شیئرڈ بائیسکل کا تصور پانچ چینی طالب علموں نے متعارف کرایا

محمد کریم احمد  اتوار 4 نومبر 2018
اسمارٹ فون پر ایپ ڈاؤن لوڈ کرو اور جب چاہو‘ جہاں چاہو بائیسکل استعمال کرو۔ فوٹو: فائل

اسمارٹ فون پر ایپ ڈاؤن لوڈ کرو اور جب چاہو‘ جہاں چاہو بائیسکل استعمال کرو۔ فوٹو: فائل

سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس بیجنگ

(تیسری قسط)

انسان نے پہیہ کیا ایجادکیاذرائع رسل و رسائل کی ترقی کوپر لگ گئے۔اور یہ ذرائع آج ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اپنی جدید سے جدید تر صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ سفر کی مشقت کو کم کرنے کی انسانی کوششوں نے سواریوں کو زیادہ باسہولت، آرام دہ اور تیز رفتار بنا دیا ہے۔ایسی ہی اختراعات سائیکل کی سواری میں بھی کی جارہی ہیں۔

جن کا عملی مشاہدہ چین میںہوا جہاں سائیکل بھی جدید رجحان کے مطابق نئی شکل اور ٹیکنالوجی سے لیس اور ہم آہنگ ملی جو کہ حیران کن اور دلچسپ تھا۔ جدید ترین گاڑیوں کے پہلو بہ پہلو بیجنگ کی شاہراہوں پر ہر سو رواںد واں سائیکل سوار شروع شروع میںتو فہم سے بالاتر لگے بعدازاں اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں‘‘ کے مصداق چینی سماج کا جدت کے ساتھ روایت پرستانہ مزاج معلوم پڑ گیا۔ ہمارے بچپن میں جب شعور ابتدائی درجے پر اشیاء کی حقیت و ماہیت کو جانے بغیر صرف ظاہر سے پہچاننے کی سطح پر تھاتو اس وقت سائیکل سے تعارف اباحضور کے توسط سے پڑا کہ والد ِمحترم سائیکل کوبطور سواری استعمال کرتے تھے۔

رفتہ رفتہ بچپن سے لڑکپن میں گئے تو سائیکل شناسائی کو بڑھاوا دینے کاوقت آگیا۔اور اس سواری کو سیکھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔سیکھنے کا آغاز بھی ابا حضور کی سائیکل سے ہونا تھا۔اب سائیکل کو دیکھوں اور پھر اپنے قد اور جسمانی طاقت و اعضاء کی طوالت کوتویہ خیال آیا کہ اس کی سواری محال ہے۔ ہمارے وقت میں سائیکل سیکھنے کے مختلف مراحل پیڈل ، قینیچی ،ڈنڈا سے ہوتے ہوئے بالآخر سائیکل کی سیٹ پر ختم ہوتے تھے۔ جدید چین میں سائیکل سیکھنے کے یہ سارے مراحل ناپیدو مفقود پائے۔کہ وہاںسائیکل میں نہ تو ڈنڈاہے اور نہ ہی قینچی چلاتے بچے نظر آتے ہیں۔کیونکہ سا ئیکل کا سائز ہر ایک کے لیے اتنا مناسب ہے کہ قینچی کی نوبت ہی نہیں آتی۔

زندگی کے سفر میں آگے بڑھے ، شعور کی منازل طے کیں اور کتاب سے تعارف ہواتواپنے ہاں کے مشہور ادیب و مصنف پطرس بخاری کا مضمون مرزا کی بائیسکل پڑھنے کے دوران یہ ا حساس ہوا کہ وقت تو بہت بیتا مگر ہمارے ہاں سائیکل میں کوئی بدلاؤنہ آیا۔جو سائیکل مرزا کے وقت میں تھی اُسی سے ملتی جلتی ابا حضور کی سائیکل ہمارا تختہ مشق ٹھہری۔ مگر پڑوسی ملک چین میں تغیرِ ایام کے ساتھ ساتھ جدت اور اختراعات بھی معاشرتی چلن ہیں۔وہاں سائیکل ترقی یافتہ معاشروں کی طرح سماجی زندگی میں ا پنا وجود برقرار کھے ہوئے ہے۔کیونکہ وہاں معدوم ہوتی ہوئی کئی روایتی مصنوعات کے استعمال کو جدت اور ٹیکنالوجی سے ہم آ ہنگ کر دیا گیاہے اور وہ عوام میں مزیدمقبولیت اختیار کرگئی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ چین Cycle Loving قوم کے طور پر مشہور تھا اور ہر جگہ سائیکل ہی نظر آتی تھی۔چین میں سائیکل کاتذکرہ آیا ہے تو لگے ہاتھوں چین میں سائیکلنگ کی تاریخ اور اس کی شروعات کی بھی بات ہوجائے۔چین میں سائیکل کا ذکر پہلی مرتبہ اٹھارہ سو ساٹھ میں ملتا ہے۔اس زمانے میں ایک اعلی چینی سفارتی اہلکار بِن چن (Binchun)نے فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کادورہ کیا۔ ان کے دورے کا مقصدوہاں کی صنعتی ترقی، انتطامی اصلاحات اورفوجی ٹیکنالوجی کا جائزہ لینا تھا۔ جب وہ دورے سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی دورے کی رپورٹ میں ایک ٹیکنالوجیکل ترقی کا ذکر کیا جو کہ انہوں نے فرانس میں دیکھی۔ان کے بقول انہوں نے فرانس میں لوگوں کو ایک عجیب وغریب سواری استعمال کرتے دیکھا۔اس سواری کے دو پہیے ہیں۔

یہ ایک ڈنڈے سے بندھے ہوتے ہیںاورڈنڈے کے اوپر ایک سیٹ ہوتی ہے۔ لوگ سیٹ کے اوپر بیٹھ کر پاوں کے ذریعے اس کو آگے دھکیلتے ہیں۔انہوں نے اس دور میں اس کو Velocipedeکا نام دیا۔یہ سائیکل تھی جو کہ فرانس میں استعمال ہورہی تھی۔ یہ سائیکل کا چین میں پہلا تعارف تھا۔ابتداء میں چین میں سائیکل کو پذیرائی نہیں ملی کیونکہ لوگ اس کوچلانے کے دوران پسینے میں شرابور ہونے ، اس کوچلانے کے لیے درکار جسمانی طاقت اور اس کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے اس سے دور رہے۔ اس دور میں چینی شہری رکشے کی سواری کو ترجیح دیا کرتے تھے۔رفتہ رفتہ جب اس دور کے چین کے حکمرانوں میںترقی کرنے کا احساس بیدار ہواتو انہوں نے سائیکل کے عملی فوائد کے متعلق سوچناشروع کیا۔

1868کے اواخر میں شنگھائی کے اخبارات میں سائیکل کے متعلق رپورٹس اور خبریں شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1870-1880میں چین کے شہروں شنگھائی، تیانجن اور بیجنگ میں مقیم غیر ملکی سائیکلنگ کیا کرتے تھے ا ٹھارہ سو نوے میںسائیکل کی آرمی کے لیے افادیت ثابت ہوچکی تھی۔یہاں تک اس دور کے چینی اخبارات میں مغربی ممالک میں گھوڑے اور سائیکل کے درمیان دوڑ کا تذکرہ کیا جانے لگا۔ اٹھارہ سو ستانوے میں 25th یوایس انفنٹری بٹالین کی مو نا ٹانا سے سینٹ لوئیس ، میسوری تک 1900 میل دوڑ کا ذکر ایک رسالے  ” Shixuebao”میں ملتا ہے تا کہ شاہی آرمی میں سائیکل کو متعارف کرایا جاسکے۔چین میں سائیکل عیسائی مشنریز، کاروباری افرادا ور اس دور کے نو آبادیاتی اعلیٰ اہلکاروں کے ذریعے متعارف ہوئی۔ ابتدائی طور پر ساحلی شہروں میں اس کی آمد ہوئی۔اٹھارہ سو نوے میں پہلی مرتبہ چینی شہریوں نے سائیکل چلانا شروع کیا۔ان شہریوں میںیورپ سے پڑھ کر آنے والے طلباء، کاروباری افراد اور صحافی تھے جو کہ ملک میں ٹیکنالوجیکل ترقی کے خواہشمند تھے ۔

اٹھارہ سو چھیانوے میںسائیکلنگ کو اخبارات میں بھرپور کوریج ملی۔اس وقت برطانوی سائیلکسٹس کرسمس سے قبل شنگھائی آئے تو مقامی سائیکل سوار بھی ان کے ساتھ شہر کے دورے میں شریک ہوئے۔اسی دورمیں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے برطانوی، جرمن اور امریکن سائیکلز کی فروخت کے اشتہارات شائع ہونا شروع ہوئے۔ 1897/98 میں شنگھائی اور تیانجن کے اخبارات میں سائیکل کے اولین کمرشل اشتہارات شائع ہوئے۔ اٹھارہ سو ننانوے میں شنگھائی سے تھوڑے فاصلے پر واقع شہر Suzhou میں مقامی انتطامیہ نے تنگ لینز میں حفاظتی اقدامات کے پیش ِ نظر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کردی۔انیس سو دو میں شنگھائی میںبرطانوی سائیکلز کی پہلی نمائش ہوئی۔ چین کے شہروں شنگھائی، تیانجن، گوانچو سے سائیکل آہستہ آہستہ چین کے دیگر شہروں میں جانے لگی۔

چین کے موجودہ دور کے ایک صنعتی و کاروباری شہر چینگدو میں انیس سو چار میں سات سائیکلز تھیں۔جب کہ اس وقت اس شہر کی آبادی ایک اعشاریہ پانچ ملین تھی۔ان سات سائیکلز میں سے تین مختلف چینی حکومتی اداروں ، تین غیر ملکیوں اور ایک عدد چینی شہری کی ملکیت تھیں۔انیس سو دس میں شنگھائی اور تیانجن کے درآمد کنندگان نے سائیکل کو مزید مختلف شہروں میں متعارف کرانا شروع کیا۔ ابتداء میں اس کی درآمد کیے جانے کی وجہ سے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔اس وقت صرف امیر لوگ ہی اس کو خرید تے تھے ۔عام آدمی کے پاس سائیکل نہیں تھی۔

انیس سوبیس میں جب چین میں ہفتے میں چھ دن کام کرنا معمول بن گیا تولوگوں میں سائیکلنگ کا رجحان بڑھ گیا۔ انیس سو پچیس میں شنگھائی کی آبادی دو ملین تھی جبکہ اس وقت سائیکلز کی تعداد نو ہزار آٹھ سو تھی۔ انیس سو تیس میں یہ تعداد بڑھ کر بیس ہزار ہو گئی۔ پھر چین کے مختلف اداروں میں سائیکل کے استعمال نے فروغ پاناشروع کردیا۔محکمہ ڈاک کے پوسٹ مین، فوجی اہلکاروں اور ماڈرن پولیس سکوارڈنز نے سائیکل کا استعمال شروع کردیا۔عام شہریوں کی سائیکل تک رسائی انیس سو تیس اور چالیس کی دہائی میں ہوئی۔

انیس سو تیس میں چین میں سائیکل کے تین بڑے درآمد کنندگان کاروباری اداروں شنگھائی کے Tongcheng Chehang، تیانجن کے Changcheng   اور شنیانگ کے Daxing نے مقامی سطح پر سائیکلنگ کی اسمبلنگ شروع کی۔اس سے قیمتیں کم ہوئیں اور چین میں سائیکل تیزی سے فروغ پانا شروع ہوئی۔ انیس سو اکتالیس اور بیالیس میں چین میں چاولوں کی راشن بندی کے دوران سائیکل کی بطور ایک آسان اور تیز ٹرانسپورٹ کے ایک ذریعے کے طور پر مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔انیس سو انچاس میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے سائیکل کی صنعت کو خوب فروغ ملا۔کمیونسٹ پارٹی نے اس کو بطور ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا آغاز کیا اور اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار شروع کی۔اس کی پیداوار پر حکومت کی جانب سے رعایات بھی دی گئیں۔

چین کے پہلے پانچ سالہ منصوبے میں سائیکل کی صنعت کی ترقی کا ہدف 60% مقرر کیا گیا تھا۔انیس سو اٹھاون تک چین میں ایک ارب سائیکل سالانہ بنائے جارہے تھے۔انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں چین میں سائیکل اپنے عرو ج پر تھی۔چین کے تمام بڑے شہروں میں سڑکوں پر سائیکل ہی سائیکل نظر آیا کرتے تھے۔ اسی دور میں چین کو ” Kingdom of Bicycles” بھی کہا جانے لگا۔اس دور میں یہ چین کی سماجی زندگی کا لازمی خاصہ بن گئی۔۔ سائیکل اس حدتک چین کی سماجی زندگی میں شامل ہو گئی تھی کہ ایک مقولہ ملک میں بہت زیاہ استعمال ہوتا تھا کہ چین میں شادی کے لیے چار لازمی ا شیاء میں سے ایک سائیکل (اس دور کے ایک مقبول برینڈ کی) بھی شامل تھی۔ گویا شادی کا ہونا سائیکل سے مشروط تھا۔ ویسے چار لازمی اشیاء میں سے ایک ریڈیو بھی ہوا کرتاتھا۔

اس دور میں دوست، احباب، رشتہ دار شادی کے موقع پر سائیکل کو تحفے کی شکل میں دیتے تھے۔ اس سے زیادہ چین میں سائیکل کی مقبولیت کا کوئی اور پیمانہ نہیں ہو سکتا۔ کہا جاتاہے کہ امریکہ کے سابق صدر بش جب انیس سو چوہتر پچھتّر میں بیجنگ میں بطور امریکی سفیر موجود تھے تو انہیں بھی دو سائیکلز بطور تحفہ دی گئیں۔وہ بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اس دور میں چین کی ایک مشہور سائیکل بیجنگ کی سڑکوں پر چلایا کرتے تھے ۔اسی دور میں چین کی شاہراہوں پر تین یا چارکار لینز جتنی چوڑی سائیکل لینز ہوا کرتی تھیں ۔

پھر چین میں 80ء کی دہائی میں سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی ملکیت کے دور کی شروعات ہوئیں اورچین میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔اس ترقی کے اثرات سماج میں نمودار ہونا شروع ہوئے۔اور نوے کی دہائی میں موٹر گاڑیوں او ر کاروں کے کلچر کی شروعات ہوئیں۔سن دو ہزار سے سائیکلوں کی جگہ کاروں نے لے لی اور یوں سائیکل کی مقبولیت کا گراف نیچے آنا شروع ہوا۔مگر بعد میںجہاں چین نے مختلف شعبوں میں ترقی کی وہیںچین نے سائیکلنگ میں جدت اور ٹیکنالوجی کوایسے ہم آہنگ کیا کہ اگر کسی دور میںشادی کے لیے اس دور کی ایک مقبول برینڈ کی سائیکل پاس ہونا لازمی تھا تو آج کے چین کے بڑے شہروں میں مقیم شہریوں کے سمارٹ فونز میں شیئرڈ سائیکلنگ کی ایپ اور اس کا اکاونٹ ہولڈر ہونا شہری زندگی کالازمی خاصہ سمجھاجاتا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ چین نے روایت کو جدت سے بدل کر اس کا تسلسل جاری رکھاہے۔ ہمارے ہاں سائیکلنگ اس جدید دور میںقبولیتِ عامہ کا وہ درجہ حاصل نہ کرپائی جو ترقی یافتہ ممالک میں اس کو حاصل ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق بیلجیم اور سویٹزرلینڈ میں اڑ تالیس فیصد ، جاپان میں ستاون فیصد، فن لینڈ میں ساٹھ فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن ہیگن تو دنیا بھر میں سائیکل کے استعمال کے حوالے سے مشہور ہے جہاں باون فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں۔عصرِحاضر میں ایک تحقیقی ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق چین میں37.2 فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں چین کے متعلق یہ بھی کہا جاتاہے کہ یہا ں کے لوگ کاروبارکرنا جانتے ہیں۔

تو انہوں نے ا پنا ذہن استعمال کیا اور متروک ہوتی سائیکل کو نئی زندگی بخش دی اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کے روزگارکا بندوست بھی ہو گیا۔چین میں شیئرڈ سائیکلنگ بہت مقبول ہے اور اعدادوشمار کے مطابق پورے چین میں سولہ ملین شیئرڈ بائیکس ہیں جبکہ صرف بیجنگ میں پندرہ مختلف کمپنیاں یہ سروس فراہم کررہی ہیں۔ بیجنگ کے تمام16 اضلاع یعنی شی چنگ، چاو یانگ، تنگ چینگ، فینگتائی، شی جنگ شن، ہائیدیان، تا شنگ، تنگ چو، شن ای، فانگ شن، چھانگ پنگ، پنگو، ہوئیرو، یان گنگ، مین توگو اور می یون میں مختلف عوامی مقامات پر شیئرڈ سائیکلنگ دستیاب ہے۔ ان پندرہ کمپنیوں میں سے دو زیادہ مقبول ہیں۔

شیئرڈ سا ئیکلنگ کو استعمال کرنے کی کچھ شرا ئط ہیں۔ اٹھارہ سال سے لیکر پینسٹھ سال کی عمر کا کوئی بھی فرد ان سائیکلز کو استعمال کرسکتا ہے ۔ اکاونٹ بنانے کے لیے ایک سمارٹ فون، انٹرنیٹ کی دستیابی اور دستاویزی شناخت کی فراہمی لازمی ہے۔ غیر ملکی اپنے پاسپورٹ کے پہلے صفحے کی کاپی کے ہمراہ سیلفی لے کر ایپ کے ذریعے اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ایپ پر اکاونٹ بنانے کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔ ان ہدایات کی پیرو ی کرتے ہوئے اکاونٹ بنایاجا سکتا ہے۔ جب اکاونٹ بن جائے تو سمجھیں کمپنی کی تمام سائیکلز اب آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر سائیکل پر ایک کیو آر کو ڈ ہوتا ہے جس کو سکین کرنے پر سائیکل کا لاک کھل جاتا ہے۔موبائک کمپنی کی سائیکلز کے لاک کوڈ سکین کرنے پر خودکار انداز میں کھل جاتے ہیں جبکہ اوفو کے بذاتِ خود ہاتھ سے کھولنا پرْتے ہیں۔ سائیکل لیں اور پورے بیجنگ میں جہاں چاہیں گھومیں۔ان سائیکلز میں جی پی ایس سسٹم لگا ہوتا ہے جس سے کمپنی سائیکل کی موومنٹ کو باآسانی جان سکتی ہے۔

جہاں تھک جائیں ، سائیکل سے اتریں اور اپنے اکاونٹ سے لاگ آوٹ کریں ، سائیکل کو وہیں کھڑا کریں سائیکل کی حفاظت کی فکر سے بے نیاز ہو کر سب وے یا پبلک بس پر بیٹھیں اور من چاہی منزل کاقصد کریں سائیکل کا خیال متعلقہ کمپنی خود کرلے گی۔اس کا کرایہ انتہائی کم ہے ۔ کم سے کم کرایہ ایک یوان ہے ۔ کرائے کا تعین سفر کی مناسبت سے ہوتا ہے جبکہ کمپنیاں ماہانہ اور مختلف پیکیجز بھی فراہم کرتی ہیں۔ کرائے کی ادائیگی و ی چیٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔کم سے کم ڈیپازٹ ایک سو ننانوے یوان سے تین سو یوان تک ہوتا ہے جو کہ قابلِ واپسی ہوتا ہے۔ جب صارف اپنا اکاونٹ ختم کرنا چاہے تو اس وقت یہ رقم اس کو واپس کر دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں شیئرڈ سائیکلنگ کے پندرہ بڑے سسٹمز ہیں ان میں سے تیرہ چین میں ہیں۔ دو ہزار سترہ کے ابتدائی تین ماہ میں بیجنگ میں شیئرڈ سائیکلز کی تعداد دو لاکھ جب کہ ہانگچو میں یہ تعداد سات لاکھ تھی۔ بیجنگ میں دو کمپنیاں بہت مقبول ہیں۔ان میں ایک موبائک(Mobike) اور دوسری اوفو (Ofo) ہے ۔ موبائک اورنج کلر کی اور اوفو زرد رنگ کی سائیکلز کے لیے مشہور ہے۔

دو نوں کمپنیوں نے بیجنگ ہی سے اپنے کاروبارکا آغاز کیا۔ موبائک نے جنوری دوہزار پندرہ میں اپنے کاروبارکا آغاز کیا یعنی راقم کی چین آمد سے چھ ماہ پہلے جب کہ اوفو نے دوہزار چودہ میں آغاز کیا۔اوفو کے آغاز کی کہانی بہت دلچسپ اورحیران کن ہے۔ پیکنگ یونیورسٹی کے پانچ طلباء کے ایک گروپ نے ابتدائی طور پر بائیسکلز کے ذریعے سیاحت کے فروغ کاآغاز کیا بعد میں انہوں نے اس کو شئیرڈ سائیکلنگ کی صورت میںکاروباری اندازمیں شروع کیا اوراس میں انہیں بے مثال کامیابی ملی۔اوفو کی کامیابی کے بعد موبائک نے اپنے کاروبارکا آغازکیا۔موبائک نے شیئرڈ سائیکلنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کروائی۔ ان کی سائیکلز میں جی پی ایس کی سہولت ، مضبوط باڈی،جدید اورنت نئے ڈیزائنز ہیں۔

اس کی ابتدائی ڈیپازٹ فیس بھی اوفو کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ موبائک کے پاس نو ملین سمارٹ سائیکلز ہیںجبکہ یہ چین ، سنگاپور اورجاپان سمیت دیگر ممالک کے ایک سو نوے سے ز ائد شہروں میں اپنی سروسز فراہم کر رہی ہے۔جبکہ اوفو دس ملین سے زائد سائیکلز کی مالک ہے اور یہ اکیس سے زائد ممالک کے دوسو پچاس سے زائد شہروں میں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

یہ سائیکلز مختصر دورانیے کے فاصلے کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔مثلاً گھر سے سب وے سٹیشن، بس سٹیشن یا قریبی مارکیٹ تک جانے کے لیے بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ راقم کے فلیٹ سے تندور قدرے فاصلے پر تھا۔ روٹی لانے کے لیے راقم اسی شیئرڈ سائیکل کو ہی استعمال کیا کرتاتھا۔پہلے ان سائیکلز کو کہیں بھی پارک کیا جاسکتا تھا۔کمپنییز کی طرف سے کوئی خاص مقام متعین نہیں تھا۔بعد ازاں مقامی حکومت نے ان کی پارکنگ سے ٹریفک کی روانی میں پڑنے والے خلل اورلوگوں کے چلنے میں آنے والی مشکلات کے پیشِ نظر ان کو مخصوص مقامات پر پارکنگ اور پارکنگ کے حوالے سے ضوابط کا پابند کردیا ۔ ان سائیکلز کو استعمال کرنے والا صارف ان کوخود ہی لاک اور ان لاک کرتا ہے۔

ان سائیکلز کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں ایک کمپنی کی سائیکلز میں ٹیوب لیس ٹائرز ہیں جبکہ ٹائرز کی تاریں بھی جدید انداز میں تیار کی گئی ہیں۔ایک اور مزے کی بات ان کی مناسب بلندی اور سیٹ ایڈجسٹمینٹ کی سہولت ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں روایتی سائیکلز قدرے اونچی ہوا کرتی ہیںاور ایک چھوٹے قد کے آدمی کے لیے اس کو چلانا مشکل ہوتا ہے۔ پھر ان سائیکلز میں ہینڈل اور سیٹ کے درمیان سنگل یا ڈبل ڈنڈا بھی ہوتا ہے جوکہ ایک فرد کو بٹھانے کے کام آتا ہے جبکہ پیچھے موجود کیریئر پر ایک اورفرد بھی بیٹھ سکتا ہے یوں ہماری سائیکل پر تین افراد سوار ہوسکتے ہیں۔چین میں جدید سائیکلز میں یہ رجحان نہیں ہے۔وہاں کی سائیکلز کی اکثریت میں ایک تو ہینڈل اور سیٹ کے درمیان ڈنڈا نہیں ہے اور نہ ہی سیٹ کے پیچھے کیریئر کا فیشن ہے۔

اور تو اور سائیکل کی گھنٹی کو بھی چین نے اپنی اختراع سے ایک دلچسپ چیز بنادیا ہے۔ وہاں سائیکل پر گھنٹی ہمارے ہاں کی طرح ہینڈل پر فکس نہیں ہوتی بلکہ وہاں تو یہ گھنٹی بظاہر نظر نہیں آتی مگر یہ ہینڈل پر ہی موٹر سائیکل کی ریس کی طرح نصب ہوتی ہے۔اس کو آگے پیچھے کرنے سے گھنٹی بجتی ہے۔اس کے علاوہ سیٹ اور ہینڈل کے درمیان ڈنڈا نہ ہونے سے چینی شہری سائیکل چلانے کے قینچی انداز سے بھی لاعلم ہیں اس کے پیڈل ہماری روایتی سائیکل کے پیڈل سے مختلف اور قدرے چوڑے ہوتے ہیں جن پر پاوں صحیح طرح جم کر بیٹھتا ہے۔ ان سائیکلز کی تمام تر مرمت کمپنی خود ہی کرتی ہے۔

اگر کوئی سائیکل راہ چلتے خراب ہو گئی تو صارف اس کو وہیں چھوڑ دے گا اور نئی سائیکل کو ان لاک کرکے اپنی راہ لے گا۔ان سائیکلز میں ہینڈل سے قدرے نیچے ایک ٹوکری بھی نصب ہوتی ہے جہاں پر صارفین اپنی کچھ اشیاء رکھ سکتے ہیںمگر اس پروزن رکھنے کی ایک حد مقررہے اور یہ حد پانچ کلوگرا م ہے۔بعض اوقات چھوٹے بچے کے اگلی ٹوکری پر بیٹھے ہوئے دیکھنے کے مناظر بھی مل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بیچاری سا ئیکلز کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے کسی دور میں گوالے دودھ کی سپلائی کے لیے اس کو استعمال کیا کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں عمومی طورپر نوجوان لڑکے یا مرد حضرات ہی اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ خواتین کم ہی عوامی مقامات پر اس کااستعمال کرتی ہیں جب کہ چین میں ہر عمرکے مردوزن بخوشی اور سماجی حیثیت میں کسی بھی قسم کی کمی کے احساس میں مبتلا ہو ئے بغیر اس کا استعمال کرتے ہیں اورخوب کرتے ہیں۔ ہفتہ وار تعطیل  اور چھٹیوں کے دوران سائیکلنگ کا بہت رجحان ہے۔

چین میں دو مواقعوں پر ہونے والی قومی تعطیلات زیادہ مشہور ہیں۔ ایک چینی نئے سال کے موقع پر جبکہ دوسری اکتوبر میں قیامِ چین کے حوالے سے ہونے والی تعطیلات ہیں۔ ا ن دونوں مواقعوں پر ہونے والی تعطیلات کا دورانیہ کم وبیش ایک ہفتہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر تہواروں یا مواقعوں پر تعطیل ہوتی ہے مگر ان کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ ویسے چین میں سرکاری ملازمین کے لیے سالانہ تعطیلات بہت کم ہوتی ہیں۔ شادی شدہ ملازم کو سال میں دس چھٹیاں جبکہ غیر شادی شدہ کو بیس چھٹیوں کا استحقاق حاصل ہے۔ چینی شہری نئے سال اور اکتوبر میں ہونے والی تعطیلات کو خوب انجوائے کرتے ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سیاحتی مقامات کارخ کرتے ہیں۔ اور خوب سائیکلنگ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے چینی لوگ صحت مند اور چاک و چوبند رہتے ہیں۔ وہاں اگر بعض تعطیلات ہفتہ وارمروجہ تعطیلات کے ساتھ آ جائیں تو ہفتے یا اتوار کو ورکنگ ڈیز میں تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ تعطیلات مقررہ دنوں سے زیادہ نہ ہوں۔ تو تذکرہ ہورہا تھا چھٹیوں میں سائیکلنگ کا۔

چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کے اکثر غیر ملکی ساتھی ان تعطیلات میں سائیکل پر ہی بیجنگ کی سیرو سیاحت کرتے ہیں۔ اور اس طرح کے کئی ایک مواقع راقم کو بھی ملے۔ اور اکثر سائیکلنگ کا اختتام بیجنگ کے ضلع چاویانگ میں واقع ایک پاکستانی ریسٹورنٹ پر ہوتا جو چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی عمارت سے سائیکل کی تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ مسافت پر تھا۔پاکستانی ہوٹل پہنچ کر وطن سے دوری کا احساس فوراً زائل ہو جاتا ہے۔اس ہوٹل کے مالک آصف جلیل ہیں جو کہ راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے چائنا میں مقیم ہیں۔ اُن سے کافی یاداللہ ہو گئی تھی۔اور کبھی کبھار تو وہ ہم ہم وطنوں سے کھانے کے پیسے تک نہیں لیتے تھے۔اس پاکستانی ہوٹل کے کھانوں کے ہمارے سی آر آئی کے اکثر غیر ملکی ساتھی دلدادہ تھے۔ جن میں ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے موریسیو پرکارا(Mauricio Percara)، مصر کے صلاح ابو زید، موریطانیہ کے عبد الرحمان، سوڈان کے اُسامہ، الجزائر کے لطفی، افغانستان کے جان روان زازئی پاکستانی کھانوں کی لذت کے اسیر تھے۔

ہوٹل سے واپسی پر ہمارا عموماً یہ معمول تھا کہ ہم ہر بارسائیکل پر بیجنگ کے مختلف حصوں کو دیکھیں۔ اس سائیکلنگ یاترا کے دوران ہم اکثر بیجنگ کی مصروف ترین اہم شاہراہوں میں سے ایک پر ناک کی سیدھ میں سفرکرتے۔ بیجنگ شہر کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ایک منظم انداز میں بسا ہوا شہرہے۔

یہاں اہم عمارات، ہوٹلز، سیاحتی مقامات، عوامی پارکس بالعموم سب ویز یا پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے منسلک ہیں۔جب ہم ان تعطیلات کے دوران سائیکلنگ کرتے تو بیجنگ کے تمام عوامی مقامات پر عوام کا ہجوم ہوتا۔لیکن بیجنگ کی اکثرمصروف ترین شاہراہوں پر سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف میں سائیکل لین کی موجودگی سے سائیکل سواروں کوبہت آسانی ہوتی۔ ہم سڑک پر موجود رش سے بے نیاز آہستہ آہستہ اردگرد کی عمارات کو دیکھتے آگے بڑھتے چلے جاتے۔ ہمیں ایک بار سائیکلنگ کا سب سے زیادہ فائدہ تیان من سکوائر پر ہوا ۔ وہاں لوگوں کا ایک ہجوم اندر داخلے کے لیے قطار میں کھڑا تھا۔جبکہ سائیکل لین میں اس لمحے ہم دونوں ہی تھے۔ ہم سائیکلز سے اترے اور وہیں کھڑے کھڑے ہجوم کی جانب دیکھا۔ سکون اور تسلی سے عمارات کے بیرونی مناظر دیکھے۔

اپنی باری کاانتظار کرتے لوگوں کو دیکھا۔پولیس کو نجی گاڑیوں کومخصوص روٹ پر چلنے اور غیر ضروری قیام سے روکنے کی ہدایات دیتے دیکھا ۔ جبکہ ہم اپنی دونوں طرف موجود عوام کی ایک کثیر تعداد،گاڑیوں کے رش کے باوجود مخصوص سائیکل لین میں بڑے مزے سے ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے آگے بڑھتے چلے گئے۔سائیکل پر سواری کا صحیح لطف اس دن آیا۔اس دن بیجنگ کو صحیح معنوں میں دیکھا۔اس روز پورے سات ساڑھے سات گھنٹے کی سائیکلنگ میںمجال ہے کہ کہیں کوئی ٹوٹی سڑک، گندگی یا کہیں سڑک پرپانی کھڑا نظرا ٓیا ہو۔ اور کمال کی بات ہے کہ یہ سار ا سفر چین کے تیارکردہ بیدو میپ سے کیا اور ہم اس کی ہدایات پر عمل کرتے کرتے درست اپنی منزل پر پہنچے۔

واپسی پر ہم نے دوسرا روٹ اختیار کیا اور بیجنگ میں موجود شاہی ادوار کی عمارات،بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے پاس سے گزرتے ہوئے ، بیجنگ شہر میں رواں دواں نہر کو کراس کیا ، اوور ہیڈ بریجز (بالائی گزرگاہ) کے نیچے سے گزرے،قدیم محلوں اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے جدید و ترقی یافتہ بیجنگ میں موجود روایتی راستوں سے گزرے، بیجنگ کی جدید طرزِ زندگی کے ساتھ قدیم گھروں میں مقیم شہریوں کو بھی سرسری انداز سے دیکھا جو کہ خاموشی سے اس کاسمو پولیٹن شہر میں موجود سماجی طبقاتی تغیرات کو بیان کر رہے تھے۔سائیکلنگ کا یہ سفر اس حوالے سے بھی یادگار تھا کہ اس میں ہمیں بیجنگ شہر میں موجود کئی ایک سینما گھروں کے بارے میں پتا چلا اور دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ ہم جو فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہیں ابھی تک کسی چینی سینما ہی نہیں گئے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔