سعودی ریلیف پیکیج ؛ ملکی معیشت سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوگیا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 29 اکتوبر 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

نومنتخب حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد سے  شدید معاشی بحران کا سامنا ہے ۔

ابتدائی دنوں میں ہی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ، برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن بڑھا جس سے روپیہ کی قدر گرتی چلی گئی جبکہ ڈالر اونچی اڑان بھرتا گیا اور ملکی معیشت میں غیریقینی صورتحال پیدا ہوگئی تاہم وزیراعظم عمران خان کے کامیاب دورہ سعودی عرب میں ملنے والے ریلیف پیکیج سے لڑکھڑاتی معیشت کو سنبھالا ملا۔ اس امدادی پیکیج کے تحت سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو قرض کی ادائیگی کیلئے 3ارب ڈالر ملیں گے اور ایک سال کیلئے 3 ارب ڈالر کا تیل ادھار ملے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پاکستان میں آل ریفائنری بھی لگائے گا۔

اس پیکیج سے پاکستان کو کس قدر فائدہ ہوگا؟ معاشی بہتری آئے گی یا نہیں؟ آئی ایم ایف سے چھٹکارہ مل سکے گا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’سعودی ریلیف پیکیج اور ملکی معاشی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ کااہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ ان سے ہونے والے گفتگو نذر قارئین ہے۔

 ڈاکٹر قیس اسلم
 (ماہر معاشیات)

ملکی معیشت کو دیکھنے کے دو زاویے ہیں۔ ایک زاویہ 37 سے 40 فیصدخط غربت سے نیچے رہنے والوں اور اتنی ہی تعداد میں خط غربت سے اوپر رہنے والوں کیلئے ہے جبکہ دوسرا 10 سے 15 فیصد ایلیٹ کلاس کا ہے۔ اس کلاس کے بھی دو حصے ہیں جن میں سے ایک انٹرپرینیور ہیں اور انہیں سمت چاہیے۔ غرباء کی بات کی جائے تو مجھے موجودہ سسٹم میںان کی حالت جلد تبدیل ہوتی ہوئی نظر نہیںآرہی بلکہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر ’’سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ‘‘ کرنا ہوں گی۔

میرے نزدیک معاشی صورتحال بہتر کرنے کیلئے حکومت کو سب سے پہلے صنعتی پالیسی دینی چاہیے جسے برآمدات سے منسلک کیا جائے کہ ایسی کونسی اشیاء ہیں جو یہاں بنا کر دنیا کی مارکیٹوںمیں بیچی جاسکیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک خط غربت کے قریب افراد کیلئے نہ تو ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور نہ ہی ملکی وسائل کا صحیح معنوں میں استعمال ممکن ہوسکے گا۔ ماضی کی حکومتیں برآمدات کو سبسڈی دیتی رہی ہیں جو مسئلے کا حل نہیں ہے، اس کے بجائے انٹرپرینیورز کو درست سمت دی جائے اورانہیں دنیا کی مارکیٹوں اور ویلیو ایڈڈ اشیاء کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کونسی اشیاء تیار کریں۔

ہماری ’’ٹرمز آف ٹریڈ‘‘ بہت مشکل ہیں، جب تک انہیں جدید ٹیکنالوجی کو مدنظر رکھتے ہوئے استوار نہیں کیا جائے گا تب تک گروتھ ریٹ 6 فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔چین کو ہم سے بہت ساری مصنوعات چاہئیں، کیا یہ ہم اسے بنا کر دیں گے یا اس کی کمپنیاں خود یہاں سے بنا کر لے جائیں گی؟ اسی طرح سعودی عرب یہاں آئل ریفائنری لگا رہا ہے، کیا وہ یہ تیل چین کو فراہم کرے گا یا پاکستان کو؟ حکومت کو اس حوالے سے جامع پالیسی بنانا ہوگی اور اپنے لوگوں کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ تمام منصوبوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہمارے ہاں خوارک کی کمی کا مسئلہ ہے جبکہ ہم نے اس ملک کو پانی کی قلت والا ملک بھی بنادیا ہے۔ اب ضروری یہ ہے کہ ہم صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے خوراک پیدا کریں۔

گزشتہ 35 برسوں سے حکومت نے زراعت میں سرمایہ کاری نہیں کی حالانکہ اس شعبے میں ہماری کپیسٹی بہت زیادہ ہے۔ ہمارے پاس پھل، خشک میوہ جات و بے شمار ایسی پراڈکٹس ہیں جنہیں ذخیرہ کرنے کیلئے گودام ہیں اور نہ ہی ایکسپورٹ کیلئے موثر سہولیات۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ملکی زراعت میں بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے لہٰذااس طرف توجہ دیکرمعاملات بہتر کیے جائیں۔ لوگوں کا ملازمت کی طرف رجحان زیادہ جبکہ دیگر شعبوں میں کم ہے جس کی بڑی وجہ مسائل اور سہولیات کی کمی ہے لہٰذا حکومت کو تمام مسائل حل کرکے لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ بہت عرصہ پہلے فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ ’’انجن آف گروتھ‘‘ پرائیویٹ سیکٹر سے لینا ہے مگر بڑے بڑے حکومتی ادارے جن میں یوٹیلیٹی سٹورز، پی آئی اے و دیگر شامل ہیں، خسارے میں ہیں۔ ان اداروں کا خسارہ کم کیا جائے یا پھر پرائیویٹ سیکٹر کو دیکر حکومت پر بوجھ کم کیا جائے۔

پبلک سیکٹر مانیٹرنگ کرے کیونکہ جب تک معیار، ماحول، لیبر قوانین و دیگر معاملات مانیٹر نہیں ہوں گے تب تک مسائل رہیں گے۔ ابتدائی دنوں میں حکومت کا رویہ غیر موثر ہے۔ اس میں بیوریوکریسی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ حکومت کی سمت درست ہے مگر اسے اداروں میں ’’سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ‘‘ کرنا ہوگی ورنہ معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔40 فیصد خوراک منڈیوں میں ضائع ہوجاتی ہے جبکہ 40فیصد پانی نہروں میں ضائع ہوجاتا ہے لہٰذا مسئلہ استعمال کا نہیں بلکہ ضائع ہونے کا ہے، ا س حوالے سے حکمت عملی تیار کی جائے۔

ہمارا ٹیکس سسٹم ناقص ہے جو بوجھ صرف غریب آدمی پر ڈالتا ہے، نظام بہتر کرنا ہے تو ’’ان پٹس‘‘ کے بجائے منافع پر ٹیکس لگایا جائے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس سے گروتھ میں کمی آتی ہے لہٰذا اس کا خاتمہ کیا جائے۔ عوام کوسبسڈی دینے سے معاملات بہتر نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کو امیراور غریب کو ایک جیسی تعلیم دینا ہوگی۔ ان کی  سکلز بہتر کی جائیں اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ سعودی عرب کی جانب سے ملنے والا پیکیج اچھا ہے مگر یہ بات قابل توجہ ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی سالانہ 50 ارب ڈالر بھیجتے ہیں جن میں سے 14 ارب ڈالر جائز طریقے سے جبکہ 34ارب ڈالر ہنڈی کے ذریعے آتے ہیں۔ اگر جائز طریقے سے پیسہ بھیجنے والوں کو فی ڈالر 3 سے 5 روپے کی چھوٹ دے دی جائے تو 8 سے 9 ارب ڈالر حکومت کے پاس آجائیں گے اور ہمیں کسی کے پاس قرض کے حصول کیلئے نہیں جانا پڑے گا۔

افسوس ہے کہ ہم امداد کے لیے دنیا کی طرف دیکھتے ہیں مگر اپنے لوگوں پر توجہ نہیں دیتے۔ موجودہ حکومت کی توجہ اوورسیز سرمایہ کاروں کی طرف ہے مگر وہاں محنت کرنے والوں کی طرف نہیں، ان پر توجہ دینے سے معیشت مضبوط ہوجائے گی۔ سعودی پیکیج سے قدرے ریلیف ملا ہے مگر ہمیں تھوڑے قرضے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کوئی بینک نہیں بلکہ ایک فنڈ ہے جو تمام ممبران کا ہی پیسہ ہے۔ اس کی شرائط غریب نہیں بلکہ امیر کے خلاف ہیں۔ آئی ایم ایف کی سبسڈی ختم کرنے کی شرط کا مطلب عام آدمی کو ملنے والے ریلیف کا خاتمہ نہیں بلکہ امراء کو ملنے والی مراعات کا خاتمہ ہے مگر افسوس ہے کہ یہاں بوجھ غریبوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک جب تک ایک خاص طبقے کو مراعات ملتی رہیں گی تب تک ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

 راجہ حسن اختر
( نمائندہ ایف پی سی سی آئی)

سعودی عرب ، پاکستان کا دیرینہ دوست ہے جس نے مشکل ترین حالات میں ہمیں ایک باعزت پیکیج دیا لہٰذا ہمیں اس کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ اس پیکیج کے فوری بعد سے ڈالر نیچے آیا جبکہ تیل کے آنے کی صورت میںبجلی کی قیمتوں میں کمی کے امکانات بھی واضح ہیں لہٰذا ملکی معاشی حالت مزید بہتر ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے ویژن میں پرُ عزم ہیں اور ہمیشہ کیلئے کشکول توڑ دینا چاہتے ہیں تاہم گزشتہ 70 برسوں سے موجود خرابیوں کو دور کرنے میں وقت لگے گا۔ بطور پاکستانی اگر ہم پر بوجھ پڑتا ہے تو ہمیں تحمل کے ساتھ اسے برداشت کرنا چاہیے اور بلاوجہ تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

کس بھی معاملے کو دیکھنے کے مثبت اور منفی دو پہلو ہوتے ہیں جبکہ مثبت انداز میں سوچنے سے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم ہر چیز پر تنقید کے عادی ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر حکومت پر تنقید شروع کردی جائے تو معاملات خراب ہوتے ہیں اور فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ مہاتیر محمد کو ملائشیا میں اور طیب اردوگان کو ترکی میں معاملات بہتر کرنے میں وقت لگا۔ جتنا بگاڑ ہمارے معاشرے میں ہے، اسے ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں بھی وقت درکار ہے۔ تمام پاکستانیوں کو دینی تعلیمات اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر تمام لوگ حکومت کے ساتھ تعاون کریں تو آنے والا وقت بہتر ہوگا۔ حکومت نے ناجائز تجاوزات کے خاتمے کا کام شروع کیا ہے۔

اس میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے، ردوبدل کرکے اسے جاری رکھنا چاہیے۔ موجودہ حکومت سے لوگوں کی بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں لہٰذا اگر حکومت ملک کو پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اسے توانائی بحران پر قابوپانا ہوگا کیونکہ ہمیں بجلی اور گیس کی کمی کا سامنا ہے جو صنعتوں کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ ہمارے ملک میں جو انڈسٹری موجود ہے اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے۔ کاٹیج انڈسٹری ختم ہورہی ہے، اسے بچانے کیلئے سی پیک کے ہر 300 کلومیٹر کے بعد کاٹیج انڈسٹری پارک بنائے جائیں اور چھوٹی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ میرے نزدیک انڈسٹری کے فروغ کے بغیر پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ہماری زراعت تباہ حال ہے حالانکہ اس سے بہت زیادہ پیسہ کمایا جاسکتا ہے،ہمیں پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے لہٰذا اس حوالے سے کام کیا جائے اور ڈیم بنائے جائیں۔ مجھے امید ہے کہ اگر تندہی کے ساتھ درست سمت میں کام ہوتا رہا توتمام مسائل پر قابو پالیا جائے گا اور پاکستان ایک بہتر ملک بن جائے گا۔

حکومت کی نیت پر شک درست نہیں ، اچھے اقدامات پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور جہاں خرابی ہے اسے بہتر کرنے کیلئے تجاویز دینی چاہئیں۔ہر حکومت محب وطن ہوتی ہے اور اپنی سوچ کے مطابق معاملات بہتر طریقے سے چلانے کی کوشش کرتی ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور اسے بہتر تجاویز دیں۔

میں ایف پی سی سی آئی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے سیاحت کا ریجنل چیئرمین ہوں لہٰذا سیاحت میں موجود پوٹینشل کی جانب توجہ دلوانا ضروری سمجھتا ہوں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں سیاحت کے فروغ کی بات کی جس کے بعد حکومت کی جانب سے ہم سے تجاویز مانگی گئیں۔ اس حوالے سے ہم نے حکومت، ورلڈ بینک و دیگر اداروں کو تجاویز دی ہیں تاکہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیا جاسکے۔ ملائشیا، انڈونیشیا، ترکی، تھائی لینڈ اور چین سمیت دنیا کے بے شمار ممالک نے سیاحت کی بنیاد پر اپنی معیشت کو مضبوط بنایا۔ میرے نزدیک توانائی بحران و دیگر چیلنجز کے موجود ہوتے ہوئے بھی ہم سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت کو مستحکم کرسکتے ہیں لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔

فائزہ امجد
(صدر وویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری )

نئی حکومت کے آنے کے بعد سے ٹیکس و ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافے کے باعث لوگ پریشان تھے اور ملکی میں ایک غیریقینی صورتحال تھی تاہم سعودی پیکیج سے خوشی کی لہر آئی ہے، امید ہے اب حالات بہتری کی جانب جائیں گے اور ہمیں آئی ایم ایف سے آسان شرائط پر قرض مل جائے گا۔ سعودی عرب سے جو رقم ملی ہے اس کا درست استعمال ہونا چاہیے۔

اس کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ فائدہ حاصل ہوسکے۔ میرے نزدیک درآمدات اور برآمدات کی بہتری کیلئے یہ قرضہ استعمال کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے جو گھروں میں موجود ہیں، انہیں آگے لانا چاہیے۔ حکومت ان کے آئیڈیاز سنے اور انہیں آسان اقساط پر قرض فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ بہتر طریقے سے اپنا روزگار کما سکیں۔ بنگلہ دیش 1فیصد کپاس بھی کاشت نہیں کرتا مگر وہ پاکستان سے کپاس منگواکراس کی تیار مصنوعات پوری دنیا کو فراہم کرتا ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ہم صرف خام مال کی طرف توجہ دے رہے ہیں مگر تیار مصنوعات کی جانب رجحان نہیں ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آسان اقساط پر قرضے نہیں دیے جاتے جس کے باعث وہ کاروبار نہیں کرتے اور اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ حکومت کو ایسے پروگرام منعقد کروانے چاہئیں جس میں لوگوں کے آئیڈیاز سنے جائیں اور ان کی معاونت کی جائے۔

لوگوں کو موجودہ حکومت سے بہت زیادہ توقعات ہیں جنہیں پور اکرنے کیلئے حکومت کو عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ افسوس ہے کہ پالیسی سازی میں چیمبرز و ٹریڈ باڈیز کو شامل نہیں کیا گیا، ہمیں بزنس کمیونٹی کے تمام مسائل کا بخوبی اندازہ ہے، ہمیں معلوم ہے کہ کس کاروبار میں کتنا پوٹینشل ہے لہٰذا حکومت کو پالیسی سازی میں ہماری مشاورت سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضروری ہے۔اس وقت پوری قوم کا جذبہ بلند ہے اور لوگ کام کرنا چاہتے ہیں لہٰذا حکومت کو عوامی توقعات پوری کرنی چاہئیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ہمارے پاس بہت ساری تجاویز موجود ہیں لہٰذا حکومت چاہیے کہ ہم سے رابطہ کرے کیونکہ ہم کم سرمایہ میں اچھا کام کرکے دکھا سکتے ہیں۔ اس وقت بے شمار صنعتکار گھر بیٹھے ہیں جنہیں آسان قرضے دیے جائیں اور ان کے مسائل حل کرکے ملکی معیشت کو مضبوط کیا جائے۔

علی ندیم
(نمائندہ پاکستان سٹاک ایکسچینج )

نئی حکومت آنے کے بعد سے معاشی پالیسی میں ابہام کی وجہ سے سرمایہ دار کا اعتماد کم ہوا لیکن سعودی پیکیج کے اعلان کے فوری بعد سے ملکی معیشت میں غیر یقینی صورتحال ختم ہوگئی۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ ایک ہی دن میں تاریخ کی دوسری بڑی حد تک گئی اور  ڈالر کی قیمت میں بھی کمی آئی جو مثبت ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی سمت کا تعین کرنے کیلئے وقت دینا چاہیے۔

جیسے ہی حکومت نے درست سمت پکڑ لی، معاملات تیزی سے بہتر ہوجائیں گے۔ پہلے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کیپٹل مارکیٹ میں مسائل تھے اور اب معاشی عدم استحکام مسئلہ ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی پالیسی کیپٹل مارکیٹ کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہے۔ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ کافی زیادہ ہے مگرموجودہ حکومت نے چند اچھے اقدامات اٹھائے ہیں۔ درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی جس سے مقامی صنعتکاری مضبوط ہوگی اور درآمدات و برآمدات کا فرق بھی کم ہوگا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ ایسے ہی اچھے اقدامات کیے گئے تو آئندہ 2سے 3 برسوں میں بہت زیادہ بہتری آئے گی۔

گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسد عمر نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے دفتر کے دورہ کیا جس میں انہوں نے وہاں کے نمائندوں سے بات چیت کی، سٹاک مارکیٹ کے مسائل سنے اور ان کے حل کی یقین دہانی بھی کروائی جو خوش آئند ہے۔کیپٹل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا طریقہ کار مشکل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 22کروڑ آبادی کے ملک کی سٹاک مارکیٹ میں  صرف 2 لاکھ70 ہزار سرمایہ کار ہیں جو دیگر ممالک کی نسبت کم ترین شرح ہے ۔ سرمایہ کاری کا طریقہ کار آسان بنانے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے سفارشات دی گئی ہیں تاکہ کیپٹل مارکیٹ میں بہتری لائی جاسکے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں کیپٹل مارکیٹ کو بینک اکاؤنٹ سے لنک کیا گیا ہے۔

ہمارے ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں، اگر یہاں بھی ایسا کردیا جائے تو معیشت مضبوط ہوگی۔ کسی بھی 5برسوں کا ڈیٹا دیکھیں تو کیپٹل مارکیٹ نے فکس ڈیپازٹ، نیشنل سیونگز و دیگر ایریاز میں سب سے زیادہ ریٹرن دیا ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ایک سمت کا تعین ہوجائے، معاشی پالیسیوں سے بے یقینی کا خاتمہ ہوجائے، اگر ایسا ہوگیا توکیپٹل مارکیٹ سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا اور بیرونی سرمایہ کار بھی راغب ہوگا۔روپے کی قدر میں کمی کا خطرہ گزشتہ ایک سال سے منڈلا رہا تھا اور گزشتہ 6 ماہ میں روپے کی قدر میں 25 سے 30 فیصد کمی آئی ہے۔

سعودی عرب کے پیکیج سے ریلیف ملا ہے  لہٰذا اب وزیراعظم کے دورہ چین اور ملائشیا سے بھی بہتری کی توقع ہے، امید ہے اب ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا اور اگر گئے تو بہت تھوڑے قرضے کے لیے جائیں گے جس کی شرائط بھی آسان ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔