ملکی معیشت اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ

یہ صورت حال صحت مند معاشرے اور ملکی معاشی ترقی کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں۔


Editorial November 02, 2018
یہ صورت حال صحت مند معاشرے اور ملکی معاشی ترقی کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں۔ فوٹو:فائل

حکومت قائم ہوئے ابھی بمشکل دو ماہ ہی ہوئے ہیں کہ اس نے سوئی گیس اور بجلی مہنگی کرنے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کوبھی مہنگا کر کے عوام کو ''ترقی و خوشحالی'' کا ایک اور تحفہ دے دیا ہے۔

وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق پٹرول کی نئی قیمت 5 روپے اضافے سے 97 روپے 83 پیسے فی لٹر ہوگی، ہائی اسپیڈ ڈیزل 6 روپے 37 پیسے فی لٹر اضافہ کے ساتھ 112روپے 94پیسے فی لٹر ، مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے اضافے سے نئی قیمت 86 روپے 50 پیسے فی لٹر ہوگئی۔ اوگرا کی جانب سے بھجوائی جانے والی سمری میں پٹرول کی قیمت میں نو روپے دس پیسے فی لٹر، ڈیزل تیرہ روپے لٹر، مٹی کے تیل کی قیمت میں چھ روپے دو پیسے فی لٹر جب کہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں چھ روپے فی لٹر اضافے کی سفارش کی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق یہ اضافہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اوگرا کی جانب سے تجویز کردہ قیمتوں میں سے کچھ حصہ عوام کو منتقل کیا گیا ہے جب کہ باقی حکومت خود برداشت کریگی۔

ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)نے ہائی اسپیڈ ڈیزل پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح میں پانچ فیصد کمی کردی تاہم باقی پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی پرانی شرح ہی برقرار رکھی گئی۔ جب سے تحریک انصاف تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئی ہے تب سے ملک بھر میں ایک جانب روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری جانب کاروباری سرگرمیاں بھی سرد مہری کی نذر ہو چکی ہیں۔

حکومتی معاشی بزرجمہروں کو بخوبی ادراک ہے کہ پٹرول کی قیمت میں کمی بیشی کے اثرات کاروباری زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوتے ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ٹرانسپورٹ اور تجارتی مال کی آمدورفت کے کرایوں میں بڑھوتری ہے۔ عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں ستایا ہوا ہے' وہ اب روز مرہ کی ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسلسل تنگدستی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے اور روز گار کے مواقع محدود ہونے کے باعث عام آدمی کی آمدن میں کمی اور اخراجات میں اضافے کے اثرات ذہنی پریشانیوں، ڈپریشن اور گھریلو بے سکونی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔

یہ صورت حال صحت مند معاشرے اور ملکی معاشی ترقی کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں۔ مہنگائی میں اضافے سے جرائم اور بیروز گاری کو بھی مہمیز ملتی ہے اور معاشرے میں روز افزوں اضطراب اور بے چینی نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن مہم کے دوران یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ نہیں کرے گی اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے گی لیکن اپنی دو ماہ کی حکومت ہی میں اس کے تمام اقدامات اس کے انتخابی وعدوں کے منافی نظر آتے ہیں اور عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا ہوا تیرا وعدہ۔

بلاشبہ موجودہ حکومت کو انتہائی مشکل مالی حالات کا سامنا ہے' ملکی اور غیرملکی قرضوں کا بوجھ' حد سے بڑھی ہوئی بے روز گاری اور پیداواری صلاحیت میں کمی کے باعث ملکی معیشت انتہائی دگرگوں حالات سے دوچار ہے' سعودی عرب سے 6ارب ڈالر کی امداد سے معیشت سانس لینے کے قابل ہوئی ہے لیکن اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ابھی مزید امداد کی آکسیجن کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر گئے ہیں' اس دورے کا بنیادی مقصد بھی امداد' گرانٹس یا قرضہ حاصل کرنا ہے۔

امید یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین کامیاب رہے گا دیگر دوست ممالک کے ساتھ بھی معاملات بہتر ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف بھی تعاون کرتا ہے تو پھر ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گی' ایسے مشکل مالی حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت پٹرول' گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کررہی ہے۔ حکومت کی مجبوری سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے اقدامات سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں اضافہ ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو سالانہ بجٹ میں ایک ہی بار طے کر دے۔ اس طریقے سے کم از کم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک برس تک استحکام رہے گا' اس استحکام کا ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر مثبت اثر پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں