LEDلائیٹس آپ کی بصارت تباہ کر سکتی ہیں

ناصر ذوالفقار  پير 9 ستمبر 2019

اﷲ تعالیٰ کی قدرت نے نہ صرف انسان کو آنکھ جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے بلکہ اس کی بہترین حفاظت کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔

انسانی آنکھ کی پتلی ایسا پہرے دار ہے جو کہ روشنی کی مقدار کو نہایت حساس طریقے سے کنٹرول کرتا ہے اور کسی بھی وقت روشنی کی زائد مقدار کو آنکھ میں جانے سے روک لیتا ہے جس سے ہماری آنکھ اندرونی طور پر محفوظ رہتی ہے۔ یہ پتلی زیادہ روشنی میں سکڑتی ہے اور اندھیرے میں پھیلتی ہے لیکن یہاں معاملہ روشنی کی اس قسم سے ہے جو کہ ہماری آنکھوں کو نظر آتی ہے جبکہ روشنی کی دوسری قسم غیرمرئی شعاعیں ہیں جو کہ انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ پتلی روشنی کی چمک دمک کو تو روک سکتی ہے لیکن یہ ریڈیائی شعاعیں جن میں ایکسریز، بالائے بنفشی (الٹرا وائیلٹ) اور زیریں سرخ (انفرا ریڈ) ہیں جو کہ انسانی صحت کے لے نہایت مضر سمجھی جاتی ہیں جن کا یہ پتلی کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور یہ آنکھوں میں داخل ہوکر انسانی نظر کو خراب کردیتی ہیں۔

حضرت انسان کی سائنسی و ٹیکنالوجی ترقی کے نتیجے میں ہمیں جہاں علاج و معالجے کی بہترین سہولیات میسر آرہی ہیں وہیں صحت کے سنگین مسائل کا بھی سامنا ہے اور حالیہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے مامور صحت کی ایجنسی نے انسانی صحت کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ ہمارے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ طویل اور مفصل رپورٹ عام استعمال ہونے والے بجلی کے بلبوںLED لائیٹس سے متعلق ہے جس کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بنتا جارہا ہے، جنہوں نے پچھلے گیس ٹیوب والے سیور بلبوں کی جگہ لے لی ہے۔ اس رپورٹ میں ان ایل ای ڈیز کی روشنی کو انسانی آنکھ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ٹھہرایا گیا ہے جو کہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے پہلے موبائل فونز کا استعمال بھی خطرے کا باعث سمجھا جاتا رہا ہے، کیوںکہ یہ ریڈیائی لہروں کو موصول اور نشر کرتا ہے جو کہ قریبی لگے انٹینا ٹاور سے نشر ہوتے ہیں جو کہ شہری آبادیوں میں عام لگائے گئے ہیں اور تاب کاری کی بڑی مقدار خارج کرتے ہیں۔ رپورٹ پیش کرنے سے پہلے کچھ LED کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ یہ ایل ای ڈی لائیٹس کیا ہیں اور یہ کیسے روبہ عمل ہوتی ہیں۔

الیکٹرانکس سے واقفیت رکھنے والے ایل ای ڈی کو خوب جانتے ہیں یہ <Light Emitting Diode>ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ روشنی خارج کرنے والی ڈائیوڈ ہے۔ ڈائیوڈ الیکٹرانکس کا ایک اہم پرزہ ہے جو کرنٹ کو ایک سمت میں بہنے کی اجازت دیتا ہے جب کہ دوسری جانب سے روکتا ہے۔

اس طرح ایل ای ڈی بنیادی طور پر ایک ڈائیوڈ ہے جو کرنٹ گزرنے سے روشن ہوجاتی ہے۔ ایک عام ڈائیوڈ کا بنیادی کام ریکٹی فیکیشن ہے یعنی یہ آلٹرنیٹ کرنٹ (A.C) کو ڈائرکٹ کرنٹ (D.C) میں تبدیل کردیتا ہے جب کہ دو ڈائیوڈز کے ملاپ سے ٹرانزسٹر بنتا ہے، کیوں کہ آلٹرنیٹ بجلی برقی مقناطیسی لہروں کی شکل میں کام کرتی ہے جو کہ نشیب و فراز کی صورت میں ایک سائیکل 360ڈگری مکمل کرتی ہیں۔ لہروں کے سائیکل مکمل ہونے کا عمل ’’طول موج یا ویولینتھ‘‘ کہا جاتا ہے جو دو قریبی لہروں کے نشیب و فرازوِں کا درمیانہ فاصلہ ہے اور لہروں کے ایک سیکنڈ میں پورا ہونے والے عمل کو ’’تعدد یا فریکونسی‘‘ کہتے ہیں۔

اسے ہزز (Hertz) میں ناپا جاتا ہے۔ اسی فریکونسی کی رفتار کم یا تیز ہونے سے روشنی یا ریڈیائی لہروں کی ماہیت کا تعین ہوتا ہے۔ سفید روشنی کی پیدائش میں ایک بنیادی ٹیکنالوجی ’’شارٹ ویو لینتھ‘‘ کی مختصر طول موج کی ایل ای ڈی ہے جو کہ نیلی یا الٹراوائیلٹ (بالائے بنفشی) لہروں پر مشتمل ہے جن پر پیلے رنگ کی فاسفورس کوٹنگ چڑھی ہوتی ہے۔ اسپیکٹرم کی طیف میں یہ سفید یا ’’سرد‘‘ روشنی عظیم فریکوئنسی اور کمیت کی حامل ہے۔

اسپیکٹرم سے مراد روشنی کا انتشار ہے، جب سفید روشنی اپنے اندر موجود سات رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یک رنگی روشنی میں صرف ایک طول موج کی روشنی ہوتی ہے اسی روشنی میں تابکاری اثرات والی شعاعیں بھی وجود رکھتی ہیں۔ اسپیکٹرم کی رنگ دار پٹی طیف کہلاتی ہے جس سے ماہرین مختلف لہروں کی شناخت کرپاتے ہیں۔ نہ نظر آنے والی روشنی ’’مرئی طیف‘‘ کہلاتی ہے۔ طیف کا ایک سرا سرخ اور دوسرا بنفشی ہوتا ہے جب کہ درمیان میں نیلا، آسمانی، سبز ، پیلا اور نارنجی رنگ ہوتے ہیں ان ہی رنگوں کی ترتیب سے تابکار یا ریڈیو ایکٹیو شعاعوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔

LEDلائیٹس کے بارے میں بالعموم اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ سابقہ عام روشن ہونے والے انکینڈیسنٹ (Incandecent) بلبوں کے مقابلے کی روشنی استعمال کرنے میں بجلی کا پانچوں حصہ صرف کرتا ہے جو کہ بہت زیادہ انرجی افیشنٹ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایل ای ڈی کے بلبس روشنی کے اخراج میں بہت زیادہ گرمی بھی پیدا کرتے ہیں اور عام بلبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ گرم ہوجاتے ہیں جن کی گرمی کا توانائی کی شکل میں اخراج ہوتا ہے جسے ’’واٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بجلی کی اکائی ہے جب کہ اضافی والٹیج کی ایل ای ڈبوں کی ہیئت میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہیٹ سے بچنے کے لیے ایل ای ڈیز کو براہ راست نہیں جلایا جاسکتا کیوںکہ اس طرح گرم ہونے پر یہ جل سکتے ہیں یا آگ لگنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اسی لیے انہیں دھاتی پلیٹوں پر فٹ کیا جاتا ہے جو ’’ہیٹ سنک‘‘ کا کام دیتی ہیں اور گرمی کو جذب کرکے ایل ای ڈیز اور ان کے استعمال کو محفوظ بناتی ہیں۔

اب ان ایل ای ڈیز ٹیکنالوجی نے تمام الیکٹرانکس ڈیوائسز میں اپنی جگہ بنالی ہے اور ٹیلی ویژن کی اسکرینوں سے لے کر پرسنل کمپیوٹروں، لیب ٹاپ اور ٹیبلٹس کی اسکرین کا اہم جز بن چکے ہیں۔ گھروں اور آفسوں کے علاوہ اب یہ لائٹس سڑکوں کی اسٹریٹ لائٹس، انڈسٹریز اور گاڑیوں کی ہیڈ لائیٹس کا حصہ بن چکی ہیں۔ بلبوں کے علاوہ اب ایل ای ڈیز قمقموں اور سجاوٹ کی ہر طرح کی لائٹینگ میں استعمال کی جارہی ہیں جو کہ بہت ہی جاذب نظر اور خوب صورتی کی حامل ہیں۔

اس معاملے پر حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ صحت کے امور کے لیے قائم فرانس کے سرکاری واچ ڈوگ نے جاری کی ہے جو ایجنسی ہے اور یہ غذائی، ماحولیاتی اور پیشہ ورانہ صحت حفاظتی بچاؤ کے لیے سرگرم عمل ہے۔ <Agency for food,Enviromental and Occupational Health and Safety> (ANSES)۔ ایجنسی نے واضح طور پر عوام کو مطلع کردیا ہے کہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی طاقتور ایل ای ڈیز لائٹس آپ کی بصارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہیں۔400 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں LEDلائیٹس کے بہت زیادہ ایکسپوزر (روشنی جس منبع یا واسطے سے تیزی سے نکلتی ہے اور پھیلتی ہے) اس طرح کی ایل ای ڈیز کی روشنیاں ہمارے لیے فوٹو ٹاکسز (زہریلی روشنی) ہیں تاہم جو روشنیاں ایل ای ڈیز والے فونز، لپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کی اسکرین خارج کرتی ہیں۔

وہ آنکھ کے لیے نقصان دہ نہیں لیکن اس کے استعمال میں بھی احتیاط لازمی ہے جب کہ کاروں کے سامنے کی ہیڈ لائٹس میں استعمال ہونے والی ایل ای ڈیز کی روشنی کی زبردست چمک دمک اور شدت کو خطرہ کہا گیا ہے جس کے لیے اس کی حد بندی ناگریز ہے کیوںکہ یہ بھی آنکھوں پر براہ راست اثر انگیز ہوتی ہیں۔ ایجنسی ANSES نے سنجیدگی سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاقت ور ایل ای ڈیز لائیٹس زہر آلود روشنیاں ہیں جو کہ انسانی آنکھ کے پردے چشم ’’ریٹینا‘‘ کو مکمل تباہی سے دوچار کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ہماری طبعی نیند کی روانی میں بھی خلل ڈالتی ہیں چناںچہ طویل رپورٹ میں انسانی جسم کو سنگین خطرات سے ہوشیار کیاگیا ہے کہ ایسی زہر آلودہ روشنیاں آنکھ کے پردے کے سیلوں (جسیموں) میں بگاڑ پیدا کرسکتی ہیں جس کے نتیجے میں عام نابینا پن ظہور میں آتا ہے۔ ANSES کے آفیشلز نے مزید آگے بتایا ہے کہ ایل ای ڈیز روشنیوں کے ایکسپوزر کے اخراج میں ’’نیلی روشنی‘‘ کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیوںکہ ان کی کمیت کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

ان کے مطابق انتہائی خطرہ، کاروں کی ہیڈ لائٹس بلبوں کو سمجھا گیا ہے جس کے لیے کاروں کی صنعت کو انتباہ کیاگیا ہے۔ نیلی روشنی اگرچہ ہمارے پرسنل کمپیوٹروں، لیب ٹاپس اور ٹیبلٹس کی اسکرینیں بھی خفیف مقدار میں خارج کرتی ہیں لیکن ان سے زیادہ خطرات ہماری آنکھوں کو نہیں ہیں لیکن یہاں ان آئی ٹی ڈیوائسز کو استعمال کرتے وقت لازمی ہے کہ احتیاط برتی جائے اور کم سے کم اور زیادہ روشنی میں حفاظتی گلاسوں یا چشموں کو سیفٹی کے طور پر استعمال کرنا ضروری ہے۔ یہ رپورٹ جو کہ ہائی انٹینسٹی (شدید) کے تیزترین ایکسپوزر والی LED کی روشنی اور کرونک (پرانے) کم طاقت کے ایکسپوزر LED کے ذرائع کے مابین نمایاں ترین حقائق پیش کرتی ہے۔ کم خطرہ کا ایسا ہی کرونک ایکسپوزر کو بڑھا جائے تیزی سے حرکت کے نتیجے میں آنکھ کے پردے کے ٹیشوز کو سخت بنادیتا ہے جس کی محتاجی سے بینائی کم زور ہوجاتی ہے۔

نیلی روشنی کیا ہے اور اس کے خطرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

جیسے کہ رپورٹ میں واضح ہے کہ نیلی روشنی (Blue Right) ہی اصل میں صحت کی دشمن ہے جو کہ ایل ای ڈیز کی طاقت ور روشنی میں چھپی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ان بلبوں میں روشنی کا اخراج بے پناہ ہوتا ہے جو کہ ایک معیاری انکینڈیسنٹ بلبوں کے ہم پلہ چمک دمک والی روشنی فراہم ہوتی ہے۔ نیلی روشنی مختصر ویولینتھ یا طول موج رکھتی ہے اور روشنی کے بلبوں کے علاوہ فلیٹ ٹی وی اسکرین، اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس سے بھی خارج ہوتی ہے جس کی مقدار کم ترین ہے۔ ایل ای ڈیز لائیٹس کے اثرات کو لمبے عرصے تک رات کی شفٹ میں کام کرنے والے ورکروں پر نوٹ کیا گیا جو اس غیرمحفوظ روشنی کی اثرانگیزی کے باعث ان کے جسم پر کینسر کا باعث بن رہی تھیں یہ انسانی ہارمونز کو متاثر کرتی ہے۔ گذشتہ سال یونیورسٹی آف ٹولیڈو (TOLEDO) ہی تھی جس نے پہلی بار اس نیلی روشنی کے بارے میں خبردار کیا تھا جو کہ آپ کی نظر کو تیزی سے اندھا کرسکتی ہے۔ ٹولیڈ یونیورسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس ’’روشنی کا بڑھتا ہوا روشنی کا زبردست ایکسپوزر آنکھوں کے سیلوں کی زندگی کے لیے موت ہے جو بندوق کی لبلبی کی مانند الرٹ ہے۔‘‘

ماہرین صحت کی آرا: یونیورسٹی آف ایکسیٹر (Exeter) کے ڈاکٹر Alejandro Sanchez de miguelتجویز کرتے ہیں کہ اپنے فون، پرسنل کمپیوٹروں اور ٹیبلیٹس پر کام کرتے وقت نیلی روشنی سے بچنے والا فلٹر ضرور لگایا جائے جو رات کے اوقات میں آپ کی آنکھوں کو محفوظ بناتا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے ماحول اور قابل تائیدی انسٹی ٹیوٹ میں پوسٹ گریجویٹ تحقیق کار ہیں۔

اسی طرح APPS کے استعمال کرتے وقت نیلے فلٹر کو آپ کے کمپیوٹر فون یا دوسری ڈیوائس کے شام کے وقت دھندلی روشنی میں “Twilight”یا “نائٹ موڈ” پر سیٹ ہونا چاہیے جو کہ نیلی روشنی کے اخراج کی قوت کو ہر وقت کم کرتا رہتا ہے۔

ہر ایک کو فائیو اسٹار بورڈ اسپیکٹرم کا حفاظتی فیکٹر 50سن اسکریم پہننا چاہیے، اسپیکٹرم کی طیف سے نیلی روشنی پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہ الٹراوائیلٹ اے اور الٹراوائیلٹ بی شعاعوں کو روکتا ہے اور آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ نیلی روشنی کے بارے میں جِلدی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جلد کی اندرونی تہہ میں سوراخ ڈال دیتی ہیں جو جلد کو پتلا اور نہایت حساس بناسکتی ہیں۔ اسی طرح آئرن آکسائیڈز نیلی روشنی کے خلاف عمل کرکے تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کا اظہار ڈاکٹر Andrew Birnieنے کیا جو کہ جلدی امراض اور اسکن کینسر کے ماہر ہیں اور William Harvey اور Canterbury اسپتالوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جلد کی ایک اور ماہر Emma Wedgeworth کہتی ہیں کہ وٹامن سیریم آپ کو اینٹی آوکسیڈینٹ (Antioxidant) فراہم کرتے ہیں جو کہ نیلی روشنی کے برخلاف لڑتا ہے اور آپ کو بچاتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹولیڈو کے ڈاکٹر Ajith Karunarathne اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ اپنے پرسنل کمپیوٹر اور فون کو استعمال کرتے وقت ضروری ہے کہ اندھیروں سے اجتناب برتا جائے کیوںکہ اندھیرے میں آنکھ کی پتلی زیادہ پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی کے کیمسٹری اور بائیو کیمسٹری ڈپارٹمنٹس میں معاون پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ماہرامراض چشم Francine Behar بھی ایل ای لائٹیس کی نیلی روشنی سے فکرمند ہیں اور کہتے ہیں اگرچہ گھریلو دوسری اشیا میں نیلی روشنی کا خطرہ بہرحال بہت کم ہے لیکن اس میں استعمال کرتے وقت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ رات یا اندھیرے میں ڈیوائس کی سیٹنگ مناسب رکھی جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ روشنی کی یہ قسم انسانی جسم کی ترتیب (ردھم) کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہے جب آنکھوں صحیح طور پر پرفارم نہیں کرپاتیں۔ خصوصی طور پر بچے اس انتشار کو قبول کرنے والے ہیں۔ ANSES ایجنسی کے ماہرین نے مزید نوٹ کیا ہے کہ جسمانی فٹنس میں یہ روشنیاں ان کی ترتیب میں دخل اندازی کا موجب ہوتی ہیں اور مختلف بیماریوں کا باعث ہوسکتی ہیں جن میں ذیابیطس، دل کی بیماریاں اور کینسر کی طرح کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ اس بات کا اظہار ایجنسی کی تحقیق کار اور پروجیکٹ مینیجر Dina Attia نے کیا، جب کہ اس کے علاوہ روشنی کی گردش نمائی کے اثرات میں ’’دردسر‘‘ بصری تھکان اور ایکسیڈنٹ کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔

رپورٹ میں گھریلو صارفین سے کہا گیا ہے کہ وہ گرم ترین ایل ای ڈی لائٹنگ کے بجائے قدرے محدود ایکسپوزر والی ایل ای ڈیز یعنی کم واٹیچ والے بلبز خریدیں جب کہ رات کے سونے کے اوقات میں ایل ای ڈیز اسکرینوں سے پرہیز کریں۔ اس کے ساتھ ہی ایجنسی نے گاڑیاں بنانے والوں کو بھی صلح دی ہے کہ وہ اپنی ہیڈلائٹس کے لیے کم مقدار کی ایکسپوزر والی ایل ای ڈیز کے استعمال کو فروغ دیں۔ رپورٹ کے آخری حصے میں ای نٹی بلیو لائیٹ کے فلٹروں اور سن گلاسوں کی افادیت و اثر انگیزی پر شبہات ظاہر کیے گئے ہیں جب کہ برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر Dame Sally پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ ’’نیلی روشنی‘‘ ایک اہم ترین تفتیش کا میدان ہے۔

طویل پائے داری، کم توانائی، کم قیمت، کم خرچ اور بالانشین کامل ترین ایل ای ڈیز کی ٹیکنالوجی نے ایک عشرے میں ہی عالمی سطح پر نصف دنیا کی جرنل لائیٹنگ مارکیٹس پر قبضہ جمالیا ہے اور اس کی برق رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے صنعتی ماہرین اندازہ لگارہے ہیں کہ یہ معاملہ یونہی آگے بڑھتا رہے گا اور اگلے سال (2020ء) کے آخر تک ان ایل ای ڈیز لائیٹس کی مارکیٹ 60 فی صد تک جا پہنچے گی اور یقینی طور پر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان مضر صحت روشنیوں کے استعمال سے ہمیں اپنے آپ کو محفوظ بھی بنانا ہوگا۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔