ہندوستان کی اردو صحافت بہت دگرگوں ہے، نئے لوگ نہیں آرہے۔۔۔! محمد علم اللہ

رضوان طاہر مبین  منگل 2 اپريل 2019
دھمکیوں سے اپنی تحریروں کی پڑھت کا اندازہ ہوتا ہے، ’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ کے پہلے ’مواصلاتی انٹرویو‘ کے لیے ہندوستانی بلاگر محمد علم اللہ سے ’ملاقات‘۔ فوٹو: فائل

دھمکیوں سے اپنی تحریروں کی پڑھت کا اندازہ ہوتا ہے، ’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ کے پہلے ’مواصلاتی انٹرویو‘ کے لیے ہندوستانی بلاگر محمد علم اللہ سے ’ملاقات‘۔ فوٹو: فائل

اُس وقت ہندوستان کی راج دھانی میں بھی شام ڈھلنے کو تھی۔۔۔

کراچی سے لگ بھگ 10 ہزار کلو میٹر پَرے اُس نگری میں ایک مہمان سے ہماری گفتگو طے تھی۔۔۔ سورج ڈھلنے سے کچھ قبل ہم نے یہاں سے سلام کیا، تو بنا کسی ویزے اور روک کے ہمیں وہاں سے دیا گیا جواب یہاں سنائی دے گیا۔۔۔

ہماری یہ ’ملاقات‘ بہ ذریعہ’’ وٹس ایپ‘‘ تھی۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی ’جامعہ‘ میں ہی کسی جگہ بیٹھ گئے ہیں۔ پس منظر میں دلی کی چڑیوں کی چہچہاہٹ نے وہاں کی شانت اور پرسکون فضا کے خدوخال تراشنے شروع کر دیے۔۔۔ کبھی کسی گاڑی کی آواز سمع خراشی کر دیتی اور پھر ہماری گفتگو کے سوا ماحول میں اور کوئی آواز نہ ہوتی۔۔۔ ہاں، کبھی کبھی اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہوئے کوّے کسی ’بات‘ پر الجھ کر منہ زور ہوتے، تو بلند ہوتی ’کائیں کائیں‘ یہاں صاف سنائی دیتی۔۔۔ ’دونوں وقت‘ ملنے سے قبل آکاش پر موجود ابر برسنے لگے۔۔۔ ہم دلی کی رِم جِھم یہاں کراچی میں سن رہے تھے۔

مینہ برسا، تو انہیں اٹھ کر کسی سائبان تک جانا پڑا۔۔۔ پھر بات چیت کے دوران وہاں صدائے مغرب گونجی۔۔۔ ہمیں پتا چلا کہ 10 ہزار کلو میٹر سے زائد دور کی دھرتی، سورج کے ’حساب‘ میں فقط آدھے گھنٹے کی مسافت رکھتی ہے، کیوں کہ یہاں مغرب میں ابھی اتنا ہی وقت تھا۔۔۔!

یہ ہندوستان کے نوجوان بلاگر محمد علم اللہ ہیں۔۔۔ جو سرحد کے اِس طرف بھی اپنی منفرد تحریروں کے سبب جانے جاتے ہیں۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15 فروری1989 ء میں وہ صوبہ جھاڑ کھنڈ کے دارالحکومت رانچی میں پیدا ہوئے، جو جنگلات اور ہریالی کے سبب مشہور ہے۔

جھاڑکھنڈ صوبہ 2000ء میں ’بہار‘ سے الگ ہوا۔ جغرافیائی طور پر یہ بہار، بنگال، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ کے علاوہ ’یوپی‘ سے ہم سائیگی رکھتا ہے۔ علم اللہ کے بقول جیسے بہار کی زبان ’بھوج پوری‘ ہے، ایسے یہاں کی زبان ’ناگ پوری‘ کہلاتی ہے۔ ’ناگ پوری‘ کی وہ قسم جو ہندو مسلم کی مخلوط ’ہندی اردو‘ ہے، وہ سمجھ لیتے ہیں، لیکن غیر مسلموں والی ’ناگ پوری‘ سمجھنا دشوار ہے۔

محمد علم اللہ نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کی، چوتھی یا پانچویں جماعت کے بعد نو سال کی عمر میں انہیں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر‘ اعظم گڑھ (یوپی) بھیج دیا گیا، جہاں پھر انہوں نے اپنی سات سالہ تعلیم مکمل کی، اسی مکتب سے امین اصلاحی وغیرہ بھی زانوئے تلمذ طے کر چکے۔ ہم نے پوچھا اسکول سے اُٹھا کر مدرسے کیوں بھیجا؟ تو وہ بولے کہ ’میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ مجھے مدرسے میں کیوں داخل کرایا گیا، پھر مجھے جو بھی راستہ ملا، اس پر چلتا گیا۔ مدارس میں طلبہ کے لیے مستقبل کی راہ نمائی نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔ میرے بڑے بھائی کو بھی مدرسے بھیجا گیا، وہ مدرسے سے بھاگ آئے۔ میں نے چھوٹے بھائیوں کو مدرسے بھیجنے سے روکا کیوں کہ میں مدارس کے نظام سے مطمئن نہیں۔‘

مدرسے کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے علم اللہ نے بتایا کہ وہاں پڑھتے ہوئے وہ باہر کی دنیا سے بالکل منقطع تھے، پتا ہی نہیں تھا کہ باہر کی دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ وہ جب 18، 19 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ’نئی دلی‘ آئے تو یہاں کی دنیا کو بالکل الگ پایا۔ پھر ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ کی کھلی اور تعلیمی فضا سے بے حد متاثر ہوئے۔ مرزا اسد غالب اور مولانا محمد علی جوہر کے مجسمے، باب قرۃ العین حیدر، باب ابوالکلام آزاد اور گاندھی سینٹر وغیرہ اور ہندو مسلم بھائی چارے نے یہاں پڑھنے کی خواہش کئی گنا بڑھا دی۔ ہم نے پوچھا کہ آپ مدرسے میں ایک مذہبی عالم کو سکھائے جانے والے سارے لوازمات سے آشنا ہوگئے؟ تو علم اللہ نے کہا بالکل، پھر عصری تعلیم کی طرف آنے سے یہ ہوا کہ میں دونوں طرف کے تعلیمی نظام کو جان گیا۔

مدرسے کے بعد علم اللہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ (دلی) سے 2011ء میں گریجویشن کیا۔ کہتے ہیں کہ بچپن میں سول سروس میں جانے کا خواب تھا، جو پورا نہ ہو سکا، پڑھائی کے ساتھ اخبارات وغیرہ میں ملازمت کی۔ ہمارے خواب کچھ ہوتے ہیں اور حالات کچھ اور۔۔۔

علم اللہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں اردو کے صحافیوں کو ہندی اور انگریزی کے صحافیوں جیسی تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔ اردو اخبارات کے مالکان استحصال کرتے ہیں، ورنہ اُن کے حالات اتنے خراب بھی نہیں۔ علم اللہ نے روزنامہ ’ہندوستان ایکسپریس‘، ’صحافت‘ (دلی) اور ہفت روزہ ’عالمی سہارا‘ میں کام کیا، رپورٹر بھی رہے اور ’سب ایڈیٹر‘ بھی۔ ہفتہ وار ’عالمی سہارا‘ میں مضامین نگاری کی، فی مضمون دو ہزار روپے معاوضہ ملتا۔ اس دوران انہیں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے دل چسپی ہوئی۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد مسلمانوں کے حالات کا مطالعہ کیا، اسی حوالے سے 2015ء میں ایک کتاب ’مسلم مجلس مشاورت کی مختصر تاریخ‘ رقم کی، پھر 2017ء میں ایران کا سفرنامہ بھی لکھا۔

محمد علم اللہ کا خیال ہے کہ جامعہ ملیہ میں اساتذہ اور دوستوں کی بدولت ان کی تحریر میں نکھار آیا۔ پہلے زیادہ تر وہ ’علم اللہ ڈاٹ کام‘ پر لکھتے تھے۔ پھر ایک ویب سائٹ ’اردو محفل‘ میں شاعری اور افسانوی ادب پر بھی طبع آزمائی کی۔ اب ایک پاکستانی ویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ کے لیے لکھ رہے ہیں، جہاں قارئین کا بہت بڑا حلقہ ملا ہے۔ ان کی وہ تحریریں ہندوستانی اخبارات میں بھی چھپتی ہیں۔

ہم نے یہاں اور وہاں کی صحافتی آزادی کا موازنہ کروانا چاہا، تو علم اللہ بولے کہ دونوں ریاستوں اور مختلف سماجی مزاج کے بدولت کچھ چیزیں یہاں اور کچھ چیزیں وہاں ناقابل قبول ہیں۔ وہ پاکستان کی اردو صحافت کو ہندوستان کی اردو صحافت سے زیادہ بالغ اور پختہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہندوستان میں اردو صحافت دگرگوں ہے، پاکستان میں اردو کے بہت سارے کالم نگار ہیں، جب کہ یہاں اردو صحافت میں نئے لوگ نہیں آرہے۔ نئی نسل اردو پڑھتی نہیں کہ اردو پڑھنے سے نوکری نہیں ملتی۔‘

علم اللہ کے بقول وہ اب تک مختلف اخبار وجرائد اور ویب سائٹس پر 300 کے قریب تحریریں لکھ چکے، کہتے ہیں مدارس پر نکتہ چینی اور مسلمانوں پر تنقید کا سخت ردعمل آتا ہے۔ گالیوں اور دھمکیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری تحریر کہاں تک پڑھی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہم جب تک سوال نہیں کریں گے کہ کیا کرنا ہے اور اب تک کیا، کیا ہے؟ جب تک بہتری ممکن نہیں۔ گاہے گاہے موقع ملتا ہے تو دارالعلوم دیوبند وغیرہ بھی جاتا رہتا ہوں۔

جامعہ ملیہ کے شعبہ اِبلاغ عامہ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایشیا بھر میں صف اول میں ہے، یہاں شاہ رخ خان، کبیر خان اور مشہور صحافی برکھا دت وغیرہ نے پڑھا۔ انہوں نے بھی یہاں داخلہ لینا چاہا، مگر نہ مل سکا، تو مایوس ہو کر شعبۂ تاریخ کے طالب علم ہوگئے، لیکن اگلے برس پھر قسمت آزمائی، اور اِبلاغ عامہ میں داخلے کے اہل قرار پائے۔ اسے انہوں نے بہت بڑی کام یابی تصور کیا، کہتے ہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، دوسروں سے پوچھا کہ دیکھنا یہ میرا ہی نام ہے ناں۔ یوں تاریخ کا ماسٹرز ادھورا چھوڑ کر 2013ء میں پہلے اِبلاغ عامہ میں ایم اے کیا، پھر 2015ء میں ’تاریخ‘ کا ایم اے مکمل کیا۔

علم اللہ کے مطابق وہ اب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’میڈیا کنسلٹنٹ‘ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ جامعہ ملیہ میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے، اس لیے یہاں کا انگریزی اسکولوں کے طلبہ زیادہ آتے ہیں۔ مدارس کے بچے عموماً شعبۂ عربی، فارسی یا اردو وغیرہ میں داخلہ لیتے ہیں۔

پاکستان کا ذکر ہوا تو علم اللہ بولے کہ ’’ہمیں یہاں کے حالات دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ وہاں تو سلجھے ہوئے لوگوں کو ہونا چاہیے، یہ ایک مملکت خدا داد ہے وہاں سب کچھ مثالی ہونا چاہیے، جو کہ نہیں ہے۔ خبروں سے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی بھی کسی کو مار دیتا ہے اور کوئی بھی دہشت گرد آکر پناہ لے لیتا ہے۔ اسلام تو ہر تشدد کو روکتا ہے۔ دین میں بھی کوئی زبردستی نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، تو وہاں تو تشدد کا سایہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

اُن کی ’مملکت خدا داد‘ کی اصطلاح پر ہم چونکے، پوچھا کہ کہ یہ اصطلاح تو ہمارے ہاں برتی جاتی ہے، کیا آپ بھی واقعی پاکستان کو مملکت خداد کہتے ہیں؟ وہ بولے کہ ’’مملکت خدا داد ہے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اِسے کہا تو یہی جاتا ہے۔‘‘

پاک وہند کے درمیان ’یورپی یونین‘ جیسے اتحاد کے خواہاں علم اللہ سے وزیراعظم عمران خان کا ذکر نکلا، تو وہ بولے کہ ہندوستانی دانش وَروں نے ان کے اقدامات کو بہت اچھی نگاہ سے دیکھا ہے۔ مارچ 2019ء میں بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ’ابھی نندن‘ کی رہائی سے لے کر مجموعی طور پر ان کے رویوں کو وہاں بہت سراہا جا رہا ہے۔ ہم نے ’دیگر اچھی چیزوں‘ سے ان کی مراد لی تو وہ بولے کہ وہ جو ’نیا پاکستان‘ بنانے کی بات کرتے ہیں، معیشت بہتر کرنا چاہتے ہیں، تاہم انہیں انتہا پسندی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ہم نے کہا یہاں تو ان سے کافی شکایات بھی پائی جاتی ہیںِ، تو انہوں نے حسن ظن کا اظہار کیا، بولے کہ ’مرض ٹھیک کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے، جس طرح مصر میں محمد مرسی برسراقتدار آئے، تو انہیں بھی معیشت بہتر کرنے میں وقت لگا تھا۔ اس لیے عمران خان کو موقع دینا چاہیے۔‘

ہندوستانی سیاسی جماعت ’کل ہند مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) کے ’اویسی برادران‘ کی سخت گیر سیاست پر تنقید کرتے ہوئے علم اللہ کہتے ہیں کہ ان کی باتوں سے پھر یہاں مرچ مسالا لگانے والوں کو موقع ملتا ہے۔ اب یہاں محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد جیسے ہر ایک میں مقبول راہ نما کم ہیں۔

چار بھائی اور چار بہنوں میں محمد علم اللہ کا شمار چوتھا ہے، اپنے والد کے حوالے سے علم اللہ نے بتایا کہ ’وہ اسکول کی تدریس سے گزشتہ برس ہی ریٹائر ہوئے، انہیں بلا تفریق ہندو مسلم بڑی قدرومنزلت حاصل ہے۔‘ علم اللہ ڈراموں اور فلموں کے شوقین ہیں، کچھ عرصے قبل ایران کے دورے کا موقع ملا، اب ترکی دیکھنے کی خواہش ہے۔

مدارس میں یہ طے نہیں ہوتا کہ بچے کو بنانا کیا ہے؟

محمد علم اللہ ہندوستانی مدرسوں کے نظام تعلیم کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے بھائیوں کو میری یہ بات بری لگتی ہے۔ یہ مدارس عام ریاستی معاملات سے الگ رہنے کے سبب مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں۔ مدارس کی سیاسی حصے داری بہت کم ہے، جس سے سماج کے باقی شعبوں میں کمی رہتی ہے۔ کانگریس کی حکومت کے دوران سامنے والی ’سچر کمیٹی رپورٹ‘ میں یہ بات سامنے آئی کہ مدارس میں ہندوستان کے صرف دو فی صد مسلمان پڑھتے ہیں۔ اس لیے جب بھی مدارس میں تبدیلی کی بات ہو، یہ کہا جاتا ہے کہ 98 فی صد کی اصلاح چھوڑ کر دو فی صد کے پیچھے کیوں پڑا جا رہا ہے، جب کہ میں نے تحقیق کی ہے مدارس میں دو فی صد مسلمان پڑھنے والی بات درست نہیں، کیوں کہ ’سچر کمیشن‘ نے صرف رجسٹرڈ اور سرکاری اعانت سے چلنے والے مدارس کو رپورٹ میں شامل کیا۔‘ اُن کی اس بات پر ہم چونکے اور لقمہ دیا کہ سرکار مدارس کو روپیا دیتی ہے؟

انہوں نے تصدیق کی اور کہا بے شمار دینی مدارس بھارتی سرکار کی اعانت سے ہی چل رہے ہیں، ہم نے کہا کیا ان مدارس کا مکمل خرچ حکومت دیتی ہے، تو انہوں نے کہا ہاں، جب کہ مدارس کی دوسری قسم نجی ہے، اور ان کا بھی بہت بڑا جال بچھا ہوا ہے، جس کے اعدادوشمار ہماری ملی تنظیموں کے پاس بھی نہیں۔ بدقسمتی سے وہ صرف چندہ لینا جانتے ہیں۔ ان کے پاس باضابطہ بہبود کا کوئی منصوبہ نہیں۔ کچھ لوگ اچھے کام کر بھی رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان کی صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔

علم اللہ کہتے ہیں کہ مدارس میں یہ طے نہیں ہوتا کہ بچے کو بنانا کیا ہے؟ ہمیں بھی کبھی یہ نہیں بتایا، ہم خود اپنی پسند سے بنتے چلے گئے۔ آج تو پیدائش پر ہی بچے کا مستقبل سوچ لیا جاتا ہے۔ اگر ہندوستانی مسلمانوں کو ترقی کرنا ہے، تو اس پر توجہ دینا پڑے گی۔ مدارس میں فیس کا ذکر ہوا تو انہوں نے بتایا کہ فیس لی جاتی ہے، لیکن مستحق طلبہ کو چھوٹ بھی مل جاتی ہے۔

نصاب میں شیر کو بھی سبزی خور بنا دیا۔۔۔!

علم اللہ کے اُن کے تاریخ میں ماسٹرز کے تعلق سے بھی کچھ گفتگو ہوئی، وہ بولے کہ میں نے ’تاریخ‘ کو باضابطہ طور پر جامعہ ملیہ میں آکر ہی جانا، پہلے بس ’تاریخ اسلام‘ کے بارے میں ہی معلومات تھی۔ یہاں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ہمیں ایک ساتھ بہت سے نظریات پڑھائے جاتے ہیں، کہ ہندوستانی مورخ کیا کہتے ہیں، پاکستانی تاریخ دانوں کی رائے کیا ہے یا کمیونسٹ نقطہ نظر کیا ہے وغیرہ۔ البتہ کوئی پروفیسر سخت مذہبی رجحان کا ہو تو وہ پھر اور طرح کی بات کر جاتا ہے، چوں کہ یہاں سارے مذاہب کے طلبہ ہیں، تو وہ چاہ کر بھی اس طرح کی بات نہیں کر پاتا۔ ایسا کرے گا، تو سوالات کی بوچھاڑ ہوگی۔

ہم نے کہا جامعہ کی سطح پر تو ہمارے ہاں بھی مختلف آرا پڑھا دی جاتی ہیں، البتہ کالجوں اور بالخصوص اسکول کی سطح پر بیانیہ ایک ہی ہوتا ہے، تو وہ بولے کہ ہندوستان میں اسکول کے نصاب پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ کانگریس کی حکومت ہو تو جواہر لعل نہرو اور ابوالکلام آزاد وغیرہ کے مضامین ہوتے ہیں، جب کہ ’بی جے پی‘ آتی ہے۔ تو ان کی جگہ ولبھ بھائی پٹیل اور ونائک ساورکر (ہندو توا کے عَلم بردار) جیسے بنیاد پرست لوگوں کو نصاب میں لے آتے ہیں۔

نصاب پر حکومتی اثرات کی انتہا کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ ایک دوست کے توسط سے پتا چلا ہے کہ یہاں نصاب کی ایک کتاب میں شیر تک کو سبزی خور بتایا گیا ہے۔۔۔! علم اللہ کی خواہش ہے کہ ہندوستان مین انگریزوں کے زمانے سے اب تک آنے والی نصابی تبدیلوں پر عہد بہ عہد تحقیق ہو، اس سے بہت سی اہم اور دل چسپ چیزیں سامنے آئیں گی۔ مطالعہ پاکستان‘ کا ذکر ہوا تو علم اللہ نے بتایا کہ وہاں ’مطالعہ ہندوستان‘ کی طرز کا کوئی مضمون نہیں۔

جامعہ ملیہ کے نام سے ’اسلامیہ‘ ہٹانے کا ذکر۔۔۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے محمد علم اللہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک بالکل سیکولر ادارہ ہے۔ ہم نے نام سے جُڑے ’اسلامی‘ پر استفسار کیا، تو وہ بولے کہ یہ ایسے ہی ہے جس طرح ’گرونانک‘ اور ’سینٹ اسٹیفن‘ سے منسوب تعلیمی ادارے ہیں۔ جامعہ ملیہ میں 50 فی صد نشستیں مسلمانوں کے لیے مختص ہیں، اقلیت کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اپنے پیروکاروں کے لیے نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں۔ بنارس ہندو میں بھی اسلامی تاریخ اور اردو کے شعبے ہیں۔ ’اسلامی تاریخ‘ سے غیر مسلم طلبہ بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ تعداد اگرچہ کم ہے۔ یہ دراصل ہندوستانی سماج کا تنوع دکھاتے ہیں۔

علم اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جامعہ ملیہ کے معاشی بحران کے دوران یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر اس کے نام سے ’اسلامیہ‘ ہٹا دیا جائے، تو زیادہ چندہ ملے گا اور ہم ہندوستان کے ایک بڑے حلقے کو متاثر کر سکیں گے، تو گاندھی جی نے لفظ اسلامی ہٹانے کی سخت مخالفت کی۔

جامعہ ملیہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح یہ بھی ایک سرکاری ڈھانچے ’یونیورسٹی گرانٹ کمیشن‘ سے چلتی ہے۔ ’جدوجہد آزادی‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ورثہ ہے، جس کے بانیان، جامعہ ملیہ سرخیل تھے۔ یہاں کے پہلے شیخ الجامعہ کے لیے علامہ اقبال کو پیش کش کی گئی، ان کے انکار کے بعد مولانا محمد علی جوہر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ جامعہ ملیہ کو ہندوستان ہی نہیں دنیا کی کسی بھی جدید جامعہ کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں ہندو مسلم ثقافتی ہم آہنگی، سیکولرازم کے فروغ اور انتہا پسندی کے خلاف اس کا کردار بہت اہم ہے۔ جامعہ ملیہ کے لوگوں کا سیاست سے لے کر ادب تک میں اہم کام کیا۔ کچھ سخت گیر ذہن رکھنے والوں کو ’علی گڑھ یونیورسٹی‘ کے نام سے چڑ ہوتی ہے، لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے ان کا بھی تاثر ایسا نہیں ہوتا۔ 2020ء میں جامعہ ملیہ کے صد سالہ تاسیسی جشن کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر کتابوں کی اشاعت، سیمینار اور دیگر سرگرمیوں کے لیے تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔