سب ولن ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 4 نومبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ڈیکارٹ نے کہا ہے ’’ میں سوچتا ہوں ،اس لیے میں ہوں ‘‘ ایک بڑا سوال جو سب کی زبان پر ہے کہ آخر پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ رہی، ملک میں ادارے مستحکم کیوں نہیں ہو رہے، ملک معاشی طور پر مضبوط کیوں نہیں ہو رہا ملک سے کر پشن ، لوٹ مار، مہنگائی، غربت ، دہشت گردی ، بدامنی، بیروزگاری ، بجلی،گیس ، پانی کے بحران کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پا رہا ہے۔

اس کا جواب بالکل سیدھا سادہ سا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسے سماج نے جنم نہیں لیا ہے جو جمہوریت کے لیے ساز گار ہو سماج لوگوں سے بنتا ہے، جو اس میں بستے ہیں اور ریاست لوگوں کا عکس ہوتی ہے یعنی جیسا لوگوں کا کردار اور سوچ ہوگی ویسے ہی ریاست نظر آئے گی ۔

سقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی سماج میں تفرقہ اور نزاع کی اصل وجہ نظریہ انفرادیت ہے، ایک فرد کی ذاتی خوشی یا ذاتی پسند و نا پسند یا ذاتی مفاد سے انسانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ اصل حقیقت سماجی انصاف کا اصول ہے جس کی بنیاد سماجی اور انسانی اخلاق ہے، ہم اس کی مثال یوں پیش کرسکتے ہیں کہ ایک چورکی ذاتی خوشی، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کی چوری کا راز نہ کھلے اور وہ چوری کے مال سے مزے اڑاتا رہے جب کہ اس شخص جس کی حلال اور محنت مزدوری کی کمائی چوری ہوئی ہے کی ذاتی خوشی ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کا چوری شدہ مال اسے واپس مل جائے۔

یہاں ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی کوشش کریں اوردونوں میں سے جو طاقتور ذہین یا با رسوخ ہو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو اسے ہم کیا کہیں گے کیا ہم اسے سماجی انصاف کہیں گے؟ اس کا جواب نفی میں ہے اگر چور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو یہ سماجی بے انصافی اور زیادتی ہے۔

اس کا مطلب ہے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ دوسری طرف اگر وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے جس کا حلال اور محنت مزدوری سے کمایا ہوا مال چوری ہوا تھا تو ہم کہیں گے کہ یہ سماجی انصاف کے عین مطابق ہے ۔ لہذا سماجی مسائل کاحل فرد کی خوشی، پسند یا مفاد میں مضمر نہیں ہے بلکہ ان مسائل کا حل سماجی انصاف کے اصول میں مضمر ہے۔ یہ وہ واحد نکتہ ہے جس نے ہمارے سماج کے بخیے ادھیڑکر رکھے دیے ہیں ، عدم سماجی انصاف نے ہمارے پورے سماج کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے ۔

پاکستانی سماج میں موجود تمام برائیوں ، خرابیوں کی جڑ یہ ہی عدم سماجی انصاف ہے، اس کی تمام تر ذمے داری اس ٹولے پر عائد ہوتی ہے جو اپنے آپ کو ہر قانون ، ہر پابندی ہر ڈسپلن سے مبرا سمجھتے ہیں وہ اپنے ہر عمل اور اپنے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں ۔ اس ٹولے میں بڑے جاگیردار، سیاست دان ، سرمایہ دار، بزنس مین ، بیوروکریٹس اور میڈیا کے اکابرین شامل ہیں ان لوگوں کی اکثریت حادثاتی طورپر سماجی لحاظ سے بڑے عہدوں اور حیثیت پر آکر فائز ہوگئی ہے اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا سے کیاکر دیں۔

اس کی مثال کچھ اس طرح سے لے لیں کہ اگرکسی معصوم بچے کوکھیلنے کے لیے موم کی گڑیا دے دی جائے تو وہ اس کا کیا سے کیا حال کردے گا اوریہ ہی حال ان تمام حضرات کا ہے دراصل یہ بیماروں کا ایک ٹولہ ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحتمند تصورکرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں احساس تک نہیں ہے کہ وہ کتنی خوفناک بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ تمام حضرات احساس برتری کا شکار ہیں جو اپنے علاوہ ملک کے بائیس کروڑ انسانوں کوکیڑے مکوڑوں کا درجہ دیتے ہیں۔

دنیا کے تمام ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس برتری نام کی کسی چیزکا وجود ہے ہی نہیں بلکہ احساس برتری دراصل احساس کمتری کی ہی ایک شکل ہے، احساس برتری میں مبتلا لوگ دراصل احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ سب کے سب ولن ہیں جو ہیروکا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ اول درجے کے ڈھونگی ہیں، غریبوں میں جہالت اس قدر عبرتناک نہیں ہوتی جتنی کہ امیروں میں ہوتی ہے، شوپنہارکہتا ہے ’’ ہر شخص اپنے شعورکی حدود میں گھرا ہوا ہے اور وہ ان حدود کو پار نہیں کرسکتا جیسے وہ اپنی جلد سے باہر نہیں آسکتا۔ ‘‘

حصول املاک و روپے پیسے کا جنون صدیوں سے انسان کے ذہن ودماغ پر مسلط ہے اور یہ زہر اس کے رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے، اسی جنون نے انسانی وحدت کو پارا پارا کر دیا ہے اور معاشرہ انسانی میں عدل وانصاف کا خاتمہ کردیا ہے ۔

آئیں ! ذرا تاریخ میں جھانکتے ہیں، افلاطون کی وفات تک ایتھنز دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا جیسا کہ افلاطون نے لکھا ہے دو شہر ایک غربا کا اور دوسرا امراء کا دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار، غربا قانون سازی ، ٹیکسوں اور انقلاب کے ذریعے امیروں کو لوٹنے کے منصوبے بناتے ہیں ۔ امراء غریبوں سے اپنے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو منظم کیے رکھتے ہیں ۔

ارسطوکا کہنا ہے کہ طبقہ امراء کے افراد کی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ’’ میں عوام کا دشمن رہوں گا اورکونسل میں ان کی مخالفت میں جوکچھ بھی کرسکا کروں گا‘‘ آئسوکریٹس نے 366 قبل مسیح میں یہ لکھا ہے ’’امرا کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیاء ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انہیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوتی جتنی کہ کسی امیرکے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی‘‘ کم و بیش اسی قسم کی صورتحال کا آج ہمیں بھی سامنا ہے ۔

طاقتور، بااختیار اور امیروں نے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو ناقابل برداشت نقصان کی بھٹی میں جھونک دیا ہے جس کی آگ میں آج یا کل استحصالی قوتوں کو ضرور بھسم ہوجانا ہے۔ آج ملک کے بائیس کروڑ عوام کے اندر ایک جذبہ بیدار ہوچکا ہے جسے غم وغصہ کہہ لیجیے یا طیش و غضبناکی کہہ لیجیے اور یہ جذبہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے کو تیار ہے کیونکہ جتنی طاقت سے اس جذبے کو دبایا جاتا ہے اتنی ہی طاقت سے یہ ابھرتا ہے ۔

استحصالی لوگو تمہیں اس کی گہرائیوں میں اترنا چاہیے تم اندھیرے میں چند ہی قدم آگے بڑھوگے تو تمہیں تمہارے ہم وطن ، ہم زبان ، ہم مذہب لوگ بیٹھے نظر آئیں گے قریب جائو اور سنوکیونکہ یہ لوگ تمہارے مقدرکی بات کر رہے ہیں ، تم سمجھتے تھے کہ ان کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں تمہار ی مرضی اور اجازت کے بغیر وہ سوچ نہیں سکتے کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے ۔

تم انہیں گھاس تک نہیں ڈالتے تھے لیکن آج وہاں چاروں طرف اجالا ہے نئی سو چ ، نئی فکر اور نئی صبح کا ۔ اب محرومیوں ، بد نصیبوں کی آگ میں جلنے کی تمہاری باری ہے، پاکستان کے اصل مالک بائیس کروڑ عوام ہیں ۔ اب ملک پر عوام کی حاکمیت اور حکمرانی کی نئی سحرطلوع ہونے والی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔