- ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کیلئے قومی ٹیم کی نئی کِٹ کی رونمائی
- نازک حصے پر کرکٹ کی گیند لگنے سے 11 سالہ لڑکا ہلاک
- کے پی وزرا کو کرایے کی مد میں 2 لاکھ روپے ماہانہ کرایہ دینے کی منظوری
- چینی صدر کا 5 سال بعد یورپی ممالک کا دورہ؛ شراکت داری کی نئی صف بندی
- ججز کا ڈیٹا لیک کرنے والے سرکاری اہلکاروں کیخلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دائر
- کراچی میں ہر قسم کی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا فیصلہ
- سندھ ؛ رواں مالی سال کے 10 ماہ میں ترقیاتی بجٹ کا 34 فیصد خرچ ہوسکا
- پنجاب کے اسکولوں میں 16 مئی کو اسٹوڈنٹس کونسل انتخابات کا اعلان
- حکومت کا سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے عبوری فیصلے پر تحفظات کا اظہار
- طعنوں سے تنگ آکر ماں نے گونگے بیٹے کو مگرمچھوں کی نہر میں پھینک دیا
- سندھ میں آم کے باغات میں بیماری پھیل گئی
- امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات، قانون کی حکمرانی پر گفتگو
- کراچی میں اسٹریٹ کرائم کیلیے آن لائن اسلحہ فراہم کرنے والا گینگ گرفتار
- کراچی میں شہریوں کے تشدد سے 2 ڈکیت ہلاک، ایک شدید زخمی
- صدر ممکت سرکاری دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے
- عوامی مقامات پر لگے چارجنگ اسٹیشنز سے ہوشیار رہیں
- روزمرہ معمولات میں تنہائی کے چند لمحات ذہنی صحت کیلئے ضروری
- برازیلین سپرمین کی سوشل میڈیا پر دھوم
- سعودی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے ایک شخص ہلاک؛ 95 کی حالت غیر
- وقاص اکرم کی چیئرمین پی اے سی نامزدگی پر شیر افضل مروت برہم
پاکستان میں سالانہ 60 ہزار بچے عارضہ قلب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، ڈاکٹر نجمہ پٹیل
کراچی: پاکستان میں بچوں کے امراضِ قلب کی ممتاز سرجن اور ماہر ڈاکٹر نجمہ پٹیل نے کہا ہے کہ ملک میں ہر سال 60 ہزار بچے کسی نہ کسی عارضہ قلب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں دوسری جانب بلوچستان میں دل کے مریض بچوں کے لیے کوئی ادارہ ہی موجود نہیں۔
یہ بات قومی ادارہ برائے امراضِ قلب میں شعبہ اطفال کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نجمہ پٹیل نے بدھ کو ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیو لر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) جامعہ کراچی کے سیمینار روم میں 50 ویں عوامی آگاہی پروگرام کے تحت ”پاکستان میں بچوں کے امراضِ قلب کے علاج کی صورتِ حال“ کے موضوع پراپنے خطاب کے دوران کہی۔
لیکچر کا انعقاد ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیو لر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) اور ورچؤل ایجوکیشنل پروگرام برائے پاکستان کے باہمی تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر نجمہ پٹیل نے بتایا کہ قلبی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے 25 فیصد بچوں کو سرجری درکار ہوتی ہے۔ صوبہ بلوچستان اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ وہاں عارضہ قلب کے شکار بچوں کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں۔
بدھ کے روز پی سی ایم ڈی کے تحت پچاسویں عوامی آگہی پروگرام کے تحت ’پاکستانی بچوں میں امراضِ قلب کی صورتِ حال‘ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں میں امراضِ قلب (چائلڈ کارڈیالوجی) کا شعبہ بہت وسیع اور خاص ہوتا ہے، ایسے بچوں کے لیے معالج، سرجن اور انتہائی نگہداشت کے عملہ انتہائی ماہر ہونا چاہیے۔
ایسے مریضوں کی تعداد اور کیفیت کے متعلق ڈاکٹر نجمہ نے کہا کہ 30 ہزار بچوں میں دیگر امراضِ قلب جیسے عضلات قلب میں ورم وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں، پاکستان میں ہر سال 35 ہزار بچے امراضِ قلب کے اسپتال کے شعبہِ اطفال میں لائے جاتے ہیں جبکہ دیگر بچوں کی مرض کی تشخیص نہیں ہوپاتی ہو اور وہ مرجاتے ہیں یہاں تک کہ اچھے ہسپتالوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔
امراضِ قلب کے شکار بچوں میں زیادہ تعداد اُن کی ہے جن کا تشخیص کے بعد علاج ممکن ہے، 2018 ء میں صرف قومی ادارہ برائے امراضِ قلب میں ایک لاکھ بچے دل کے امراض کی شکایت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا اس مرض کے علاج کے لیے ملک میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور دوسری طرف اس عنوان سے آگاہی کا بھی فقدان ہے، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب اپنی نوعیت کا پاکستان میں سب سے پہلا ادارہ ہے جہاں 1974ء سے امراضِ قلب کے تحت آپریشن کیے جارہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا بین الاقوامی معیار کے تحت ملک میں 250 بچوں کے ماہرِ قلب اور 150 سرجن کی ضرورت ہے جبکہ اس ضرورت کے برعکس صرف 35 ماہرِقلب اور 16 سرجن موجود ہیں، ملک میں ہر سال 22 ہزار آپریشن کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن صرف 4ہزار آپریشن ہی ہوپاتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔