لعنتوں کے بارے میں بتاسکتے ہیں ۔

وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ روز جینا اور روز مرنا کسے کہتے ہیں ؟کفن پہن کر سار ا دن گھومنا اور سونا کسے کہتے ہیں ،ذلیل ہوناکسے کہتے ہیں ، اپنے آپ کو پیٹنا اورکوسنا کسے کہتے ہیں روز ماتم کرنا کسے کہتے ہیں روز اپنے آپ کوچیرنا اور پھاڑنا کسے کہتے ہیں۔

آپ فرض کریں کہ آپ کو آنکھوں کی کوئی تکلیف ہوگئی ہے، جس سے آپ کی بینائی میں فرق پڑگیا ہے اور آپ کسی ماہر عینک سازکے پاس جاتے ہیں اور وہ آپ کی شکایت مختصر طور پر سننے کے بعد اپنی عینک اتارکر آپ کو تھما دیتا ہے ۔ ’’ اسے پہن لو ‘‘وہ کہتا ہے ’’میں نے یہ عینک دس سال تک پہنی ہے اور مجھے اس سے بہت فائدہ ہے، میرے پاس ایک فالتو عینک گھر پر پڑی ہے تم یہ پہن سکتے ہو ۔‘‘

لہذا آپ یہ عینک پہن لیتے ہیں لیکن بینائی پہلے سے بھی خراب ہوجاتی ہے’’ یہ کیا بکواس ہے ‘‘آپ چیختے ہیں ، ’مجھے کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔‘ ’ بھئی کیا مسئلہ ہے‘ وہ کہتا ہے ’’مجھے تو اس سے بالکل صاف نظر آتاہے پھرکوشش کرو ‘‘ ، ’’میں کوشش کر رہا ہوں ‘‘ آپ اصرارکرتے ہیں لیکن ’ ہر چیز دھندلی ہے ‘ ’یار آپ کے ساتھ کیا پرابلم ہے آپ مثبت انداز میں سوچیں ‘ ’او کے‘ لیکن یہ مثبت بات ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ‘ ’ لڑکے تم بہت ناشکرگذار ہو ‘‘ وہ افسوس کے انداز میں کہتا ہے ’’حالانکہ میں نے تو تمہاری مدد کی بہت کوشش کی ہے ‘‘ ہم بیس کروڑ انسانوں کا واسطہ بھی ایسے ہی عینک سازوں سے پڑا ہوا ہے جو ہماری اذیتوں، تکالیف، دکھ درد کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم مثبت انداز میں سوچیں ۔ ہم دن رات آپ کی تکالیف اور اذیتیں دورکرنے میں مصروف ہیں، بس دوچار سال اور انتظار کرلیں تمام عذابوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی، ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا ، پانی ،گیس کی قلت ختم ہوجائے گی ملک سے مہنگائی کا مکمل خاتمہ کردیں گے، غربت اور افلاس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، جلد ہی ملک میں روزگارکا سیلاب بہنے لگے گا، اختیارات نچلی سطح تک منتقل کردیں گے ، ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا جلد خاتمہ کردیں گے، ہم آپ کے حکمران نہیں بلکہ خادم ہیں ۔

عرض ہے ، بس صرف دعو ے اور وعدوں کا شور مچا رکھا ہے عملی طور پر ہرکام بس زیرو پلس زیرو ہے ہم سب لوگوں کا شمار ان لوگوں میں ہے جو بھلا دیے گئے ہیں اور بھلا دینے کا غم کیا ہوتا ہے،کوئی بیس بائیس کروڑ لوگوں سے پوچھے ۔ 1979 میں امن کا نوبیل انعام وصول کرتے ہوئے، مدر ٹریسا نے کہا تھا ’’ میں نہیں بھول سکتی جب مجھے ایک گھر میں جانے کا موقع ملا تھا جہاں بیٹوں اور بیٹیوں کے بوڑھے ماں باپ تھے وہ لوگ جنہیں ایک ادارے میں ڈال کر شاید بھول گئے تھے، میں وہاں گئی اور میں نے دیکھا کہ اس گھر میں ان کے واسطے سب کچھ موجود تھا مگر ہر شخص دروازے کی طرف تکتا رہتا تھا میں نے کسی ایک کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی، میں نے ایک بہن سے پوچھا ،ایساکیوں ہے کہ یہاں سب کچھ ہے مگر لوگ دروازے کی طرف کیوں تکتے رہتے ہیں۔

یہ مسکراتے کیوں نہیں ۔ میں تو لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کی اتنی عادی ہوں مرتے ہوئے لوگوں کے لبوں پر بھی ۔ پھر انھوں نے کہا یہ تقریبا ہر روز ہوتا ہے کہ وہ انتظارکرتے ہیں امید کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے ملنے آئے گی ان کو دکھ ہوتا ہے کہ وہ بھلا دیے گئے ہیں‘‘ میرے دوستوں، بھائیوں اور بہنوں اب اس ساری صورتحال میں تمہارے پاس اب دو ہی راستے باقی بچتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ آپ اپنے کرتا دھرتاؤں کاانتظارکرتے رہیں اور بقول فلپس بروکس آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہتے رہیں اور مکمل طور پر فیل ہوجائیں یا پھر اٹھیں اور اپنے نصیب اپنے ہاتھوں بدل ڈالیں اور اپنے حقوق غاصبوں سے چھین لیں اورکامیاب اور خوشحال اور با اختیار ہوجائیں ’’اب ‘‘ یہ آپ کے کردار پر منحصر ہے کہ آپ اپنے لیے کون سے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔