لہو کا سالن اور بے بسی کی روٹیاں

شاہد سردار  اتوار 4 نومبر 2018

وفاقی حکومت نے اشیائے صرف کی عام چیزوں کو مہنگا کرکے اگر آئی ایم ایف کی تائید حاصل کی ہے یا پھر 94 ارب ڈالر کے قرض کی اگر پہلی قسط دینی ہے تو پھر بھی یہ عوام الناس پر کھلے ظلم کے مترادف ہے بیس سے پچیس ہزار روپے کمانے والے 80 فیصد عام تنخواہ دار صارف مکان کا کرایہ، بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کے بلوں کی ادائیگی کے بعد بلوں میں ہونے والے اضافے کا اتنا بوجھ کیسے اٹھا سکیں گے ؟ جب کہ علاج معالجہ، بچوں کی تعلیم اور کھانے پینے کے ساتھ دوسرے اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔

یہ بات غلط نہیں ہے کہ ملک اقتصادی طور پر اس وقت اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران سے گزر رہا ہے لیکن 20 لاکھ ٹیکس چوروں اور اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے بجائے آئے دن مہنگائی کے جھٹکوں کا سامنا کرنے والے پریشان حال عوام پر بوجھ ڈال کر اس کا ازالہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کھانے پینے کی ضروری اشیا اور گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا حکومتی انحصار کسی طور درست نہیں ہے۔

افراط زر کو دیکھیں، اسٹاک مارکیٹ کا رخ کریں، مالیاتی اداروں اور صنعتوں کی جانب نگاہ کریں تو صورتحال دگرگوں بلکہ حد درجہ مایوس کن نظر آئے گی۔ صنعتی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ملازمتیں ناپید ہوگئی ہیں اور بجلی گیس کے نرخوں میں اضافے سے بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہوچکی ہیں، یوں بے روزگاری کا ایک لامتناہی سلسلہ چلا آرہا ہے اور جب ریاست نوکری یا ملازمت اور پیٹ پالنے کا ذریعہ فراہم نہ کرسکے تو لوگ مجبور ہوکر جرائم کی دنیا کے بادشاہوں کی فوج کا حصہ بن جاتے ہیں۔ غریب نادار اور بے وسیلہ عوام کی حالت زار میں کوئی بہتری دکھائی نہیں پڑ رہی جب کہ ان گناہ گار آنکھوں کے سامنے سیکڑوں ہزاروں نئے دولت مند خاندان معرض وجود میں آچکے ہیں۔

ملک میں لاقانونیت کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے، قدم قدم پر قانون بے بس اور سسکتا نظر آتا ہے اور طاقتور اپنا قانون بناکر ملکی قانون کو پامال کرتا چلا جا رہا ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں پوش علاقوں کی مارکیٹوں یا سپر اسٹوروں پر اگر کوئی جاکر دیکھے تو لگتا ہے وطن عزیز کی ہر نعمت یہاں موجود لوگوں کو ہی حاصل ہیں اور انھی کی قوت خرید طاقتور ہے بکرے کے بکرے تلوائے جاتے ہیں، گائے، مچھلی اور مرغی کے گوشت کے انبار اور پھلوں کی پیٹیاں گاڑیوں میں بھروا کر خواتین و حضرات 5 ہزار اور ایک ہزار کے نوٹوں کے نوٹ نکالتے ہیں اور دکاندار یا اس کے ملازم کو رقم ادا کرتے ہوئے یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ’’بھئی! بہت مہنگائی ہوگئی ہے‘‘ اور دنیا جہان کی خریداری کرتے ہیں، گاڑیوں کی قطار میں موٹر سائیکل والے یتیموں کی طرح اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد ہی کے بڑے اور مہنگے علاقوں میں ایک ایک گھر میں چار پانچ بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں اور ہرگاڑی میں پانچ سے سات ہزارکا پیٹرول ڈلتا ہے، انھی گھروں کے بچوں کے اسکول کی فیس کم سے کم ایک لاکھ روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ انھی گھروں کے مکین ہر ویک اینڈ پر باہرکھانا کھانے جاتے ہیں جہاں 15 سے 20 ہزار ایک فیملی کھانے پینے پر خرچ کردیتی ہے، دیگر اللے تللے الگ ہیں۔

دوسری طرف عام غریب لوگوں کی خواتین و حضرات کی اکثریت کو دیکھیں وہ مرغی کی گردنیں، مچھلی کا سر، مرغی کی پوٹا کلیجی، بڑے کا گوشت تو ان کی دسترس سے باہر ہے لہٰذا وہ اس کے پھیپھڑے اور کلیجی بمشکل تمام خریدتے ہیں اور ہفتے میں ایک دو دن اسے ’’نعمت عظمیٰ‘‘ کے طور پر تناول کرتے ہیں وگرنہ ڈیڑھ پاؤ دہی میں آدھا کلو پانی اور مناسب چینی اور نمک ڈال کر یا پھر آلو سالن کو ہی اپنا مقدر سمجھ کر وہ پیٹ بھر لیتے ہیں ۔ انھیں نہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی فکر ہوتی ہے نہ سعودی عرب کے پیکیج کی خوشی ، نہ ملکی ترقی کے منصوبے ان کے گمان میں ہوتے ہیں اور نہ ہی معیشت کے فروغ کے اعداد وشمار سے انھیں کوئی سروکار ہوتا ہے۔

ایسے لوگوں سے پاکستان اٹا پڑا ہے اور اب بعید نہیں کہ مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کی تعداد 22 کروڑ کی حدوں کو چھوجائے بات صرف یہ یاد رکھنے کی ہے کہ غیر منصفانہ تقسیم زر سے ہم نے یا ہماری اشرافیہ نے انسانوں میں تفریق پیدا کی ہے اب اس تقسیم، اس تفریق کو ایک کاری ضرب درکار ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بائیس کروڑ کے لگ بھگ عوام بے انتہا غربت، مہنگائی اور استحصال سے صرف رو نہیں رہے لیکن تڑپ ضرور رہے ہیں۔ عوام کی غالب اکثریت برسہا برس سے اپنے لہو کے سالن میں اپنی ہی بے بسی کی روٹیاں ڈبو ڈبو کر کھا رہی ہے۔ گو اپنی بھوک روک کر دوسرے کی بھوک کا خیال رکھنا یقینا بڑی اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں ہمارے صاحب اقتدار و اختیار کبھی فراخ دل نہیں پائے گئے۔ کون نہیں جانتا بھوک اور غربت بہت بری چیز ہوتی ہے، یہ کفرکی طرف لے جاتی ہے، انسان کوکافر بنا دیتی ہے۔

ہمارے نبیﷺ نے بھی غربت سے پناہ مانگی تھی۔ بھوک و افلاس بچے اور خون بکوا دیتی ہے اور بعض اوقات عزت بھی۔ ویسے بھی جب بھوک دروازے پر دستک دیتی ہے تو عقیدے اور نظریے کھڑکیوں سے بھاگ جاتے ہیں۔قوموں کے مقدر اور ملکوں کے نقشے برسوں میں نہیں بلکہ دہائیوں اور صدیوں میں تشکیل پاتے اور بدلتے ہیں اور جس ملک و معاشرے میں بیماروں، کمزوروں اور مظلوموں سے اظہار ہمدردی نہ ہو وہاں ظلم بڑھتا ہے۔ لگتا ہے وطن عزیز میں سزائیں، تعزیریں اور جیلیں صرف تہی دستوں کا مقدر ہیں۔

ملکی خزانے کو لوٹنے اور دیگر اداروں میں سے اربوں روپوں کی کرپشن کے معاملات کو دیکھ لیں، ملکی معیشت کی گرتی ہوئی ساکھ پر نظریں دوڑائیں یا عالمی بینک کو قرضے کی قسط دینے سے وطن عزیز کی لاچاری کو جانچیں یا پھر کراچی اور سندھ کے مختلف علاقوں سے عام نادار یا معمولی لوگوں کے جعلی یا حقیقی اکاؤنٹوں سے برآمد ہونے والے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن پر نگاہ کی جائے تو ہمیں قانون، انصاف، عدلیہ اور حکومت سبھی کے قیام پر سوالیہ نشان ہی اٹھے نظر آئیں گے۔

ہمارا ملک چھوٹا پڑگیا ہے، یہاں سر پر مسلط رہنے والے لوگ بہت بڑے ہوگئے ہیں، ویسے بھی ہمارے حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے نہ آج کچھ ہے اور نہ آنے والے کل میں وہ کچھ دینے والے ثابت کریں گے خود کو ۔ یہ ایک ناقابل تردید آفاقی سچائی ہے کہ کوئی بھی ملک ہو وہاں موجود با اثر لوگوں یا ارباب اختیارکی بہادری کے پیچھے عوام کی کمزوری کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور عوام کسی بھی ملک کی ہوکتنی ہی تعلیم یافتہ، کتنی ہی جاہل کیوں نہ ہو وہ باغی نہیں بزدل ہی رہتی اور دکھائی دیتی ہے اور جس طرح شہید کے میڈلز کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے، بالکل اسی طرح خالی جیب کا وزن لے کر پھرنا بھی بہت کٹھن ہوتا ہے اور کڑوی سچائی یہی ہے کہ معاشرے میں سب سے وزنی چیز خالی جیب ہوتی ہے جسے لے کر چلنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔ ہمارے غریب اور بے بس و بے اختیار عوام برسوں سے لاچارگی اور بے چارگی کی اس شاہراہ پر خالی جیب کے ساتھ گامزن ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔