صنف نازک اور پاکستانی معیشت: وجودِ زن سے عروجِ زن تک کا سفر

سعدیہ مظہر  بدھ 26 جون 2019
عورت اب عروج کی طرف گامزن ہے۔ اسے صنفِ نازک کہنا چھوڑیئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عورت اب عروج کی طرف گامزن ہے۔ اسے صنفِ نازک کہنا چھوڑیئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بچپن میں ایک کہانی سب سے زیاد ہ سنی، لکھی اور پڑھی بھی۔ پھر بڑے ہو کر شاید دوہرائی بھی وہی ہے زیادہ۔ جی! تو کہانی تھی بوڑھے کسان اور اس کے چھ بیٹوں کی۔ بچپن میں تو اس کہانی کو سبق کی طرح یاد کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس احساس نے دل میں مضبوط جگہ جمائی کہ اس کہانی کا سبق تاعمر سنبھلنے اور سیکھنے کے کام آتا رہے گا۔

بوڑھے کسان کا لکڑیوں کے ذریعے اپنے بیٹوں کو دیا گیا اتحاد کا سبق کل بہت یاد آیا کہ جب مجھے ایک ایسی محفل میں جانے کا موقع ملا جہاں ’وجودِ زن‘ کے فن کو ’عروجِ زن‘ کے نام سے سراہا جا رہا تھا۔ رنگ برنگے کپڑوں، خوبصورت چہروں اور ہال میں بکھرے قہقہوں میں قابلِ ذکر ان تمام خواتین کی آنکھوں میں کامیابی کا یقین اور خودی کا غرور تھا۔ یہاں پہنچ کر پتا چلا کہ اب وہ وقت گیا جب کہا جاتا تھا کہ خواتین ایک دوسرے کی کامیابی اور فن سے حسد کرتی ہیں۔ اس شام ہر ستارے کو دوسرے کو سراہتے اور راستوں کی رہنمائی کرتے دیکھا۔

پاکستان میں آج کل معیشت، بجٹ، قرضے اور معاشی بدحالی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ ایسے میں اس ترقی پذیر ملک کی تقریباً آدھی آبادی جو پہلے کبھی گھر بیٹھ کر حقیقت میں معیشت پر بوجھ رہی تھی، آج 2019 میں 26 فیصد خواتین معاشی میدان میں قدم رکھ چکی ہیں۔ وہ فن جو فطری طور پر بھی موجود تھا، آج اسے تراش کر کمرشل مارکیٹ میں کاروبار کےلیے استعمال کیا جا رہا ہے جو پاکستانیوں کےلیے دیکھا جائے تو بہت حوصلہ افزاء خبر ہے۔

اینٹریپرینیورشپ (Entrepreneurship) کا چڑھتا بخار کہیے یا خمار، لیکن اب یہی نوجوان طبقے میں اعتماد کی فضا بحال کررہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچیوں کا کاروبار کرنا معیوب بھی سمجھا جاتا رہا ہے اور مشکل بھی۔ مگر آج ہماری خواتین ٹیکسی بھی چلا رہی ہیں، موبائل ریسٹورنٹ بھی اور ’’رن مرید‘‘ کے نام سے ڈھابے بھی۔

عورت کا کام کرنا کسی بھی طرح مرد کو نیچا دکھانا نہیں۔ ’میں فیمینسٹ ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں مرد سے محبت نہیں کرتی، اس کی عزت نہیں کرتی، میرا مطالبہ صرف عورت کےلیے برابری کے حقوق اور عزت کا ہے،‘ رخشندہ صاحبہ کی اس بات نے، جنہیں پاکستان کی پہلی کرنٹ افیئر پروگرام کی ہوسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کا مقام دل میں اور بھی بلند کر دیا۔ تصویر کے اس رخ کو بدلنا اب بہت ضروری ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ہر لڑکی کی کامیابی کی کہانی میں اس کا باپ پیچھے ضرور کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھائی، شوہر اور بیٹا جو آپ کو رشتوں کا احترام اور ان سے محبت دکھاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے دارالحکومت میں پہلا اسپا (Spa) بچوں کےلیے موجود ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس اسپا (Spa) کو فرح مگیس صاحبہ نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر بنایا ہے اور بہت کامیابی سے چلا بھی رہی ہیں۔

ایسی شاندار محافل کا انعقاد عورت کا نہ صرف عورت پر اعتماد بحال کرتا ہے بلکہ معاشرے کا بھی عورت پر اعتماد جڑ پکڑتا ہے۔

فیمینزم کو جس مفہوم میں لیا جا رہا ہے وہ بالکل بے سروپا ہے۔ عورت اور مرد مل کر ہی ایک بااختیار اور صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ہماری پچاس فیصد آبادی کا معاشی میدان میں قدم رکھنا معیشت کی گاڑی کو رواں دواں کرنے کےلیے بہت ضروری ہے۔ مرد اور عورت کے کام کے حوالے سے جو اعداد و شمار پچھلے پانچ سال میں تھے، الحمدللہ اب ان میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ حکومتی سطح پر بھی چھوٹے کاروبار کےلیے قرضہ بہ آسانی میسر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی و غیرملکی تنظیموں کی طرف سے اکثر و بیشتر ایسے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن سے اپنے فن کی بنیاد پر آپ بہ آسانی رقم جیت کر اپنے کاروبار کو فروغ دے سکتے ہیں۔

قابل تحسین ہے سینیٹ میں پیش کی گئی ’ڈے کیئر‘ سینٹر ز کے حوالے سے وہ قرارداد جس میں کم از کم پچیس لوگوں پر مشتمل اسٹاف کے ساتھ پبلک اور پرائیویٹ اداروں میں خواتین کی آسانی کےلیے ان کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور بحیثیت قوم ہماری ان ماؤں کے حوالے سے ذمہ داری بھی۔ تو ناامیدی کی جو فضا دھول اڑا کر بنائی جا رہی ہے، اس سے باہر نکل کر کچھ مثبت اقدام پر نگاہ ضرور ڈالیے۔

یہ سب خواتین جو کام کرنے میدان میں نکلی ہیں، ان میں سے کسی کا مقصد مرد کو نیچا دکھانا یا پیچھے چھوڑنا نہیں، بلکہ آپ سے عزت اور تحفظ کی طالب ہیں۔ میرا دعوی ہے کہ کسی بھی ورکنگ وومن سے پوچھ لیجیے، وہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنے باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے کو ضرور دے گی۔

عورت اب عروج کی طرف گامزن ہے۔ اسے صنفِ نازک کہنا چھوڑیئے۔ یہی صنفِ نازک بچہ پیدا کرتی ہے، اسے پروان چڑھاتی ہے، آفس بھی جاتی ہے اور کھیتوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ پیٹھ پر اپنے بچے کو لادے کام بھی کرتی ہے۔ یقین کیجیے یہی عورت اگلے کچھ سال میں پاکستان کی معیشت کو بھی مضبوط بنانے میں اپنا مکمل حصہ ڈالتی نظر آئے گی۔ جی ڈی پی بھی بہتر ہوگا اور معیارِ زندگی بھی۔

اسی ’صنفِ نازک‘ کےلیے لکھی اپنی ایک نظم پر تحریر کا اختتام کروں گی:

صنف نازک کہتے ہیں
جانے کیا کیا کہتے ہیں

گھر کی چار دیواری ہو
یا باہر دنیا ساری ہو

ہاتھ میں چھالے، روح زخمی
پھر بھی کب چپ رہتے ہیں

سندھ، پنجا ب خواہ ہو کوئی صوبہ
سب مقتل ہیں بخدا!

نام پہ عزت، غیرت کے
ظلم بڑا ہم سہتے ہیں

اے ابن آد م سوچ ذرا
ہم ہی ہیں ہوا کا وہ جھونکا
جو دشت بلا کی گرمی میں
ساتھ تمھارا دیتی ہیں

ہے وقت سحر امید بجا
خواب سجا اب طبل بجا

بیکارکے طعنوں تشنوں کے
بے شک دریا بہتے ہیں

صنف نازک کہتے ہیں
کہنے دو جو کہتے ہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سعدیہ مظہر

سعدیہ مظہر

سعدیہ مظہر صحافی اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف قومی جرائد میں انگریزی اور اردو میں لکھتی ہیں۔ ان کا ای میل [email protected] ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔