والدین کے حقوق و احترام

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 29 مارچ 2019
ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والوں کو جنّت کی بشارت دی گئی ہے۔ فوٹو: فائل

ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والوں کو جنّت کی بشارت دی گئی ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک فرض ہے اور ان کا ادب و احترام ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے۔

ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’ اے بندو! تم میرا شُکر کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو، تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘

انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی مائیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ بہت ساری مائیں بچو ں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپاہج بنا دیتی ہیں، یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھر یلو معاملات میں باپ کا مخالف بنا دیتی ہیں۔ جس کی بنا پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی مائیں اللہ کی دیگر ہدایات کو بُھول کر ایسا کرتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک عورتیں اطاعت شعار ہوتی ہیں۔ (مردوں کی) غیر حاضری میں حفاظت کرنے والیاں۔‘‘ (سورۃ النساء )

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایات دی ہیں۔ اتنی ہدایات زندگی کے کسی دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں۔ کیوں کہ گھریلو سکون کی اہمیت اور بقا اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت اہم ہے۔ ایسی ماؤں کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسی ماؤں کا اجر کم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ خاوند کو اس کے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تباہ و برباد کر تی ہیں۔ کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں۔ جب وہ خود اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل میں گِھِر کر پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں ہر بُری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پر ہی وارد ہو تا ہے۔

ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’ کسی بھی بُری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کو مل کر رہتا ہے۔‘‘

(سورۃ الفاطر)

سورۃ الاسراء میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : ’’ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بل کہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ جو کچھ تمہارے دلو ں میں ہے اسے تمہارا رب بہ خوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب و احترام کی ہدایت کی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارو مددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پورا کرتے تھے، مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ۔ اسی لیے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہو جائیں۔ کیوں کہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے۔

اللہ تعالیٰ ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں: والدین کو ان کی بے ادبی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے۔ ان کے سامنے چِلّا کر نہیں بولنا چاہیے۔ انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہم دردی کے انداز میں ان سے بات کرنا چاہیے۔ والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرماں برداری اور نرمی سے کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کرنا چاہیے اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہیے، محض دکھانے کے لیے روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں والدین کے لیے دعا کرنا چاہیے: اے اللہ تعالیٰ میرے والدین پر رحم فرما، بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر رحم و کرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ہمیں اس دعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی ہے اور اس کی تلقین فرمائی ہے۔ سورۃ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کر دی ہے کہ اگر کسی سے بُھول چُوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں جو بے پروائی کی وجہ سے نہیں بل کہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہوجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں سزا نہیں دے گا۔ بہ شرطے کہ ہم خلوص دل سے توبہ کرلیں اور معافی مانگ لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دل کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت رسول کریم ﷺ سے پوچھا وہ کون سا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وقت مقررہ پر عبادت کرنا، پوچھنے والے نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حُسن سلوک۔‘‘ (بخاری)

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والدین کی خدمت کرنا تمہارے لیے جہاد ہے۔‘‘ (بخاری)

اسلام اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے کہ ہم اپنے والدین کے متعلقین کی بھی عزت کریں۔ چاہے وہ والدین کے رشتے دار ہوں یا والدین کے دوست۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم اپنے والدین کے دوستوں کا احترام کرو گے تو یہ بلا واسطہ تمہارے والدین ہی کا احترام ہوگا۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے فرمایا: فلاں شخص برباد ہو ۔ دوسری سیڑھی پر چڑھتے ہوئے پھر یہی الفاظ کہے اور تیسری سیڑھی پر جب قدم رکھا تو پھر یہی الفاظ دہرائے۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ کون برباد ہو؟ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ایسا آدمی جو رمضان کا مہینہ پا کر بھی اپنے گناہ معاف نہ کراسکے، وہ آدمی برباد ہو۔ جو میرا نام سن کر مجھ پر درود نہ بھیجے، وہ آدمی بھی برباد ہو۔ اور جو بوڑھے والدین کو پاکر بھی اپنی مغفرت نہ کراسکے اور جنت میں نہ جاسکے۔‘‘ (مسلم)

اگر خلوص دل سے ان تینوں امور کا خیال رکھا جائے تو یقینی طور پر انسان کو جنت نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمارے والدین کے لیے حقیقی محبت پیدا کردے اور ان دونوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہم پر رحم کیا۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔