عید ملن پارٹی

اہلیہ محمد فیصل  منگل 25 جون 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

’’اس بار تو میں ایسی عید ملن پارٹی دوں گی  کہ مسز نجیب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔‘‘ مسز نور اپنی سہیلی علینہ سے یہ سب فون پر کہہ رہی تھیں۔

’’ہاں! اور وہ ڈریس کے بارے میں کیا سوچا، ڈریس زبردست ہونا چاہیے۔‘‘ علینہ نے مزید بڑھاوا دیا۔

’’وہ تو میں ایسے بوتیک سے آرڈر کر رہی ہوں جو سنگل پیس ہی بناتا ہے، پیسے زیادہ ہیں لیکن مسز نجیب کو نیچا بھی تو دکھانا ہے نا!‘‘ اور وہ ہنسنے لگیں۔

’’ باجی! عید کے دن قریب  ہیں، بچوں کے لیے کپڑے اور چھوٹی موٹی چیزوں کی ضرورت ہے، اگر آپ مجھے کچھ پیسے ایڈوانس دے دیں، تنخواہ میں سے، بچے بہت ضد کر رہے ہیں جی۔ ماسی نے التجائیہ لہجے میں مسز نور کے آگے اپنا مدعا رکھا۔

دیکھو سکینہ! تمہیں پتہ ہے کہ میری عید کی تیاری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی اور اس بار مجھے اپنی فرینڈز کی پارٹی بھی کرنی ہے، تم جانتی ہو میں کتنی مصروف ہوں اور تم میرا سر کھانے آجاتی ہو، تم کو میری بات سمجھ میں نہیں آتی کہ عید کے دنوں میں تنگ نہ کیا کرو ، پہلی آئے گی تو تمہیں تنخواہ مل جائے گی، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں تمہاری تنخواہیں  ایڈوانس دینے لگوں۔‘‘

مگر وہ باجی جی۔۔۔

اگر مگرکچھ نہیں، جاؤ کام کرو  اپنا۔۔۔

اور سکینہ اپنا سامنہ لے کر رہ گئی۔

’’اس بار عید ملن پارٹی فائیو اسٹار ہوٹل میں کیوں نہ رکھی جائے، علی اور اس کے دوست پروگرام بنا رہے تھے۔‘‘

’’مگر بہت مہنگا پڑے گا۔‘‘ یہ زیب کی آواز تھی۔

’’کوئی بات نہیں یار، اب سال میں میٹھی عید ایک دفعہ تو آتی ہے، اس میں بھی ہم تھوڑا خرچا نہ کریں کیا، تم ہمیشہ سے کنجوس رہے  ہو، علی نے زیب کو ٹہوکا دیا۔‘‘

’’صاب بھوکا ہوں، کچھ پیسے دے دو، روٹی لے کر کھاؤں گا۔‘‘ ایک فقیر علی کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔

’’ارے یار ذرا سا سگریٹ پھینکنے کے لیے کھڑکی کیا کھولی تم کھڑے ہو گئے آکر، سارا موڈ خراب کردیا۔‘‘ علی چڑ کر بولا۔

عید ملن کا اصل مقصد رشتہ داروں، دوست احباب کے ساتھ خوشیاں شیئر کرنا ہے۔ آپس میں میل ملاقات، تحفے تحائف کا تبادلہ اور عیدی وغیرہ اس تہوار کے رنگ ہیں۔ بچے ہلہ گلہ اور موج مستی کرتے ہیں، یہ تعلقات کی تجدید اور محبتوں کو پروان چڑھانے کا موقع ہوتا ہے۔ مصروفیات یا کسی اور وجہ سے جو لوگ مہینوں سے ایک دوسرے کے گھر نہیں گئے ہوتے ، عید پر خاص طور پر ملاقات کے لیے آتے ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں، گلے شکوے دور کرتے ہیں اور عید کو یادگار بناتے ہیں۔

چند دہائی قبل تک گھروں میں خاص پکوان اور اہتمام کیا جاتا تھا اور عید پر مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی۔ اصل مقصد اس تہورا پر اکٹھے ہونا اور ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرنا ہوتا تھا۔ یہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ سبھی اپنوں کے ساتھ وقت گزار کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے چند سال کے دوران عید ملن کو ہائی ٹی، باربی کیو کے نام پر گھر سے باہر مختلف مقامات اور ریستوراں میں منعقد کیا جارہا ہے جو مل بیٹھنے کا موقع تو دیتے ہیں لیکن یہ بے جا خرچ، نمود و نمائش اور دکھاوے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ عید کے خوش رنگ تہوار کی عظیم اور خوب صورت روایات کو بھی ہڑپ کر رہا ہے جس میں عزیز و اقارب ایک دوسرے کے گھر جاتے اور رونق کا سبب بنتے تھے۔

ایسی تقریبات کا اہتمام ہر ایک کے لیے ممکن نہیں اور یہ ہو بھی نہیں رہا، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ناسمجھ اور کم فہم لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ طور طریقے اپناتے ہیں جو ان کے لیے بوجھ اور مصیبت بن جاتے ہیں۔ پہلے یہ پارٹیز مخصوص طبقے کا مسئلہ تھیں، مگر اب متوسط گھرانوں میں بھی اس کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو مرعوب کرنے کے لیے عید ملن پارٹیز کا اہتمام کرنا ہمارے مادّہ پرست اور نمائشی ہونے کا ثبوت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مذہبی، اخلاقی اعتبار سے اسراف کسی طرح درست نہیں اور عیدین تو دراصل اپنے غریب اعزہ اور احباب کا خیال رکھنے اور ان سے قرب و تعلق بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ہمارا باہر اکٹھا ہونا اس خوشی کو ضایع کردیتا ہے جو گھر میں مہمان کے آنے پر ملتی ہے۔ سادگی اپنانے اور خود نمائی سے بچنا ضروری ہے جس میں خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ ہم ایک بار پھر عید کی خوشیوں کو اسی سادگی اور خلوص سے منائیں جو اس تہوار کا خاصا ہے اور اس طرح فضول خرچی سے بچا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔