پاک ایران تعلقات، نئی اُمید نیا سفر!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 26 اپريل 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پاکستان اور ایران صدیوں سے لازوال تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور تجارتی رشتوںمیں منسلک ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے تعلقات میں مزید گرمجوشی آئی لیکن پچھلے دو تین عشروں سے بین الاقوامی سطح پر فروغ پانے والی دہشتگردی سے یہ دونوں برادر ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان میں بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔

اس لحاظ سے وزیراعظم عمران خان کا دو روزہ دورہ ایران باہمی تحفظات دور کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور دوسرے رہنماؤں سے وزیراعظم کی ملاقاتوں کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ دونوں ملکوں میں دوستی اور تعاون بڑھانے کے حوالے سے بہت بڑی کامیابی کی غمازی کرتا ہے۔

سرد مہری کے ناگوار موسم کے بعد دو ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی نظر آئے تو انگریزی محاورے میں ایسی سفارتی سرگرمیوں کو برف پگھلنے سے تشبیہ دی جاتی ہے، گویا برف پگھل رہی ہے۔ جب ہم کہتے یا لکھتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ممالک تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہیں تو ہمارا اشارہ ایران کی 4 ہزار سالہ تاریخ اور بر صغیر پاک و ہند کے ساتھ سر زمین فارس کے بادشاہوں، سیاحوں اور تاجروں کے تعلقات کی طرف ہوتا ہے۔ اسلامی ادوار میں ان تعلقات کو نئی جہتیں مل گئیں۔

کوہ نور ہیرے سے لے کر تخت طاؤس اور جامِ جم سے لے کر گلستان، بوستان، دیوانِ حافظ، رباعیات خیام اور مولانا روم کی مثنوی بر صغیر کے لیے اجنبی نہیں۔ امیر خسرو، مرزا بیدل، اور غالبؔ سے لے کر اقبال لاہوری تک ہمارے شعرا اہل فارس کے لیے اجنبی نہیں۔ فارسی ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی تھی،  دونوں ہمسایہ ملکوں کے باہمی تعلقات کا دارومدار مغرب سے چلنے والی اُن سرد ہواؤں کی رفتار پر ہوا جو بحر اوقیانوس کے اُس پار سے 7 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آتی ہیں۔ 2005ء سے پاک، ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ اسی وجہ سے التواء میں پڑا ہوا ہے ،کسی حکومت کو جرأت نہیں ہوتی کہ اس منصوبے کو آگے بڑھائے۔

وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایسے وقت پر ہوا جب پاکستان اور ایران کے درمیان دو معاملات پر شدید تناؤ کی صورت حال ہے۔ دو سال پہلے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو ایران کے راستے پاکستان آیا، دہشت گردی کی کئی وارداتوں کے بعد پکڑا گیا اور تمام وارداتوں کا اقرار کیا ۔گزشتہ ہفتے اور ماڑہ میں بسوں کے قافلے پر حملہ کر کے نیوی اہلکاروں سمیت 14 پاکستانی شہریوں کو شہید کیا گیا اور اس میں ایران کی سرزمین استعمال ہونے کا اشارہ مل گیا۔

تاریخ کا ایک اہم سبق اور اصول یہ ہے کہ ایک ملک ہر چیز بد ل سکتا ہے پڑوسی نہیں بدل سکتا کیونکہ پڑوسی کا تعلق جغرافیائی حقائق سے ہے جو اٹل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہو سکتی، یہی وجہ ہے 200 سالوں کی دشمنی کے بعد فرانس اور جرمنی دوست بن گئے۔ جرمنی اور برطانیہ میں دوستی ہو گئی، شمالی اور جنوبی کوریا 65 سالوں کے بعد دوستی کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ دوستی کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں مشرق میں بھارت، مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں، جنوب میں سمندر ہے، شمال میں سابق سویت یونین کی آزاد ریاستیں ہیں اور عوامی جمہوریہ چین ہے۔ ایران، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ بھارت کی گہری دوستی ہے جب کہ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ بھارت اور ہمارے تعلقات ایک جیسے ہیں۔

پاک، ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی التواء کا شکار ہے، اسی طرح چائنہ پاکستان اکنامک کو اریڈور (CPEC) کا منصوبہ گزشتہ 9مہینوں سے خدشات کی زد میں ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود بھارتی انجینئروں اور تعمیر اتی کمپنیوں کا کام جاری رہا مگر پاکستان کی کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تجارت کی اجازت نہیں ملی۔ عالمی سطح پر اس طرح کی دو غلی پالیسیوں کے خلاف ایران، چین افغانستان اور پاکستان کو مشترک جدوجہد کرنی ہو گی۔

آج جب وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان سیکیورٹی تعاون بڑھانے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشترکہ سرحد کے تحفظ کے لیے مشترکہ سریع الحرکت فورس بنانے پر اتفاق ہوا ہے تو اس حوالے سے سکھ کا سانس لیا جانا چاہیے کہ اب ایک نئے سفر اور ایک نئی اُمید کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تحت اس عہد کی نئے سرے سے تجدید کی گئی کہ دونوں ممالک اپنی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اس سلسلے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر آہنی باڑ لگائی جائے گی۔ سیکیورٹی تعاون بڑھانے کے لیے دونوں ملکوں کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں کی ملاقات میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور اہم تجاویز زیر غور آئیں۔ اس وقت بارڈر سیکیورٹی میکانزم موجود ہے جس کے تحت سرحدوں پر مشترکہ گشت اور نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور اشیاء کے تبادلے کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ صحت اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو ایک بڑی پیشرفت ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ دونوں ملک سرحدی علاقوں میں مشترکہ صنعتیں لگائیں گے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ صدر روحانی نے پاکستان کی تیل و گیس کی ضرورت پوری کرنے اور بجلی کی برآمد دس گنا بڑھانے کی پیشکش کی ہے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں نے ضروری اقدامات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ایرانی صدر نے اپنی چاہ بہار بندرگاہ کو ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے گوادر پورٹ سے ملانے کی پیشکش بھی کی۔ انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اچھے تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں لیکن ان کے دشمن بھی ہیں جو ان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لیے دہشتگردوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے صدر روحانی کو یقین دلایا کہ پاکستان ایران کے خلاف کسی محاذ کا حصہ نہیں بنے گا۔ یہ بھی کہا کہ ہم نئے پاکستان میں ایران جیسا انقلاب لانا چاہتے ہیں جس میں امیر اور غریب کے مابین کوئی تفریق نہ ہو۔ مجموعی طور پر وزیراعظم کا دورہ ایران بہت کامیاب رہا۔ اس دوران ہونے والے فیصلوں سے دونوں ملکوں کو سلامتی کے علاوہ معاشی استحکام میں بھی مدد ملے گی۔ اس حوالے سے اقتصادی تعاون کی تنظیم جس کے پاکستان، ترکی اور ایران بانی ملک ہیں، کے تحت استنبول سے اسلام آباد تک ریلوے لائن کی بحالی کا منصوبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

اُمید ہے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران سے دو نوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات پر منڈ لا نے والے بادل چھٹ جائینگے اور پاکستان میں خراب سیاسی صورتحال کو ایک نئی زندگی ملے گی۔اور شاید عمران خان بھی اسی حوالے سے خاصے پراُمید بھی ہیں اور برملا اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ انھیں حالات کا ادراک بھی ہے۔ اور انھیں یہ بھی علم ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے، بہرکیف ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کے ساتھ بیک وقت بہتر تعلقات قائم کرنا بھی اپنی جگہ ایک بہترین خارجہ پالیسی ہے جسکی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ پاک ایران تعلقات سے اس خطے کو ایک نئی زندگی ضرور ملے گی اور ایران کا جھکاؤ بھارت کے بجائے پاکستان کی جانب زیادہ ہو گا!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔