سب نشانے پہ ہیں

ایاز خان  پير 30 ستمبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

لکھنے تو بیٹھا تھا بلوچستان کے ضلع آواران میں زلزلے کی تباہی کا جسے جمعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آپ سے یہ بھی شیئر کرنا چاہتا تھا کہ زلزلہ تو اب آیا ہے یہ پورا ضلع تو پہلے سے ہی تباہ حال ہے۔ وہاں بجلی ہے نہ پانی۔ روزگار کے مواقعے ہیں نہ آسودہ زندگی کا کوئی تصور۔ بی ایل ایف کے ڈاکٹراللہ نذر کے خوف کا تذکرہ بھی کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے کوئی سرکاری افسر یا ڈاکٹر وہاں جانے کو تیار نہیں ہے۔

کوئی رضاکارانہ طور پر جانا چاہے تو اسے وہاں لگا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گریڈ سترہ کا ایک افسر اس وقت ڈپٹی کمشنر ہے کیونکہ اس کا یہ آبائی علاقہ ہے اس لیے وہ اپنے لوگوں کے لیے تیار ہو گیا۔ ڈاکٹر اللہ نذر جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے کالج فیلو ہیں اتنے ناراض ہیں کہ اب تک دو بار امدادی سرگرمیوں میں مصروف اعلیٰ فوجی حکام کے ہیلی کاپٹروں پر حملہ کر چکے ہیں۔ ضلع آواران کے لوگوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ سرکاری اہلکاروں سے امداد نہیں لیتے کہ کہیں اللہ نذر ان سے ناراض نہ ہو جائیں۔ ضلع آواران کے جو حالات ہیں ان میں نوجوانوں کو کسی کے لیے بھی اپنی طرف راغب کرنا آسان ہے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ بھارت میں آج بھی چالیس فیصد حصے میں بجلی کی ٹرانسمشن لائنیں ہی نہیں ہیں۔ میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے اس جذبے کا بھی ذکر کرنا چاہتا تھا کہ جس نے انھیں کمر میں شدید درد کے باوجود آواران جانے کی ہمت دی۔ فوج کے ہیلی کاپٹروں پر حملے بھی انھیں متاثرہ علاقوں میں جانے سے نہیں روک سکے۔ اب آتے ہیں دو اور اہم موضوعات کی طرف۔ پشاور کا افسوسناک دھماکا جس میں ایک بار پھر چالیس سے زیادہ بے گناہ افراد شہید کر دیے گئے۔ دوسرا اہم ایشو پاک بھارت وزراء اعظم کی ملاقات ہے جسے محض ملاقات ہی کہا جا سکتا ہے۔ خیر اس ملاقات سے زیادہ امیدیں اگر کسی نے وابستہ کی تھیں تو اس کی سادگی پہ قربان ہی جایا جا سکتا ہے۔

دہشت گردوں کا اس بار نشانہ بنا پشاور کا قصہ خوانی بازار۔ ایک اتوار پہلے پشاور کے کوہاٹی گیٹ چرچ میں دو خود کش دھماکے ہوئے تھے۔ اس دن وزیر اعظم نواز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہوئے تھے۔ اتوار کو پاکستانی وقت کے مطابق شام میں انھوں نے بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کرنا تھی اور اس کے بعد وطن واپس روانہ ہونا تھا۔ اس سے پہلے جب وہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر چین جا رہے تھے تو کوہ پیماؤں پر حملہ ہوا تھا اور مرنے والوں میں سے اکثریت کا تعلق چین سے تھا۔

تینوں بار دہشت گردوں کی ٹائمنگ کمال تھی۔ دہشت گرد جب سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ان کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں اس لیے انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ کارروائی کر گذرتے ہیں۔ چرچ میں جو بے گناہ مارے گئے یا پرسوں کے بم دھماکے میں جو معصوم شہید ہوگئے، انھوں نے دہشت گردوں کا کیا بگاڑا تھا۔ شبقدر کے علاقے مٹہ خیل سے اپنے ایک عزیز کے شادی کے لیے کپڑے وغیرہ خریدنے کے لیے قصہ خوانی بازار میں آنے والے ایک ہی خاندان کے ان اٹھارہ افراد کی دہشت گردوں سے کیا دشمنی تھی جنھیں اتوار کو شہید کر دیا گیا۔ اس دھماکے میں مرنے والے دیگر لوگوں کا کیا قصور تھا۔ مرنے والے مسیحی ہوں‘ مسلمان یا ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ سب پاکستانی ہیں۔

وہ سب انسان ہیں۔ وفاقی حکومت تو عمران کی بات مان نہیں رہی ہمیں ملک بھر کے پراپرٹی ڈیلروں سے یہ اپیل کرنا پڑے گی کہ وہ کپتان کو جلدی سے کسی ایسے دفتر کی جگہ تلاش کر دیں جہاں شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جا سکیں۔ خان صاحب سے محض اتنی عرض ہے کہ وہ ان مذاکرات کاروں کے نام ضرور بتا دیں جن سے بات چیت کرنی ہے۔ یہ بھی شاید وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت  ہے تو کیا ہوا یہ دھماکے اور خود کش حملے روکنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ وفاقی حکومت اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی تو اس میں کپتان اور ان کی ٹیم کا کیا قصور ہے۔ دہشت گرد پاکستانیوں کو شہید کرتے رہیں‘ ہم مذاکرات شروع ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔

شدت پسندوں سے مذاکرات پتہ نہیں کب ہوں گے البتہ نیو یارک میں وزیر اعظم نواز شریف اور منموہن سنگھ میں ملاقات ضرور ہو گئی۔ اگرچہ اس ملاقات میں سے کچھ نہیں نکل سکا لیکن جن حالات میں یہ دونوں لیڈر ملے ہیں وہ بھی بڑی بات ہے۔ ادھر ملاقات طے ہوئی ادھر مقبوضہ جموں میں بھارتی فوجیوں پر حملہ کر کے اسے روکنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی وزیر اعظم نے اس واقعے کے باوجود ملاقات کا اعلان کر کے ان قوتوں کی کوششوں کو ناکام کر دیا جو اسے روکنا چاہتی تھیں۔

اس کے بعد سب ٹھیک لگ رہا تھا کہ میاں صاحب کی ایک مذاق میں کہی گئی بات نے بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو اپنا جلسہ کامیاب کرنے کا موقع دے دیا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ نواز شریف کو یہ بات کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ منموہن سنگھ دیہاتی عورتوں کی طرح اوباما سے ان کی شکایتیں لگاتے ہیں۔ برکھا دت جیسی سینئر جرنلسٹ سے بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ لائٹ موڈ میں کی گئی اس بات کا بتنگڑ بناتی۔ خیر تیر اگر کمان سے نکل جائے تو پھر واپس نہیں آ سکتا۔ نریندر مودی کی دھواں دھار تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناشتہ‘ مشترکہ پریس کانفرنس اور اعلامیے سب  دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نواز شریف اور منموہن نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے اپنے اپنے وفود کے ارکان کو ملوایا‘ تھوڑی دیر آمنے سامنے بیٹھ کر تصویریں بنوائیں اور ملاقات ختم ہو گئی۔

انڈیا میں اگلے سال الیکشن ہونے ہیں اس لیے منموہن کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ انڈیا کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے لیے وہاں نئی حکومت کے قیام کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس دوران اپنے گھر کو سیدھا کر لیں۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو دیر کس بات کی۔ ان کے خلاف آخری آپشن یعنی طاقت کا استعمال کرنا ہے تو پھر کسی اے پی سی کی ضرورت نہیں۔ سول اور فوجی قیادت بیٹھے اور تب تک بیٹھی رہے جب تک کسی نتیجے پر نہ پہنچ جائے۔ خدارا یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ پاکستانیوں میں اپنے پیاروں کی مزید لاشیں اٹھانے کی ہمت نہیں رہی۔ ان کی ہمت جواب دے چکی ہے‘ کیونکہ مسجد‘ چرچ اور بازار سب دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ایک ہی شہر میں ایک ہفتے میں تین تین دھماکے ہو رہے ہیں۔ سیاستدانو! اب تو ہوش میں آؤ اور رنگ رنگ کی بولیاں بولنا بند کر دو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔