سانحہ پشاور: مسیحیوں کو نشانہ بنانا مذہبی منافرت کی نئی کشمکش کو ہوا دینے کی کوشش

پاکستان دشمن قوتیں امن کے موہوم سے امکان کی  لَو بھی گُل کردینا چاہتی ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان دشمن قوتیں امن کے موہوم سے امکان کی لَو بھی گُل کردینا چاہتی ہیں۔ فوٹو: فائل

کوہاٹی گیٹ(پشاور) کے گرجاگھر میں ہونے والے سانحہ کے بارے میں صوبہ خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت کے سربراہ عمران خان نے بالکل درست کہاکہ اس واقعہ میں ملوث لوگ انسان نہیں ہیں۔

وہ اسلام آباد میں اپنی پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں تھے جب انھیں اس واقعے کی خبرملی، وہ اپنی جماعت کے دیگرذمہ داران سمیت فی الفور پشاور پہنچے۔ان کاکہنا تھا کہ وہ آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والے ملک دشمنوں کی ہرسازش ناکام بنائیں گے۔

اس دلخراش واقعہ پر پوری پاکستانی قوم مغموم اور دل گرفتہ ہے۔حکومت اور حزب اختلاف کی تمام جماعتیں مسیحیوں کے درد کو اپنے سینے میں محسوس کررہی ہیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے ’جو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے امریکا روانہ ہوچکے تھے، وفاقی وزیرداخلہ کو فی الفور پشاور پہنچنے کا حکم دیا، انھوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو ہرطرح سے مدد کی پیشکش کی، پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے بھی وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو فون کیا، ڈاکٹرز اور نرسوں کی خدمات پیش کیں۔ مسلم لیگ (ن) ہی کے رہنما اور وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ پشاورگرجاگھر پر وحشیانہ حملہ حکومت کے مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، ان کے بقول وزیراعظم نوازشریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر چرچ پر حملہ پاکستان کو دنیا میں شرمندہ کرنے کی سازش ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، جماعت الدعوۃ،جمعیت علمائے اسلام ، اے این پی، ایم کیوایم سمیت پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اس واقعے کی کھلے الفاظ میں شدید مذمت کی ہے، کوئی جماعت اور گروہ ایسا نہیں ہے جس نے اس موقع پر آنسو نہیں بہائے، سب نے مسیحی برادری کے زخموں پر مرہم رکھا۔انھوں نے اس واقعے کو بھی امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش قراردیا۔

ایک عام فرد کی ہلاکت بھی بڑا واقعہ ہوتا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک فرد کی ہلاکت پوری انسانیت کی ہلاکت ہوتی ہے، اسلام آباد میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے بعد ہونے والے دہشت گردی کے دو واقعات اس اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ اس سے امن عمل لرز کے رہ گیا ہے۔دیر میں افغان سرحد کے قریب ایک بارودی سرنگ سے گاڑی ٹکرانے کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے میجرجنرل ثنااللہ نیازی جو جی او سی سوات تھے ، لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان کی شہادت کا واقعہ اس قدر بڑا تھا کہ اس کے بعد امن عمل کے لئے ہونے والی کوششیں کچھ دیر کے لئے رک گئیں۔

اس واقعہ کے فوراً بعد ایسے مطالبات اور تجزیے سامنے آنے لگے کہ حکومت کو امن عمل روک کر فی الفور فوجی آپریشن کی راہ اختیارکرنی چاہئے۔ عین اسی روز مغربی ذرائع ابلاغ میں ایسے تبصرے ہونے لگے جن کے مطابق تازہ واقعہ نے تحریک طالبان سے مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس پر پاک فوج کو یاد دلایاجانے لگا کہ آپ نے اس جنگ میں اپنا تیسرا جنرل کھو دیا ہے، جس سے آپ بات کرنا چاہتے ہیں، وہ تو آپ پرحملے کررہے ہیں اور آپ کے اعلیٰ افسر مار رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ امریکی انتظامیہ خود افغانستان سے اپنی گلوخلاصی کرانے کے لئے افغان طالبان سے کسی بھی قیمت پر مذاکرات کرنے کو تیار ہے (اور کر بھی رہی ہے) لیکن پاکستانی حکومت کی طرف سے ایسی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ان کوششوں کا سلسلہ تحریک طالبان پاکستان کے پہلے سربراہ نیک محمد سے شروع ہوتا ہے اور ابھی تک جاری ہے۔یادرہے کہ جس روز نیک محمد کے ساتھ امن معاہدہ ہوا، اس سے اگلے روز اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزا رائس  کا بیان تمام اخبارات میں نمایاں طورپر شائع ہوا جس میں انھوں نے اس معاہدے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیاتھا۔ اس کے فوراً بعد کمانڈرنیک محمد ڈرون حملے کا شکار ہوگئے۔

یہاں ایک بات یادرکھنے کی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کسی ایک گروپ کا نام نہیں ہے، درجنوں گروہ اپنا اپنا ایجنڈہ لئے اس میں شامل ہیں۔ ہر کوئی اپنی کارروائیوں میں مکمل طورپر آزاد اورخود مختار ہے۔ اطلاعات کے مطابق دیر والا حملہ سوات سے تعلق رکھنے والے مولوی فضل اللہ گروپ کے لوگوں نے کیا تھا۔ چونکہ مذاکراتی عمل میں اس گروپ کو شامل نہیں کیا گیا تھا اس لئے وہ اپنی قوت اور اہمیت دکھانا چاہتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ میں ارکان کی ایک بڑی تعداد بھی فی الحال مذاکرات کی مخالف ہے۔ ان میں لشکرجھنگوی اور مہمند گروپ بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ ایسے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کا بھی ایک فارمولا طے ہے۔

دیروالا حملہ (جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ فضل اللہ گروپ نے کیا) افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی کارروائی تھی تاہم ذمہ داری شاہداللہ نے قبول کی ہے۔ تحریک طالبان کی مرکزی قیادت میں سے ایک فرد کا ذمہ داری قبول کرنا ان کی مجبوری ہے ،کیونکہ وہ تحریک طالبان کا اتحاد بہرصورت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ جب یہ صورت حال ہو، عسکریت پسند کسی ایک کمانڈ کے تحت نہ ہوں بلکہ ان کے درجنوں بااختیار گروہ ہوں تو ایسے گروہوں میںکسی تیسری طاقت کا اثرونفوذ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا، پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے اپنے اندر بھی نظم وضبط کا فقدان ہے، یہاں ہر فرد بذات خود ایک گروہ ہوتاہے، اس کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، اپنی حکمت عملی ہوتی ہے، ایسے میں اس کا خریداجانا مزید آسان ہوجاتاہے۔

اب پشاور کے گرجا گھر پر حملہ بھی نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس سے پورا پاکستان لرز گیا ہے۔ یہ زیادہ نازک بھی ہے۔ تادم تحریر اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن ہو سکتا ہے کہ تحریک طالبان ایسا کوئی گروہ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلے۔یقینا ً اس واقعے کے بعد امریکہ سمیت دیگر مغربی حکومتیں حرکت میں آئیں گی اور پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالیں گی کہ وہ مذاکرات کا خیال چھوڑے اور آپریشن کی راہ اختیارکرے۔ امریکہ کے علاوہ بھارتی اور افغان حکومت بھی نہیں چاہتی کہ پاکستانی فوج اور اس سے لڑنے والوں کے درمیان امن کا کوئی عمل شروع ہوسکے۔

یہ کوئی سازشی نظریہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا مشرقی ہمسائیہ اسے عدم استحکام سے دوچار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی اس خواہش کے دو پہلو ہیں:

اوّل: اس کی خواہش ہے کہ پاکستانی فوج کے لئے زیادہ سے زیادہ محاذ کھولے جائیں۔ وزیرستان اور بلوچستان کے محاذوں پر اسے پوری طرح الجھایا جائے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں اس کا وہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا جس کے ذریعے پاکستانی فوج کو کراچی میں اُلجھانے کی سازش تیارکی گئی تھی تاہم میاں نوازشریف نے کراچی میں فوج کے ذریعے آپریشن کرنے سے انکار کردیا۔

دوم: پاکستان کے دشمنوں کو یہاں امن واستحکام کسی بھی صورت میں قبول نہیں، وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں معاشی بہتری کے حالات پیدا ہوں، کاروبار چلیں، سیاحت کاشعبہ پھلے پھولے۔ ان کی اب تک کی تمام کوششوں کا مقصد پاکستانی معیشت کو شدید نقصانات سے دوچار کرنا ہی تھا۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ پاکستان اپنے دوستوں سے بھی مکمل طور پر کٹ جائے۔ اس ضمن میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کا واقعہ یاد کرلیا جائے۔

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اپنی حکمت عملی میں پوری طرح یکسو ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے اب تک ملکی معیشت کو 100ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ وزیراعظم نوازشریف سمجھتے ہیں کہ ملک مسائل کی دلدل سے صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب ملک میں معاشی ترقی ہوگی۔ اور معاشی ترقی کے لئے امن شرطِ اوّل ہے۔ امن عمل کے لئے ایک موقع مذاکرات کے ذریعے بھی حاصل کرنا چاہئے۔

گزشتہ روز بھارتی وزارت دفاع نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ایک ممتاز بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق سابق آرمی چیف وی کے سنگھ کی جانب سے قائم کردہ ایک فوجی یونٹ نے پاکستان میں ڈیپ سٹرائیک سمیت کئی خفیہ آپریشن کئے۔ جنرل پرویزمشرف کے دور سے اب تک سینکڑوں ایسی رپورٹس سامنے آچکی ہیں جن میں بھارت اور افغان حکومت کے بلوچستان میں گڑبڑکرانے کی تمام ترتفصیلات موجود تھیں۔ وزیرستان سے سوات تک کے علاقوں میں ان دونوں ملکوں کی تخریبی کارروائیوں کے ثبوت پکڑے گئے ہیں۔

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سونگھنے کے لئے غیرملکی یہاں موجود ہیں۔ ان کو یہاں بھیجنے والے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اس قدر ابتری مچے کہ یہ دوسرا شام بن جائے اور اس کے ایٹمی پروگرام کا انجام بھی شام جیسا ہی ہو۔ اسی لئے یہاں فرقہ وارنہ فسادات کرانے کے لئے کوئی نہ کوئی تدبیر سامنے آتی ہے۔ پاکستانی قوم اس منصوبے سے بھی بخوبی آگاہ ہے اور اس نے ہرایسی تدبیر کو ناکام بنایا ہے۔

گزشتہ روز جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید نے بالکل درست کہاکہ پاکستان انٹیلی جنس کے پاس پوری صلاحیت موجودہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں اور ان سے تعاون کرنے والے پاکستان دشمنوں کے رابطوں کو پکڑ سکے اور بے نقاب کرسکے۔ یہی راستہ ہے جہاں کھلی آنکھوں کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبہ خیبرپختون خوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بالکل بجا کہا ہے کہ ملک نو برسوں کی بدامنی کے بعد اس حال کو پہنچا ہے ، اس لئے یہ کہنا ، کہ امن چند دنوں میں قائم ہوجائے گا، درست نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی امن کے لئے کوشش ہوتی ہے ، کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے ۔ جنھوں نے یہ سانحہ کیا ہے ، وہ انسان نہیں ہوسکتے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اسی دلدل میں پھنسا رہے ۔

پاک فوج کو اشتعال دلانے کے لئے فوجی افسران کو شہید کیا گیا، اس کے باوجود پاک فوج نے حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا اور امن کو موقع دینے کی بات کی ۔ پاکستان کا ہرذی ہوش سمجھتا ہے کہ جوں جوں امن عمل آگے بڑھے گا، مزید رکاوٹیں سامنے آئیں گی۔ حکومت بالخصوص فوج کو مشتعل کرنے کی کوششیں ہوں گی کہ وہ ایک بار پھر نہ صرف وزیرستان میں سرگرم ہوجائے بلکہ شمالی وزیرستان پر بھی چڑھ دوڑے، دوسری طرف ڈرون حملے کرکے وزیرستان میں بھی اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس نازک مرحلے پر حکمت اور دانش مندی ہی کام دے گی، جو جتنا زیادہ دانش مند ہے ، اسے اسی قدر زیادہ دانش اور حکمت سے کام لینا ہوگا۔ اس حوالے سے اہم کردار حکومت اور فوج کا ہے۔یہ خوش آئند امر ہے کہ حکومت اور فوج دونوں اس پر یکسو ہیں، وہ پُر عزم ہیں کہ تمام تررکاوٹوں کے باوجودملک کو امن کی طرف لے کرجائیں گے، صرف اسی صورت میں ملک استحکام اور ترقی کی جانب پیش قدمی کر سکے گا۔

اس اندوہ ناک واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنایاگیا ہے جو حالیہ عرصے میں دہشت گردی کی جاری لہر کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کی حکمت عملی میں ایک نئی جہت کے اضافے کا پتہ دیتی ہے۔اگر وہ قوتیں اس واقعہ کو ایک نئی مذہبی منافرت کے طورپر معاشرتی روئیے کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوگئیں تو یہ ان کی بڑی فتح ہوگی، عوامی سطح پر ہمیں یہ کوشش ناکام بنانی ہے اور یہ ادراک کرنا ہے کہ ملک میں بسنے والے تمام مذاہب اور قومیّتوں کے لوگوں کا دشمن ایک ہے اور سب پاکستانیوں کا درد باہم مشترک ہے۔

مسیحی برادری پر شدت پسندوں کے حملے:

نائن الیون کے بعد جب سے عسکریت پسند گروہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا آغاز کیا ہے، ان کے سفاکانہ حملوں سے عام شہریوں کے علاوہ مسیحی برادری اور دیگر مذہبی اقلیتیں بھی محفوظ نہیں رہیں، بلکہ بعض مواقع پر کچھ عسکریت پسند گروہوں نے مسیحی برادری کے لوگوں اور عبادت گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

28 اکتوبر 2001ء کو اتوار کے روز بہاولپور کے سینٹ ڈومینک رومن کیتھولک چرچ میں مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کی جس میں پولیس اہلکار سمیت مسیحی برادری کے 16افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

مارچ 2002ء میں اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے قریب واقع ایک پروٹسٹنٹ چرچ کو گرینڈ حملے سے اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہاں اتوار کے دن عبادت کے لیے لوگ جمع تھے۔ اس حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے، جس میں امریکی سفارتخانے کی ایک خاتون کارکن اور اس کی سترہ سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔

5 اگست 2002ء کو مری کے ایک کرسئچن بورڈنگ سکول میں مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں چھ بچے جاں بحق ہوئے۔

اس کے چار دن بعد 9 اگست 2002ء کو اسلام آباد سے 15میل کے فاصلے پر واقع ٹیکسلا کرسئچن ہاسپٹل پر گرینڈز پھینکے گئے، جس میں تین افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوئے۔

25 ستمبر 2002ء کو کراچی میں واقع ایک NGO انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ جسٹس کے دفتر کو شدت پسندوں نے نشانہ بنایا، جس میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے سات افراد کو زندگیوں سے محروم کر دیا گیا۔

25 دسمبر 2002ء کو دو برقع پوش دہشت گردوں نے سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے ایک علاقے میں واقع چرچ کو نشانہ بنایا۔ اس میں تین بچیاں، جن کی عمریں بالترتیب چھ، نو اور 12سال تھیں، جاں بحق ہو گئیں۔

ستمبر 2010ء میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ایک گرجا گھر کے مرکزی دروازے پر ہونے والے دھماکے سے چرچ کی عمارت کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ دھماکے سے چرچ کا چوکیدار اور ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔

جب دُعا میں مشغول مسیحیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی:

پشاور شہر کے آٹھ دوازوں میں سے ایک کوہاٹی گیٹ سے تھوڑے فاصلے پر آل سینٹس کیتھڈرل چرچ واقع ہے، اس کی پرشکوہ قدیم عمارت دور سے دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے ایک جانب مشہور قصہ خوانی بازار ، دوسری جانب کُوچی بازار اور تیسری جانب موجود سڑک نمک منڈی کو جاتی ہے، یوں یہ چرچ پر رونق علاقے کے عین بیچوں بیچ موجود ہے۔ اتوار کے دن چرچ میں عبادت کے لئے آئے ہوئے مسیحیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان پر قیامت ٹوٹنے والی ہے، کیونکہ عبادت کے تصور کے ساتھ امن و آشتی کے الفاظ جڑے ہوئے ہیں اور یہ تصور ہر مذہب میں موجود ہے۔ چرچ میں پانچ ، چھ سو افراد حاضر تھے جن میں بزرگ ، خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ سکیورٹی کے لئے صرف دو پولیس اہلکار موجود تھے ۔ سکیورٹی اتنی کم کیوں تھی اس بارے میں شائد کسی نے سانحے سے قبل سوچا ہی نہ ہومگر بعد میں ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال تھا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اتنے اہم چرچ کی سکیورٹی نہ ہونے کے برابر کیوں تھی ۔

چرچ پر حملہ کرنے والے بھیس بدل کر عبادت کے لئے آنے والوں میں شامل ہو کر چرچ میں داخل ہو چکے تھے اور حملے سے قبل یقینا انھوں نے پوری صورتحال کا جائزہ بھی لیا ہو گا ۔ عینی شاہدین کے مطابق عبادت کے اختتام پر دعا جاری تھی کہ پہلے ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑایا اور اس کے تھوڑی دیر بعد دوسرا دھماکہ ہوا۔ ہر طرف دھواں اور خون پھیل گیا ، چرچ کی دیواروں پر لگے خون کے دھبے اس ظلم کی گواہی دے رہے تھے جو انسانیت پر ڈھایا گیا تھا۔ خودکش حملہ آوروں نے مجموعی طور پر بارہ کلو بارودی مواد استعمال کیا تھا ، دھماکہ خیز مواد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانے کے لئے بال بیرنگ استعمال کئے گئے تھے۔ خودکش دھماکوں سے بیسیوں افراد جاں بحق جبکہ 100سے زائد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت تشویش ناک ہے۔

جاں بحق ہونے والوں میں چار بچے اور چھ خواتین بھی شامل ہیں۔ دھماکے اتنے خوفناک تھے کہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ دھماکے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو ریسکیو سروس اور اپنی مدد آپ کے تحت لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ، لواحقین کا شکوہ تھا کہ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا اور کئی گھنٹوں تک کوئی بھی حکومتی عہدیدار ان کے آنسو پونچھنے کے لئے نہیں آیا۔ تاہم بعد میں اشک شوئی کے لئے بہت سے سیاسی و سماجی رہنما وہاں پہنچے اور صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اہم سیاسی رہنمائوں کی طرف سے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی۔ مسیحی برادری کی طرف سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کئے جائیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔