نیا پاکستان اورفرسودہ نظام ِ سیاست

عبدالرحمان منگریو  اتوار 7 جولائی 2019

ہمارے پاکستان کے ستارے بھی ہمیشہ گردش میں رہے ہیں ۔ استحکام اور مستقل خوشحالی کی تو اس نے کبھی جھلک بھی نہیں دیکھی ۔ کبھی بیرونی خطرات میں گھرا رہا تو کبھی اندرونی سازشوں کا شکار رہا ہے ۔

مطلب یہ کہ ملکی سالمیت اور قومی اتحاد پر ہمیشہ غیر یقینی کی تلوار لٹکتی رہی ہے ۔ جس کی وجوہات میں معاشی عدم استحکام اور انتظامی نااہلی و لاپرواہی بھی شامل ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ یہاں کا فرسودہ نظام ِ سیاست ہے ۔ جس میں ملکی اقتدار کا دائمی و عارضی حصول ہی تمام طرفین کی منزل ِ مقصود نظر آتا ہے اور اُس تک پہنچنے کی بنیادی ضرورت ملک و ملت کی خدمت و ترقی و تعمیر نہیں بلکہ ذاتی و گروہی مفادات کا حصول اور تحفظ رہا ہے ۔

ویسے تو اِس مملکت ِ خداداد کے نام میں اسلام اور جمہوریت دونوں ہی شامل ہیں لیکن عملی طور پر اس ملک میں نہ تو اسلام کا بنیادی فلسفہ امن و سلامتی نظر آتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کے اولین اُصول- ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کی مخالف رائے کو برداشت کرنے کے جمہوری رویے نظر آتے ہیں ۔ وطن ِ عزیز کے قیام کے روز ِ اول سے اختلافِ رائے پر آمرانہ روش اختیار کی گئی ہے ۔ جس کے تحت یہاں اقتدار میں آنے کے بعد مخالفین کو کچلنے یا پھر انھیں خرید کر اپنے ساتھ ملانا ہی اقتدار کی مضبوطی کی علامت سمجھا گیا ہے ۔

حالانکہ 70سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ باوجود ایک دوسرے کو کچلنے کے کسی بھی جمہوری حکومت نے اپنا آئینی دورانیہ پورا نہیں کیا بلکہ مسند نشینی ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہی ہے ۔ جب کہ ان رویوں کی وجہ سے آمریت مضبوط ہوتی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں منتخب حکومتیں تو اپنی 5سالہ آئینی مدت بھی پوری نہیں کرپاتیں لیکن مارشل لا کے تحت قائم غیر جمہوری حکومتیں من چاہے طویل عرصہ تک مسند نشین رہ لیتی ہیں ۔

اداروں سے لے کر انفرادی سطح تک آج پاکستان کی اکثریت آمرانہ طرز عمل کی باسی نظر آتی ہے ۔ جس وجہ سے ہر فرد ، گروہ ، جماعت اور ادارہ خود کو درست ، اہل اور محب ِ وطن سمجھتا ہے جب کہ باقی تمام افراد ، گروہ ، جماعتیں اور ادارے اُنہیں غلط ، نااہل اور غدار نظر آتے ہیں ۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان بنانے کی قانونی بنیاد فراہم کرنے والا جی ایم سید بھی غدار ٹھہرا تو ملک کے پہلے ڈکٹیٹر کو للکارنے والی بانی ِ پاکستان کی ہمشیرہ و مادر ِ ملت فاطمہ جناح بھی غدار قرار پائی۔ پھر ایک طرف مجیب شیخ اور بھٹو خاندان اسی انفرادی و اداراتی آمریت کا نشانہ بنے تو دوسری طرف عوامی لیگ، پی پی پی اور چھوٹے صوبے گروہی و قومی آمریت کے نشانے پر رہے ۔

یہ تو تھی ملک پر دائمی طور پر براہ ِ راست قابض رہنے والی مقتدر قوتوں کی روش ، لیکن اس ملک میں سب سے زیادہ بھیانک صورتحال اُس سیاسی و جماعتی آمریت کی روش کی وجہ سے رہی ہے، جو نیم جمہوری آمریت کے طور پر ملک کی مسند نشین رہی ہیں ۔ اپنی کمزور جمہوری روایات کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے وجود کو اور ایک دوسرے کی رائے کو نہ تو برداشت کرتی ہیں اور نہ ہی اِس لولے لنگڑے جمہوری سیٹ اپ میں ایک دوسرے کا کوئی کردار دیکھنا چاہتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اقتداری پاور میں آنے کے بعد مخالف جماعتوں کے وجود کے درپے ہوجاتی ہیں ۔

ویسے تو اُنہیں تمام حزب ِ اختلاف ہی بدعنوان اور قومی غدار نظر آتے ہیں لیکن اپنی عددی اکثریت پوری کرنے کے لیے اُنہی میں سے کچھ افراد یا ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے وہ’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘اور’’ لوٹا کریسی ‘‘ جیسی غیر سیاسی و غیر اصطلاحی حرکات پر مبنی فرسودہ پالیسی پر اُتر آتی ہیں اور پھر ان کی طرف آنیوالے افراد یا ارکان پاک و صاف اور ملک و ملت کی ترقی کے لیے اہم بن جاتے ہیں ۔

یوں تو لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کا یہ کاروبار ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے چل رہا ہے بلکہ کامیابی سے چل رہا ہے ۔ اس کاروباری نظام کا کمال یہ ہے کہ کسی بھی تانگہ پارٹی کو ملک کی بڑی اور اکثریتی جماعت بناکر اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے کا اہل بناتا ہے لیکن یہ نظام 1990میں جام صادق کے دور میں بڑے پیمانے پر پھیلتا نظر آیا تھا۔ یہ اسی کی بدولت تھاکہ کوئی بھی نشست نہ ہونے کے باوجود جام صادق سندھ اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے اپنی اکثریت ثابت کرتے نظر آئے ،پھر آئی جے آئی بنانا ہو یا ق لیگ یہی لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کی ہی بدولت ممکن ہوسکتا تھا اور ممکن ہوا بھی بلکہ کامیابی سے چلا بھی۔

آج کے حکومتی سیٹ اپ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ حکومتی جماعت پی ٹی آئی میں اکثریت ایسے ہی افراد کی ہے جو ماضی میں ہر حکومتی سیٹ اپ میں شامل رہے ہیں ۔ کبھی پی پی پی تو کبھی ن لیگ مطلب یہ کہ ہارس ٹریڈنگ کے یہ ’’ہارس ‘‘ ہر دور میں اپنا شہ سوار تبدیل کرلیتے ہیں لیکن میدان ِ اقتدار میں برابر موجود رہتے ہیں ۔ اس ہارس ٹریڈنگ والے فرسودہ نظام کی عجیب بات یہ ہے کہ ہر دور میں حزب اختلاف میں رہنے والی جماعتیں اس نظام کا شکار ہوتی رہی ہیں لیکن پھر وہی جماعتیں حزب اقتدار کا حصہ بننے کے بعد اس کاروبار میں خود بھی خرید و فروخت کرتی نظر آتی ہیں ۔ یہ کاروبار ملک میں پہلے سے کمزور جمہوریت کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہے ، کیونکہ یہ کاروبار جمہوری اُصولوں اور رویوں کو ختم کرکے اُن کی جگہ موقع پرستی اور بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے ۔ جس وجہ سے جمہوری قوتوں کی کردار کشی ہوتی ہے اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہیں ۔

2018کے انتخابات سے قبل ایسی ہی بدعنوانیوں کے خلاف پی ٹی آئی نے محاذ شروع کرکے ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا ۔ تاثر یہ دیا جانے لگا کہ 70سالہ خرابیوں کو دور کرکے ملکی سیاسی نظام میں استحکام اور شفافیت پر مبنی ’’نیا پاکستان ‘‘ بنایا جائے گا۔ 70سال سے آمریتی و نیم آمریتی اور نیم جمہوری حکمرانوں کی جتنی کوتاہیاں ، لاپرواہیاں اور کم ظرفیاں و خرابیاں تھیں ، پی ٹی آئی نے اُن سب پر آواز اٹھائی اور نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ اس کی تبدیلی کے لیے کنٹینروں کے ذریعے ملکی نظام کو جام کردیا ۔ جس وجہ سے عوام میں پھر یہ اُمنگ اور یقین پیدا ہوگیا کہ اس بار ملک نہ صرف حقیقی جمہوری راہ پر گامزن ہوگا بلکہ ملک و ملت کی ترقی کی نئی اور مثبت راہیں بھی کھلیں گی۔

لیکن آج پی ٹی آئی کے اقتدار کو تقریباً ایک سال گذرنے کے بعد کی صورتحال اس امید پر پانی پھیرتے اور اُس یقین کو توڑتے بلکہ پامال کرتی نظر آتی ہے ۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوکر عوام بُو ، عوام بُو کی صدائیں لگاتا ہوا عوام کو نگلنے کے لیے بے چین گھوم رہا ہے ،تو دوسری طرف اقتداری طرز عمل بھی کسی تبدیلی کا پتا نہیں دے رہا بلکہ تبدیلی سرکار کی طرز ِ حکمرانی بھی نئے پاکستان کے سہانے سپنے کی تعبیر نہیں بلکہ ڈراؤنے خواب کی تلخ و بھیانک تعبیر بن کر سامنے آئی ہے ۔

لوگ نئے پاکستان میں ایک طرف اپنے ہونٹوں سے نوالہ تک چِھن جاتے دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف وہی بدعنوانی پر مبنی فرسودہ سیاسی و جمہوری نظام کو مزید قوت کے ساتھ فعال ہوتے دیکھ کر اُن کے من میں یہ انومان اور سوال گردش کررہے ہیں کہ آخر نئے پاکستان میں جام صادق والا 30سالہ پرانا و فرسودہ نظام ِ سیاست کیوں ؟ کہیں تبدیلی کی یہ تیز سفیدی کڑی دھوپ کی لُو بن کر اُن پرمحض معاشی اور سیاسی ہیٹ اسٹروک حملہ کے لیے تو نہیں ؟ لوک فہم پر مبنی عوام کی روح اِس صورتحال میں حکومت کو سندھ کے ایک صوفی بزرگ ’’قادر بخش بیدل ؒ ‘‘ کے اس شعر کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں :

من میلا ، تن اُجلا ، ہے کبڈی رنگ ،

اچھا بے چارہ کَولا ، اندر باہر ایک ہی رنگ!

دنیا کے دیگر ممالک میں حزب اختلاف کو ملکی ترقی و تعمیر میں شریک رکھنے کے لیے شیڈو گورنمنٹ کا طریقہ رائج ہے ، جس کے تحت حزب اختلاف بھی عین حکومت کی طرز پر اپنی شیڈوکابینہ بناتی ہے، جس میں وزیر اعظم سمیت تمام محکموں کے شیڈو وزراء ہوتے ہیں ، بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اُن کے پاس قانون و اقدامات نافذ کرنے کے لیے Counter Sign کے اختیارات نہیں ہوتے ، لیکن باقی تمام اُمور اُن کی دسترس میں ہوتے ہیں ۔ جس وجہ سے ایک تو ملک میں شفافیت کا نظام قائم رہتا ہے دوسرا یہ کہ حزب اختلاف کی حکومتی اُمور میں تربیت بھی ہوتی رہتی ہے جوکہ اقتدار میں آنے کے بعد ملکی اُمور کو بہتر طور پر سرانجام دینے کے اہل ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے یہاں حزب اختلاف کو ملک کا ناپسندیدہ جُز یا بیکار عُضو قرار دیکر کاٹ پھینکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

سندھ حکومت کو گرانے کی مسلسل کوششیں پی ٹی آئی کی اسی غیر جمہوری و عدم برداشت والی روش کا واضح پتہ دیتی ہیں ۔اب تک کی اطلاعات اور حکومتی دعوؤں کے مطابق حزب اختلاف کے 31ارکان اسمبلی کے حکومت سے معاملات چل رہے ہیں جب کہ کئی ارکان کو گھیرنے کے لیے بھی کوششیں بلکہ کارروائیاں ہورہی ہیں ۔ کسی کو دھونس تو کسی کو ڈھیلا دکھایا جارہا ہے ۔ مطلب یہ کہ خوف و لالچ کا کاروبار عروج پر ہے ۔ جس میں سب سے مضحکہ خیز واقعہ رانا ثناء اللہ کا ہے کہ ملک کے سب بڑے صوبے کا وزیر داخلہ رہنے والا شخص اور ملک کی قدآور سیاسی شخصیت کے حامل منتخب عوامی نمائندے کو جکڑا بھی گیا تو منشیات کے کیس میں اور بڑی بات ہے کہ موقع پر منشیات کی برآمدگی بھی دکھائی گئی ہے ، حالانکہ آج تک تو ہماری پولیس منشیات کے اڈوں پر مارے گئے کسی چھاپے میں بھی اتنی منشیات برآمد نہیں کرپائی ہے ۔ عوام یہ سوال کرنے پر بھی حق بجانب ہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں رہنے کے دوران کرپٹ ارکان ِ اسمبلی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل ہونے کے بعد کیسے دودھ سے دُھلے بن جاتے ہیں ؟ کیا وہ سابقہ جماعتوں میں ملک و عوام دشمن اور پی ٹی آئی میں آنے سے ملک و عوام دوست بن جاتے ہیں ؟

مسلم لیگ و پی پی پی کی قیادت کی دھڑا دھڑ گرفتاریاں ، اُن کی کردار کشی پر مبنی مہم اورپراڈکشن آرڈر سمیت اُن کو میسر دیگرآئینی و قانونی حقوق و سہولیات کو انتقامی طور پر ختم کرنے کے لیے ملکی قوانین میں ترامیم ذاتیات و ذاتی خواہشات کا ایسا عجیب طرز عمل ہے ، ذاتی خواہشات کو قانون نہیں بنانا چاہیے بلکہ قوانین ایسے ہونے چاہئیں جو ملک کے لیے مجموعی طور پر فائدہ مند و انسانی حقوق کے تحفظ کے تمام لوازمات پورے کرتے ہوں ۔پھر دیکھا جائے تو آصف زرداری ملک کے سابقہ صدر اور ملک کی ایک بڑی عوامی جماعت کے سربراہ و قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں ۔ اس لیے عوام یہ سوال اٹھانے پر بھی حق بجانب ہیں کہ اگر اقتدار پر غیر آئینی و غیر جمہوری طریقے سے قبضہ کرنے والے غیر منتخب سابقہ صدر کو ملکی قانون میں تمام سہولیات میسر ہیں تو پھر ایک منتخب سابقہ صدر کو وہ سہولیات و حقوق کیوں میسر نہیں ؟ اگر غداری کے مقدمے میں لگائے گئے الزامات پر مشرف کو انٹرویو دینے کا حق ہے تو پھر محض کرپشن کے الزامات کے مقدمات کی بناء پر آصف زرداری کو انٹرویو دینے کا حق کیوں نہیں ؟ اور کیوں اُن کا انٹرویو آدھے میں روک کر نہ صرف صدارتی عہدے کی تضحیک کی گئی بلکہ میڈیا کی آزادی کو بھی مذاق بنادیا گیا ۔

موجودہ حکومت کی سابقہ حکمرانوں کے خلاف کارروائیاں اب احتساب کے دائرہ سے نکل کر انتقام کی حدود میں داخل ہوگئی ہیں ۔ جس کے لیے صرف حزب اختلاف سے آوازیں نہیں اُٹھ رہیں بلکہ ملکی عدلیہ کو بھی یہ محسوس ہورہا ہے ۔ ایک کیس میں ایک جج نے وفاقی حکومت پر بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ’’ حکومت سے ٹی وی پر تقریر کرانی ہو تو کرالو مگر یہ کام نہیں کرے گی ‘‘ ۔اِن ریمارکس نے خود حکومت کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ جہاں تک بات ہے اثاثوں کی تو موجودہ اسٹیٹسکو کے غیر منصفانہ عوامل کو ثابت کرنے کے لیے صرف ایک ہی بات کافی ہے کہ عمران خان کی بنی گالہ کی کروڑوں روپے کی 6کنال 16مرلہ زمینی جائیداد کو صرف 50لاکھ کا بتایا گیا ہے اور الیکشن کمیشن سے لے کر FBRتک تمام اداروں نے اُس پر ’’آمَنا صدقنا‘‘ بھی کرلیا ہے ۔

ملکی سیاسی تجزیہ کار اس ہارس ٹریڈنگ کو تشویشی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک طرف موجودہ ملکی داخلی حالات میں شدید عدم استحکام ہے تو دوسری طرف عالمی قوتوں کا بھی خطے میں مفاداتی کھیل عروج پر ہے ، پھر معاشی کشیدہ صورتحال اور ایسے میں ارکان کی خرید و فروخت کا یہ کاروبار ملک میں سیاسی بھونچال پیدا کرکے عدم استحکام میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ایسی صورتحال پر آخر عوامی رد عمل ظاہر ہونا شروع ہوگا جس پرحکومت کا قابو پانا مشکل ہوگا اور یہ صورتحال ملک و ملت کی سالمیت اور ترقی و تعمیر کے لیے کسی صورت اچھی نہیں ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔