- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو برانڈ ایمبیسڈر مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
قانونی سقم اور کراچی کے رہائشی
ٹی وی چینل پر منظر چل رہا تھا، ایک بزرگ پولیس والوں کے گھیرے میں ڈنڈوں سے بچنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ سر پر رکھے ہوئے ہیں اور بیشمار ڈنڈے اس بزرگ کے سر پر برسنے کے لیے آ رہے ہیں، ایک منظر میں نوجوان ڈٹا ہوا ہے، پولیس والے شدید لاٹھیاں مارتے ہوئے اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں اور ایک تیسرا شرمناک منظر جس میں برقعہ اور چادر پہنی ہوئی بہت سی گھریلو پردہ دار خواتین پر سرعام واٹر کینن سے پانی کی سخت اور تیز دھار، انھیں منتشر کرنے کے لیے انتہائی جاہلانہ، بے رحمانہ اور بے شرمانہ طریقے سے برسائی جارہی ہے۔
جس سے ان پردہ دار خواتین کے سر کے دوپٹے اور کپڑے بدن سے سرک رہے ہیں اور یہ خواتین گر کر زخمی بھی ہورہی ہیں۔ ان تمام مناظر میں عوام پر وحشیانہ تشدد ہورہا ہے۔یہ کسی مقبوضہ کشمیر کا منظر نہیں تھا بلکہ کراچی کے ایک علاقہ کے ان مکینوں کا تھا جن کے گھر یہ پولیس والے خالی کرانے آئے تھے۔ ظاہر ہے یہ زندگی بھر کا اثاثہ ہے، کراچی جیسے شہر میں ایک دو کمرے کا مکان بھی کروڑ سے کم کا نہیں ملتا۔ آج ایک اٹھارہ ، انیس گریڈ کا ایماندار سرکاری افسر بھی اس شہر میں مکان تو کیا پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا تو یہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ اس گھر کو چھوڑ کر کہاں جائینگے؟کہا جا رہا ہے کہ یہ قابضین ہیں۔ عدالت کا حکم ہے کہ یہ خالی کرایا جائے۔ بالکل درست! لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ جگہ خالی ہو جائے گی تو حکومت اس کا کیا کریگی؟
جواب: ظاہر ہے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی فلاحی منصوبہ بنائے گی۔
سوال: کس قسم کے منصوبے؟
جواب: کوئی بھی منصوبہ ہوسکتا ہے مثلاً صحت کی سہولت کے لیے اسپتال یا تعلیم کے لیے کوئی کالج یا یونیورسٹی وغیرہ۔
سوال : کیا رہائشی منصوبہ بھی عوام کی فلاح و بہبود میںآتا ہے؟
جواب: جی ہاں! اس کے لیے وزیراعظم نے بے گھروں کے لیے ایک بڑی تعداد میں مکانات بنانے کی اسکیم شروع کی ہے۔
سوال: جب اس جگہ کو عدالت کے حکم پر خالی کرا لیا جائے گا تو یہ غریب بھی بے گھر ہوجائیں گے، تو کیا یہ وزیراعظم کی مکانات کی اسکیم میں شامل ہوکر گھر حاصل کرسکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں، کیوں نہیں!
سوال: یہ تو کراچی کے شہری ہیں، دور دراز علاقے میں گھر حاصل کرکے مزید پریشان ہوں گے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جب ان کی یہ جگہ عدالتی حکم پر خالی کرالی جائے اور حکومتی احکامات پر عوامی فلاحی منصوبہ بنانے کا سوچا جائے تو یہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی اور منصوبہ تشکیل دینے کے بجائے رہائیشی منصوبہ ہی بنا دیا جائے تاکہ ان بے گھروں کو دوبارہ سے سر چھپانے کے لیے جگہ مل جائے؟
جواب: جی بالکل عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایسا منصوبہ قانوناً بنایا جاسکتا ہے۔
سوال: جب قانوناً عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دوبارہ یہاں رہائشی منصوبہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر قانوناً ان کو ابھی تنگ کیوں کیا جارہا ہے ان سے گھرخالی کرانے کے لیے اس علاقے کو مقبوضہ کشمیر کیوں بنایا جارہا ہے؟ لہٰذا یہ تو قانونی سقم ہوا کہ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے پہلے انھیں دربدر کیا جائے اور پھر برباد کرنے کے بعد آباد کیا جائے۔
میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ وہ عدالت عالیہ میں اس قانونی سقم کو ختم کرنے کے لیے پٹیشن دائر کرے، اور عدالت عالیہ اس قانونی سقم کو ختم کرنے کے احکامات جاری کرے، تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ بات ہے سمجھ کی، اگر سمجھ میں آجائے۔
ایک اور اہم بات کہ اگر قانون کی بات کی جائے تو کراچی کی بیشمار بستیاں اس کی زد میں آجائینگی اور پھر آدھے شہر کو بے دخل کرنا پڑیگا۔ ایک اندازے کے مطابق دو درجن کے قریب بستیاں پہلے غیرقانونی طور پر آباد ہوئیں مثلاً شیریں جناح، قصبہ، پیپلز، مچھر، شیرپاؤ، مانسہرہ، گیدڑ، بونیر، مجید، ہزارہ، بنگش کالونیاں، پختون آباد، چینسر گوٹھ، سہراب گوٹھ، کٹی پہاڑی، ملیر گوٹھ، کالا پانی، سکندرآباد، گرین ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن، اعظم بستی وغیرہ۔ کیا ان کو بھی بے دخل کیا جائے گا؟ اس کے علاوہ کچھ بستیاں ایسی ہیں کہ جو اس شہر کے غریب لوگوں کی رہائشی اسکیموں پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہیں اور یہ غریب شہری انتظار میں ہیں کہ کب انکو ان کی زمین کا قبضہ ملے گا۔
ایسی رہائشی اسکیموں پر عدالت کے فیصلے بھی آچکے ہیں کہ قابضین کو بے دخل کرکے اصل مالکان کو زمین دی جائے مگر نہ پولیس اور نہ رہی رینجرز یہ قبضے ختم کر اسکی ہے، نہ ہی ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ہے مثلاً اسکیم نمبر 33 سہراب گوٹھ (سپر ہائی وے کے قریب) افغانیوں نے قبضہ کرکے پکے مکانات تعمیر کر لیے ہیں، یہ قابضین پاکستانی بھی نہیں ہیں۔ جس زمین پر انھوںنے قبضہ کیا ہوا ہے وہ کراچی کے مڈل کلاس شہریوں کی ہے جو انھوں نے تقریباً چالیس سال قبل بکنگ کراکے اور قسطوں میں پیسہ جمع کرکے قانونی ملکیت حاصل کی تھی مگر ابھی تک وہ اس زمین سے محروم ہیں۔
واضح رہے کہ اسکیم نمبر 33 میں بجنور ہاؤسنگ سمیت بیشمار رہائشی اسکیمیں شامل ہیں اور ان سب پر قابضین ہیں۔ ان قابضین کو بے دخل کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے مگر افسوس نئی حکومت بھی اس جانب توجہ نہیںدے رہی ہے حالانکہ اس پر عدالتی فیصلے بھی بہت پہلے آچکے ہیں۔ حکومت کو ان سے ہمدردی ہے تو اسے چاہیے کہ ان افغانیوں کو اپنی نئی اسکیم میں گھر دے دے مگر یہاں سے ہٹا دیا جائے تاکہ غریبوں کی زمین ان کو مل سکے جو کہ انھوں نے آج سے تیس، چالیس برس قبل بکنگ کراکے اپنے گھر کا خواب دیکھا تھا۔ اسی طرح یہاں بہت سے فلیٹس پر بھی قابضین موجود ہیں اور اصل مالکان عام شہری ہونے کے سبب اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ اپنے فلیٹس خالی کراسکیں۔ یہ سارے تضادات کسی قانونی سقم کے باعث ہیں یا حکمرانوں کی نااہلی کے باعث، بہرحال اب معاملات درست کرکے درست فیصلے کرلینے چاہئیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔