وزیر اعلیٰ کا حالات تبدیل کرنے کیلئے بھرپور اقدامات کا اعلان

رضاء الرحمان  منگل 25 جون 2013
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

کوئٹہ: بلوچستان کا مالی سال 2013-14کا ایک کھرب98 ارب سے زائد کا بجٹ پیش کردیاگیا ہے۔

جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے43.913بلین اور ترقیاتی بجٹ کے لیے 145.482بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جبکہ بجٹ میں7.942بلین کا خسارہ ظاہر کیاگیا ہے۔ گریڈ1سے لے کر16تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں15اور 17سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں10فیصد اضافہ کیاگیا ہے اورساڑھے چار ہزار نئی اسامیاں رکھی گئی ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں یہ بجٹ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے پیش کیا۔ بجٹ میں دو شعبوں صحت اور تعلیم کو زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔

تعلیم کے لئے34ارب سے زائد رقم اور صحت کیلئے15ارب23کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ صوبے میں تین میڈیکل کالجز اور تین سو پرائمری سکول کھولے جانے کا اعلان کیاگیا ہے جبکہ بلدیاتی انتخابات اورلوکل کونسل کیلئے6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اپنی بجٹ تقریر میں وزیراعلیٰ نے بتایا کہ مادری زبان میں تعلیم کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ جبکہ توانائی اور بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے شمسی توانائی کے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔

تین سو دیہات کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جائے گی، کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر50کروڑ روپے خرچ ہوں گے،اسی طرح بلوچستان حکومت کوشش کرے گی کہ این ایف سی ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کے لئے نیا فارمولہ طے کیاجائے، انہوں نے یہ بتایا کہ سرکاری عمارتوں کو شمسی نظام پر لانے کی بھی تجویز ہے جبکہ واٹرسپلائی اسکیموں کو شمسی توانائی سے چلانے کیلئے45کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سرکاری خرچ پر وزراء کے بیرونی دوروں پرپابندی عائد کردی ہے۔ سالانہ 5 ہزارطلباء کو سکالر شپ دی جائے گی جبکہ بولان میڈیکل اور اور زرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیاجائے گا، لگژری گاڑیوں کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں غیرمنقولہ اور25مربع فٹ کی جائیداد پر ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، پولیس ملازمین کو ماہوار6ہزار روپے اضافی دینے کا اعلان کیاگیا ۔

بلوچستان اسمبلی نے ضمنی بجٹ کی منظوری دیدی ہے جبکہ بجٹ پر عام بحث کا آغاز کردیاگیا ہے، اپوزیشن نے بلوچستان کے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیر عوامی قراردیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع اور اے این پی کے انجینئر زمرک خان نے صوبائی بجٹ کو غیر عوامی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بجٹ میں عوام کے نمائندوں سے کوئی رائے نہیں لی گئی اس لئے بجٹ کے کوئی خدوخال ہی نہیں ہیں، بجٹ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس میں ڈکٹیٹر شپ ہے جو آگے چل کر نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے صوبائی بجٹ پر کڑی تنقید کی اورکہا کہ اس میں جاری ترقیاتی اسکیموں کیلئے کوئی خاص رقم نہیں رکھی گئی جس پر انہوں نے اسمبلی کے بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا اورجمعیت کے ساتھی اراکین سمیت ایوان سے باہر چلے گئے ، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال اراکین اسمبلی جعفرمندوخیل، نواب محمد خان شاہوانی کو بھجوایا جو اپوزیشن چیمبر میں گئے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ ان کی بات مان لی جائے گی جس پر اپوزیشن نے بائیکاٹ ختم کردیا۔

مولانا عبدالواسع نے اسمبلی کے فلورپر یہ انکشاف بھی کیا کہ وزیراعلیٰ نے اسی ایوان میں اعلان کیا تھا کہ سیکرٹ فنڈ تمام برائیوں کی جڑ ہے اس لئے اسے ختم کرتے ہیں لیکن میرے علم میں آیا ہے کہ انہوں نے3کروڑ روپے سیکرٹ فنڈ جاری کردیا ہے۔دوسری طرف حکومتی رکن اسمبلی رحمت بلوچ نے اپوزیشن پر الزام عائد کیاکہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اڑھائی سو ارب روپے خوردبرد کئے ہیں یہ بجٹ پر کیونکر تنقید کرتے ہیں۔

دوسری جانب بجٹ سے قبل بلوچستان کی تین رکنی کابینہ نے پہلے مرحلے میں حلف لے لیا ہے جس میں(ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے نواب ثناء اﷲ زہری سینئر وزیر، نیشنل پارٹی کے نواب محمد خان شاہوانی اورپشتونخواملی عوامی پارٹی کے عبدالرحیم زیارتوال شامل ہیں۔ بلوچستان کابینہ کے لئے دوسرے مرحلے میں وزراء کو شامل کرنے کے لئے اتحادی جماعتوں میں ابھی تک مشاورت جاری ہے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ (ن) لیگ کے صوبائی صدر نواب ثناء اﷲ زہری نے سینئر وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت نعرے بازی کیلئے نہیں چلائیں گے، بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے مگر عوام کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ تین ماہ میں حالات تبدیل کرنے کے لئے پورا زورلگائیں گے کیونکہ مسائل ایک دن میں حل نہیں ہوسکتے، حالات بہتر بنانے کے لئے قبائلی اثرورسوخ بھی استعمال کیاجائے گا۔

بعض سیاسی تجزیہ نگار بلوچستان کے اس بجٹ کوایک اچھا اورمتوازن بجٹ قراردے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو فوقیت دی گئی ہے اور یہ وہ شعبے ہیں جن میں بہتری کی ضرورت ہے اور حکومت کو ابھی آئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا ہے، تاہم آگے چل کر حکومت کی کارکردگی دیکھی جائے گی اور پھر ہی کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

خود وزیراعلیٰ کا یہ کہنا ہے کہ وہ تین ماہ میں حالات کی بہتری کیلئے پورا زور لگائیں گے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ3 جماعتوں پر مشتمل مخلوط صوبائی حکومت کے لئے اس وقت سب سے اہم مسئلہ جہاں امن وامان کا ہے وہاں اتحادیوں میں وزارتوں کے حوالے سے بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے، خصوصاً وزیراعلیٰ کو جن کا نیشنل پارٹی سے تعلق ہے اپنی جماعت میں وزارتوں کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرناپڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔