پٹیل پارک سے نشتر پارک تک

مختار احمد  جمعـء 5 جولائی 2019
نشتر پارک کے جلسوں نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نشتر پارک کے جلسوں نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

باغات، پارک اور سبزہ زار عموماً تفریح کےلیے ہوتے ہیں، جہاں دن بھر کے تھکے ہارے ذہنی سکون حاصل کرنے یا پھر واک اور ورزش کےلیے آتے ہیں۔ جس طرح دنیا بھر میں تفریحات کےلیے باغات یا پارک کو لازم و ملزوم خیال کیا جاتا ہے، اسی طرح پاکستان بالخصوص کراچی میں بھی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے باغات اور پارکس تعمیر کیے گئے۔ جہاں تک کراچی میں باغات لگانے اور پارکس قائم کرنے کا تعلق ہے تو اس کی ابتدا تالپور دور میں ہی ہوگئی تھی۔

تالپوروں نے سب سے پہلے ماضی کی اس لیاری ندی، جو کہ صاف و شفاف ہوا کرتی تھی اور آج گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہوچکی ہے، کے کنارے انواع و اقسام کے پھلوں، پھولوں کے پیڑ، پودے اور درخت لگائے، جو کہ دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث تباہی کا شکار ہوگئے۔ جس پر انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد اس جانب سب سے پہلے توجہ دیتے ہوئے گارڈن کے علاقے میں وکٹوریہ گارڈن کے نام سے ایک باغ لگایا، جسے آج کراچی چڑیا گھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دور میں برنس گارڈن، فریئر گارڈن اور جہانگیر پارک وجود میں آئے۔ پہلے یہاں صرف انگریز فوجیوں کے خاندانوں کی رسائی رہی اور پھر مقامی لوگوں کو بھی تفریحی سہولیات کی اجازت فراہم کردی گئی۔ نشتر پارک کا قیام بھی مورخین کے مطابق اسی دور میں عمل میں آیا۔

یہ کراچی کا ایک ایسا پارک ہے جہاں ماضی میں انگریز فوجیوں کو پریڈ کرائی جاتی تھی۔ یہ پارک سولجر بازار کے وسط میں پارسی کالونی میں واقع تھا۔ اس کے چاروں طرف پارسی برادری کے تعلیم یافتہ اور نفیس لوگ رہا کرتے تھے، جنہوں نے انگریزوں سے کرکٹ کا کھیل سیکھنے کے بعد خود کرکٹ کھیلنا شروع کردی تھی، لہٰذا یہاں بڑے پیمانے پر نہ صرف کرکٹ کھیلی جاتی تھی بلکہ اس پارک کے اندر ماضی میں فرسٹ کلاس میچز بھی کھیلے جاتے رہے۔

لیکن اس کے بعد گویا یہ پارک اجڑ سا گیا اور یہاں نام کو ہریالی نہیں رہی۔ مگر اس اجڑے پارک نے ملک کی سیاست میں نہ صرف کئی سیاسی تواریخ رقم کیں، بلکہ انقلاب برپا کیے۔ اس کے بعد سے یہ پارک لندن کے اس ہائیڈ پارک کی طرح بن گیا، جہاں بولنے کی آزادی ہو۔ اسی لیے یہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے جلسے منعقد ہوتے رہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ اس پارک میں کئی سیاسی پارٹیوں کا جنم ہوا، تو بے جا نہ ہوگا۔ حکومتیں گرانے کےلیے کئی اتحاد قائم ہوئے۔

اسی پارک میں کرکٹ کے کھلاڑی آپس میں دست و گریباں ہوئے اور یہاں تک کہ کرکٹ کی ایک ٹیم نے دوسری ٹیم کے کھلاڑی کو ہلاک کردیا۔ اسی جگہ سیاسی کارکنوں پر لاٹھی چارج ہوا، بلکہ گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ اسی جگہ میلاد مصطفیٰ کانفرنس میں خودکش دھماکا بھی ہوا، جس کے نتیجے میں 60 سے زائد افراد شہید اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔

یہی وہ پارک ہے جہاں ہر سال یوم عاشور کے موقع پر مجلس عزا بپا ہوتی ہے۔ عاشور کا مرکزی جلوس بھی یہیں سے برآمد ہوتا ہے۔ اسی طرح ربیع الاول کے موقع پر شہر بھر کے تمام جلوس اس پارک کا رخ کرتے ہیں۔جہاں ہر سال پابندی کے ساتھ میلاد مصطفیٰ کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔

نشتر پارک کراچی جو کہ انگریزوں کے دور میں قائم ہوا، وہاں چند پرانی پتھروں کی رہائش گاہیں اور اس کے کونے میں انگریز فوجیوں کے بیٹھنے کےلیے بنائی گئی جگہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اور اب یہ صرف ایک میدان کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے اطراف میں ماضی میں پارسیوں کے بنگلوں کی جگہ فلیٹوں نے لے لی ہے، جبکہ سندھ کے قوم پرست لیڈر جی ایم سید کی رہائش گاہ حیدر منزل اب تک موجود ہے۔ اس کے علاوہ 1935 اور اس سے قبل تعمیر کی گئی پتھر کی چند عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔

ان سب عوامل کے باوجود اکثریت کو آج کے نشتر پارک کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ یہ پارک ماضی میں کانگریس کے ایک لیڈر ولبھ بھائی پٹیل (جن کے نام سے پٹیل پاڑہ بھی منسوب ہے) کے نام پر بنایا گیا تھا۔ اس وقت یہ پارک کراچی کی سب سے پوش آبادی پارسی کالونی میں موجود تھا، لہٰذا ابتدا میں جمشید کوارٹرز کے درمیان اس پارک کے اندر قرب و جوار کے لوگ تفریح کےلیے آتے تھے۔ اس وقت تک یہ پارک سرسبز و شاداب تھا۔ جہاں دوسری قومیتوں اور مذاہب کے نمائندے باقاعدہ طور پر تقریبات منعقد کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل تک اسے پٹیل پارک کے نام سے ہی جانا جاتا تھا مگر جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (نیشنل گارڈ) کے مطالبے پر اس پارک کا نام تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما اور سابق گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ اس پارک میں ملک کی سیاست کے حوالے سے بڑے بڑے جرأت مندانہ فیصلے کیے گئے، جو کہ ایک تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

نشتر پارک شاید ملک کا وہ واحد پارک ہے جس نے ملک کی سیاست میں نہ صرف ہلچل پیدا کی، بلکہ اسی پارک سے کئی حکومتوں کے گرانے اور بنانے کے فیصلے بھی ہوئے۔ اسی پارک میں ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ ان کا خاتمہ بالخیر بھی ہوا۔ سب سے پہلے 1964 میں جب ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اسی پارک سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ جبکہ ماضی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمٰن، مولانا مودودی، مولانا بھاشانی، مولانا مفتی محمود، نواب زادہ نصراللہ خان، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا شاہ تراب الحق سمیت بڑے بڑے رہنمائوں نے یہاں بڑے بڑے جلسے کیے اور اس پارک کے اندر ملک کی سیاست کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے۔ جن میں بنگالی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائی کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بننے والا قومی اتحاد جسے 7 پارٹیوں کے اتحاد کے سبب 7 ستارے کہا جاتا تھا، نے بھی اسی مقام سے تحریک کا آغاز کیا۔

مجھے بھی بحیثیت سیاسی طالب علم نشتر پارک میں ہونے والے کئی واقعات کے مشاہدے کا موقع ملا۔ جس میں سب سے پہلے میں نے 8 اگست 1986 کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مہاجر قومی موومنٹ کے نام پر تبدیلی ہونے کے حوالے سے ایم کیو ایم کا جلسہ دیکھا۔ اس سے ایک روز قبل شہر میں موسلادھار بارشیں شروع ہوگئی تھیں، جو کہ 8اگست کو بھی مسلسل برستی رہی۔ ایم کیو ایم کے کارکنان بالٹیوں اور دیگچیوں سے جمع ہونے والے پانی کو پارک سے باہر نکال کر پھینک رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ شاید بارش کے باعث یہ جلسہ منسوخ کردیا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور مہاجر قومی موومنٹ کی پوری کابینہ جلسے سے پہلے ہی جلسہ گاہ پہنچ گئی۔ نشتر پارک کے میدان میں عوام کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ ایسے میں متحدہ کے بانی، جو بارش کے پانی سے شرابور تھے، نے مہاجر قوم کے حق میں نعرے لگوائے۔ اس روزنشتر پارک تو کیا، اس کے اطراف کی تمام سڑکیں، یہاں تک کہ نمائش تک عوام کا جم غفیر تھا، جو کہ بارش کے باوجود گھر جانے پر تیار نہیں تھا۔ اس روز متحدہ کے بانی نے پہلی بار مہاجر قوم کے اتحاد کو ثابت کرنے کےلیے ’’ون، ٹو، تھری‘‘ کا نعرہ لگایا اور ان کے اس نعرے پر مجمعے میں ایسی خاموشی چھاگئی، جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔

اس کے بعد اسی پارک میں متحدہ قومی موومنٹ کے بھی جلسے منعقد ہوئے اور تمام قوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ جب 22 اگست 2016 کو متحدہ کے بانی نے پاکستان کے خلاف زہرافشانی کی تو متحدہ (پاکستان) کی بنیاد رکھنے والے ڈاکٹر فاروق ستار و دیگر رہنماؤں نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاجر قوت اسی پارک میں بنی تھی اور اسی پارک کے اندر اس کا خاتمہ بالخیر ہوا۔

اسی پارک میں پیپلز پارٹی کا ہونے والا وہ جلسہ بھی مجھے یاد ہے جس میں پیپلز پارٹی (شہیدبھٹو) کے کارکنان اسٹیج پر قابض ہوگئے تھے اور پارٹی کے تمام قائدین بے نظیر بھٹو کو بذریعہ فون اس بات کا مشورہ دے رہے تھے کہ وہ جلسہ گاہ نہیں آئیں، کیونکہ یہاں قبضہ ہوچکا ہے۔ مگر ان کی جرأت مندی کو سلام کہ وہ اور بیگم نصرت بھٹو اس بات کی پروا کیے بغیر نہ صرف جلسہ گاہ پہنچیں بلکہ جب انہوں نے اسٹیج پر جانے کےلیے ان سیڑھیوں پر قدم رکھا جس پر شہید بھٹو کے کارکنان قابض ہوچکے تھے، جیسے جیسے وہ سیڑھیاں عبور کرتی رہیں کارکنان چھٹتے رہے اور یہاں تک کہ وہ ڈائس پر پہنچ گئیں اور تمام چیزوں کی پروا کیے بغیر دھواں دھار خطاب شروع کردیا۔ ایک عرصے تک پیپلز پارٹی کے کارکن محترمہ کی اس جرأت مندی اور بہادری کی مثال پیش کرتے رہے۔

اسی پارک میں مجھے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی اور قومی اتحاد کے اکابرین سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کے جلسوں کے مشاہدے کا بھی موقع ملا، جو ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ مگر اب کراچی کے اس ہائیڈ پارک کو شاید کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اب یہاں سیاسی جلسے تو نہیں ہوتے بلکہ یہ میدان نما پارک مجالس محرم اور میلاد مصطفیٰ کےلیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ صرف محرم یا ربیع الاول کے مہینے میں یہاں کچھ سرگرمیاں ہوتی نظر آتی ہیں، ورنہ اطراف میں رہنے والے بچے کرکٹ اور فٹ بال کھیل رہے ہوتے ہیں۔

عوام کی سہولت کےلیے بنائی گئی سردار عبدالرب نشتر لائبریری، جہاں کتابوں کا فقدان ہے، لوگوں کی انتہائی کم تعداد مطالعے کےلیے آتی ہے۔ حیرت انگیر امر یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد سے لے کر اب تک کی مکمل سیاسی تاریخ رکھنے والے اس پارک کو محکمہ آثار قدیمہ نے ہیریٹج میں شامل نہیں کیا ہے۔ جس کے باعث یہ دن بہ دن تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر کراچی کے اس ہائیڈ پارک کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مکمل تاریخ کو لائبریری کی زینت بنایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔