نظریہ پاکستان کے نام نہاد علمبردار

اس کڑے وقت میں نظریہ پاکستان کا علم بلند کرنے کے بجائے اپنا ٹی وی چینل بند کر کے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دی۔


Editorial November 04, 2018
اس کڑے وقت میں نظریہ پاکستان کا علم بلند کرنے کے بجائے اپنا ٹی وی چینل بند کر کے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ فوٹو : فائل

لاہور: آج کل میڈیا انڈسٹری مالی بحران کا شکار ہے۔کوئی ایک ٹی وی چینل یا اخبار نہیں بلکہ پوری میڈیا انڈسٹری ایک ہی جیسے حالات کا شکار ہے۔ تاہم نظریہ پاکستان کے نام نہاد علمبردار اور محافظ ہونے کا دعویٰ کرنے والے میڈیا گروپ کا خیال ہے کہ اس مالی بحران کا ذمے دار وہ خود نہیں بلکہ دوسرے میڈیا گروپس ہیں۔

واضح رہے کہ اس میڈیا گروپ نے اس کڑے وقت میں نظریہ پاکستان کا علم بلند کرنے کے بجائے اپنا ٹی وی چینل بند کر کے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ جب کہ دوسری جانب تنقید کا نشانہ بنائے جانے والے ٹی وی چینلز نے نہ صرف میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کر کے صحافیوں کو اچھی تنخواہیں دینے کی بنیاد ڈالی اور صحافیوں کا معیار زندگی بلند کیا بلکہ اس کڑے وقت میں بھی راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے جلد یا بدیر اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کا عمل بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

اس کے برعکس میڈیا انڈسٹری کے خود ساختہ رہبری اور رہنمائی کے دعویدار نا صرف گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے ملازمین کو کم تنخواہیںدے کر ان کا معاشی استحصال کررہے ہیں بلکہ اس صنعت سے منافع کما کر دوسرے کاروباروں میں سرمایہ کاری کرتے رہے بلکہ سرمایہ ''بیرون ملک'' بھی منتقل کرتے رہے۔

اس ضمن میں اس امر کی نشاندہی کرنا اور اسے سراہنا ضروری ہے کہ دوسرے کاروباری گروپس نے میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کر کے اس صنعت کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور نظریہ پاکستان کا نام استعمال کر کے کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات لینے والے فرسودہ خیال کے حامل میڈیا مالکان کے چنگل سے اس انڈسٹری کو آزاد کرایا۔

سابق ادوار میں اس گروپ کو جس طرح سرکاری اشتہارات سے نوازا گیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں جو نئے گروپ آئے ان کے مالکان نے اپنے ادارے پروفیشنلز کے حوالے کیے۔ ان پروفیشنلز نے ہی نئے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔

نئے میڈیا گروپوں کی مینجمنٹ نے پروفیشنلز اور ورکرز کو پر کشش تنخواہیں اور مراعات دیں۔ جس کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری کے ملازمین اور صحافیوں کا معیار زندگی بلند ہوا۔ ورنہ ماضی میں میڈیا انڈسٹری کو Low paid انڈسٹری سمجھا جاتا تھا۔ مگر نظریہ پاکستان کے نام نہاد علمبردار میڈیاکے ملازمین کی تنخواہیں آج بھی دوسرے اداروں کی نسبت کم ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اس ادارے میں ملازمین کو تنخواہیں تاخیر سے ادا کرنے کا کلچر برسوں سے جاری ہے۔اب تو اس گروپ نے اپنا ٹی وی چینل بند کر کے سیکڑوں ورکرز کو بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ یہ ''کارنامہ'' کر کے صحافت اور نظریہ پاکستان کی کونسی خدمت کی گئی ہے؟

صحافتی حلقوں میں یہ باتیں عام ہیں کہ نظریہ پاکستان کے ''لے پالک'' دعوے داروں نے اپنے اداروں سے پیسہ نکال کر بیرون ملک منتقل کر دیا ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ ادارے بدترین مالیاتی بحران کا شکار ہوئے اور نتیجتاً ٹی وی چینل کو ایک منصوبے کے تحت بند کر کے واویلا شروع کر دیا گیا ہے۔کہ ان کا بحران نئے آنے والے میڈیا گروپوں کی وجہ سے ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ نئے آنے والے میڈیا گروپس کے وسائل مختلف وجوہات کی بناء پر زیادہ ہیں جب کہ ان کے وسائل ''حلال'' ہونے کی بناء پر کم ہیں۔ حالانکہ تحقیقات کی جائے تو اصل حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

جہاں تک نظریہ پاکستان کے نام نہاد علمبردار ہونے کے دعوے کا تعلق ہے توعرض یہ ہے کہ کیا اس ملک میں صرف ایک میڈیا گروپ ہی محب وطن ہے؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا سارا میڈیا ہی نظریہ پاکستان کا حامی اور محب وطن ہے۔ماضی کے اوراق پلٹیں تو نظریہ پاکستان کے علمبردار گروپ کے اخبارکے صفحہ اول پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلی کی تصویر کے ساتھ چھپا ہوا رنگین اشتہاربھی نظر آتا ہے۔

اس اشتہار میں مشرقی پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی تشہیر کی گئی تھی۔ کیا کسی اور اخبار نے کبھی کوئی ایسا اشتہار شائع کیا؟ دوسرے میڈیا گروپوں کی مینجمنٹ کو نان پروفیشنلز ہونے کا طعنہ دینے والے گروپ کے آج کے مالکان خود کتنے پروفیشنل ہیں اس کا میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہر چھوٹے بڑے ورکر کو بھی پتہ ہے۔

گزشتہ دنوں نظریہ پاکستان کے نام نہاد علمبرداروں نے اپنے اداریے میں کاروباری اداروں کی میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی نشان دہی کی تاہم وہ ناموں کی فہرست میں اپنے پیشے کا ذکر کرنا بھول گئے۔ واضح رہے کہ نظریہ پاکستان کے علمبردار بھی اس صنعت میں آنے سے پہلے کسی اورپیشے سے وابستہ تھے تاہم ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی پیشہ کم تر یا بر تر نہیں ہوتا ۔

یہاں یہ حقیقت واضح کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ صحافتی ادارے کی باگ ڈور نظریہ پاکستان کے اصل علمبر دار خاندان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس اخبارکے قارئین کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ در اصل یہی اس ادارے کے موجودہ مالکان کی بوکھلاہٹ کی وجہ ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں کی صحافتی خدمات کے ہم سب معترف ہیں اور اس خاندان کے اصل چشم و چراغ آج بھی اسی صنعت میں معیاری اور اصولی صحافت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میڈیا انڈسٹری مالی بحران کا شکار ہے۔ صحافتی تنظیموں کے وفود نے اس مالی بحران کے حوالے سے ارباب اختیار کو بھی آگاہ کیا ہے۔ حکومت کی کفایت شعاری کی میڈیا حمایت کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ حکومت کو سادگی اور کفایت شعاری کا ہی مظاہرہ کرنا چاہیے اور ماضی میں جو شاہانہ طرز عمل اختیار کیا گیا اس روش کو اب ترک کر دینا چاہیے۔ تاہم میڈیا انڈسٹری کے جو جائز مطالبات ہیں ، حکومت کو ان پر بھی غور کرتے ہوئے اشتہارات کی طویل عرصے سے رکی ہوئی بلا تاخیر اور فوری ادائیگی ہونی چاہیے۔

جہاں تک ڈمی اخبارات و جرائد کا تعلق ہے، اس کے بارے میں حکومت کو اپنی تحقیقات ضرور کرنی چاہیے۔ میڈیا انڈسٹری سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، اس انڈسٹری کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ میڈیا انڈسٹری کا بحران اجتماعی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک میڈیا گروپ یہ کہے کہ وہ چونکہ صاف ستھری صحافت کرتا ہے اور دوسرے ایسا نہیں کرتے، اس لیے وہ بحران کا شکار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اخبارات و جرائد یا الیکٹرانک میڈیا، اس میں آگے بڑھنے کے لیے نئے آئیڈیاز کی بھی ضرورت ہوتی ہے،جدید ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، ٹی وی دیکھنے والوں کے جذبات اور مزاج کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ اور ملازمین کو اچھی مراعات دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔

ان تمام لوازمات کا حامل ٹی وی چینل اور اخبار ترقی کرتا ہے، جو میڈیا گروپ ان لوازمات کوپورا نہیں کرتا وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس لیے کسی دوسرے چینل پر خرافات کا الزامات لگانا در اصل اپنی کوتاہی، نا اہلی اور کم عقلی کو چھپانا ہوتا ہے۔ صحت مند مقابلہ ہی ترقی کا انجن ہوتا ہے، نظریہ پاکستان کے نام نہاد علمبردار گروپ کو حقائق شناسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اصولی طور پر تو اس گروپ کے چینل کی بندش کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ ورکرز اور عوام کے سامنے اصل حقائق آ سکیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں