امریکی صدر کا خطرناک بیان
’’ہم اس وقت تک ہتھیار تیار کرتے رہیں گے جب تک ’’لوگ‘‘ اپنے ہوش و حواس میں نہیں آ جاتے۔‘‘
جمہوریت کو متعارف کرانے والوں نے اس کے تعارف میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ عوام جس نمایندے کو ملک کی سربراہی کے لیے منتخب کر رہے ہیں کیا وہ تنگ نظر ہوگا یا آفاقی وژن رکھنے والا ہوگا ۔
یہ مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ اب دنیا ایک گاؤں میں بدل رہی ہے، اگرگاؤں کا مکھیا وسیع النظر نہ ہوا توگاؤں کے لیے پچاسوں مسائل پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ جمہوریت کو دنیا میں متعارف کرانے والوں کی کم فہمی تھی کہ انھوں نے حکمرانوں کی نظریاتی وسعت کے حوالے سے کوئی شرط نہیں لگائی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریاتی معیار پس منظر میں چلاگیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے متعارف کردہ ''قومی مفاد'' سب سے مقدس ٹھہرائے گئے اور قومی مفاد کی جھولی میں سے ایسی ایسی انسانیت دشمن چیزیں برآمد ہونے لگیں کہ دنیا جہنم بن کر رہ گئی ۔
اس حوالے سے ایک بڑا اور اہم مسئلہ سپر پاور کی سربراہی کا ہے، سپر پاور ایک طرح سے انسانی برادری کا سربراہ ہوتا ہے دنیا میں انسانوں کی تعداد لگ بھگ سات ارب ہے ، ان انسانوں کی سربراہی کرنے والے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کی بہتری کے ساتھ ساتھ دنیا کے اربوں انسانوں کی بہتری کے لیے بھی سوچے اور دنیا میں امن اور خوشحالی کو اپنی ذمے داری سمجھے، لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جمہوریت کو قومی مفاد کی چٹائی میں لپیٹ کر حکمرانوں کو قومی مفاد کا اندھا غلام بنا دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ملک کے قومی مفاد دوسرے ملک کے قومی مفاد سے ٹکرانے لگے اور اس قومی مفاد نے دنیا کو جہنم بنا کر رکھ دیا ، دنیا کی تاریخ میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کے پیچھے قومی مفاد سب سے بڑا محرک بن گئے ۔
آئیے ! اب ذرا قومی مفادکی پٹاری کا جائزہ لیں، دنیا کے ہر ملک میں قومی مفاد کو اولیت دی جاتی ہے ۔ یہ ایک فطری بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی مفاد کے نام پر ہمیشہ اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کیا جاتا رہا اور اس المیے کوکیا کہا جائے کہ عالمی جنگوں سمیت دنیا میں ہونے والی تقریباً تمام جنگیں کسی نہ کسی حوالے سے قومی مفاد ہی سے وابستہ رہیں ۔ امریکا دنیا کی واحد سپرپاور ہے حالانکہ اب اہل فکر دنیا کو یونی پولر کے بجائے ملٹی پولرکہتے ہیں لیکن امریکا عملاً اب بھی یونی پولر بنا ہوا ہے یونی پولر یا ملٹی پولر دنیا ابھی تک عوام کی معیار زندگی میں اضافے کے لیے کچھ نہ کر سکی ، آج بھی امریکا کے صدر ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو ان کی یونی پولر ذہنیت کے عکاس ہیں۔
ابھی ایران سے ایٹمی معاہدے کی ٹرمپ کی طرف سے تنسیخ کو زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ٹرمپ نے روس سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے معاہدوں کو منسوخ کر دیا ۔ مغربی ملکوں کے عوام پسماندہ ملکوں کے عوام کے مقابلے میں زیادہ باشعور سمجھے جاتے ہیں لیکن ٹرمپ جیسے لا ابالی اور غیر متوازن شخص کو امریکا جیسے سپر پاور کا صدر منتخب کر کے کیا امریکی عوام نے سیاسی شعورکا مظاہرہ کیا ہے؟ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ''ہم اس وقت تک ہتھیار تیار کرتے رہیں گے جب تک ''لوگ'' اپنے ہوش و حواس میں نہیں آ جاتے۔'' ٹرمپ کے اپنے ارکان کانگریس نے روس سے جوہری ہتھیاروں کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے اعلان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ روس نے کہا ہے کہ اگر امریکا نے مزید جوہری ہتھیار تیارکیے تو روس خاموش نہیں بیٹھے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار کوئی پٹاخہ یا دو نالی بندوق نہیں کہ جس سے جانوروں کا شکارکیا جاتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار انسانی تاریخ کا وہ خوفناک ترین ہتھیار ہے جس کی تباہ کاریوں کا اندازہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے جو آج کے ایٹم بموں سے انتہائی کم طاقت کے تھے لیکن ان کم ترین طاقت والے ایٹم بموں نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو جس طرح جلاکر رکھ دیا اور لاکھوں انسان ان ایٹم بموں سے راکھ کا ڈھیر بن گئے ، کیا دنیا کی سپرپاور کا سربراہ ان دو ایٹم بموں کی تباہ کاریوں سے ناواقف ہے؟ ٹرمپ فرما رہے ہیں کہ ہم اس وقت تک یہ ہتھیار تیار کرتے رہیں گے جب تک ''لوگ'' اپنے ہوش و حواس میں نہیں آجاتے۔
ٹرمپ نے ان لوگوں کی نشان دہی نہیں کی جن کے ہوش و حواس میں آنے تک ٹرمپ ایٹمی ہتھیار تیار کرتے رہنے کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔ ایران اور روس کے ساتھ ایٹمی معاہدوں کی تنسیخ اور اس کے فوائد سے ٹرمپ کیا دنیا کو آگاہ کریں گے ہمیں نہیں معلوم کہ امریکا میں اہل فکر اہل دانش ہیں یا دوسری عالمی جنگ ہی میں مرکھپ گئے ہیں۔ ٹرمپ جیسے لاابالی اور بے لگام جنگ باز کو یہ اختیار نہیں ملنا چاہیے کہ وہ دنیا کی قسمت کے فیصلے اپنے بوڑھے اور ناکارہ ذہن سے کرے۔ اگر امریکا میں اب بھی اہل فکر اہل دانش زندہ ہیں تو ان کی یہ اخلاقی اور فکری ذمے داری ہے کہ وہ ٹرمپ کے گلے میں رسی ڈالیں تا کہ دنیا مکمل تباہی سے بچ سکے۔
ہندوستان اور پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ ملکوں نے قومی مفادات اور ملکی سالمیت کے نام پر انتہائی خطرناک ایٹمی ہتھیار بڑی تعداد میں تیار کر چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی مفادات اور قومی سالمیت کا دفاع صرف ایٹمی ہتھیار ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ ماضی اور ماضی بعید میں دنیا کا انسان نرا جاہل تھا لیکن اس جہل کے دور میں بھی جنگوں سے پہلے مذاکرات کیے جاتے تھے اور جنگوں کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ماضی کی جنگیں ، تلواروں ، بندوقوں نیزوں وغیرہ سے لڑی جاتی تھیں ان دست بدست جنگوں میں ایک انسان دوسرے کا سر کاٹتا تھا، ان جنگوں کو آج کا مہذب انسان وحشیانہ جنگیں کہتا ہے جن میں جانی نقصان بہت کم ہوتا تھا ۔
آج کے مہذب اور ترقی یافتہ انسان نے ایسے ایٹمی ہتھیار ہزاروں کی تعداد میں بنا لیے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے دوران استعمال ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں سے سو گنا زیادہ خطرناک ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں ''ہم اس وقت تک یہ ''ہتھیار'' تیار کرتے رہیں گے جب تک ''لوگ'' اپنے ہوش و حواس میں نہیں آ جاتے۔ کیا امریکی صدر ٹرمپ یہ بیان دیتے وقت ہوش و حواس میں تھے، اگر ٹرمپ نے یہ بیان ہوش وحواس میں دیا ہے تو کیا امریکا کے کروڑوں عوام ہوش وحواس میں نہیں ہیں جو ایک غیر متوازن شخصیت کے مالک کو دنیا کے امن سے کھیلتے دیکھ رہے ہیں اور زبان بند کیے بیٹھے ہیں؟