تبدیلی دور است

نادیہ مرتضیٰ  جمعـء 20 ستمبر 2019
نئی حکومت جس تبدیلی کے دعوے کے ساتھ آئی تھی وہ تبدیلی کہیں نظر نہیں آرہی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نئی حکومت جس تبدیلی کے دعوے کے ساتھ آئی تھی وہ تبدیلی کہیں نظر نہیں آرہی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چیف جسٹس آصف کھوسہ نئے عدالتی سال کی تقریب سے مخاطب تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے دو اہم مسائل کا احاطہ کیا۔ نمبر ایک عدالتی نظام کا انحطاط، جس کی تاریخ کم و بیش سات عشرے پرانی ہے۔ ایک سال قبل اپنی حلف برداری کے موقع پر جسٹس کھوسہ کا تقاضا تھا کہ انتظامیہ اور قانون ساز عدالتی نظام کی تنظیم نو کےلیے نیا تین تہی نظام متعارف کروایا جائے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے ان تجاویز پر غور تو نہیں ہوا، البتہ گزشتہ ایک سال میں عدالتی نظام میں جو مثبت بدلاؤ آیا اس میں 240 کی رفتار سے لیے جانے والے سوموٹو پر ڈیڈ اینڈ کا سائن بورڈ، جوڈیشل ایکٹوازم کی جگہ فعال ایکٹویٹیزم اور سنسنی خیز ریمارکس پر بننے والی شہ سرخیاں کم اور فیصلے قدرے زیادہ ہوئے۔ یہ بدلاؤ مثبت تو ہے مگر عدالتی انحطاط کےلیے صریحاً ناکافی ہے۔ سر آئینہ اس کے کئی پہلو ہیں۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو سات سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ڈھائی سو افراد زندہ جل گئے۔ بے حس یادداشت کا مختصر فلیش بیک ہے کہ سانحہ سے متعلق ایک رپورٹ رینجرز نے پیش کی، ایک عدد جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنی، عدالت کے روبرو چشم دید گواہوں کے لرزہ خیز اعترافی بیان قلم بند ہوئے۔ مگر ہوا کیا؟ معصوم جانوں کے عوض لواحقین کو کم سے کم پینتیس سو روپے ماہوار پر انصاف کا قصہ تمام ہوا۔ نہ مجرمان کیفر کردار کو پہنچے، نہ کوئی ذمے دار ٹھہرا

سانحہ ساہیوال اسی قصے کا نشر مقرر ہے۔ سی ٹی ڈی کی سرعام واردات کیمرے کی آنکھ میں، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کا خاندان بے گناہ اور سی ٹی ڈی اہلکار ذمے دار قرار۔ قصہ مختصر اب لواحقین مجرموں کی شناخت سے قاصر ہیں۔ وزیر قانون اس سانحے کو کولیٹرل ڈیمیج کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہوگئے ہیں۔ گویا انصاف یہاں بھی معدوم ہے۔

یوں تو بے شمار داستانیں ہیں جو عدالتی نظام پر بین کر رہی ہیں، مگر ادارہ جاتی تناؤ، دباؤ اور تحفظ کے قصے نرالے ہیں۔ بے حس یادداشت کو ذرا زحمت دیجے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا حلف نامہ ممکن ہے یاد آجائے۔ ارشد ملک کیس میں تین ملزمان خرم یوسف، مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ کو بری کردیا گیا ہے۔ ناصر جنجوعہ، وہ شخص ہیں جن کا ارشد ملک کے بیان حلفی میں بار بار ذکر ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جن دنوں ہل میٹل، فلیگ شپ کے مقدمے کی سماعت ہورہی تھی انہیں دھونس دھمکی اور رشوت کی پیشکش کی جاری تھی۔ ایک نجی محفل میں، ناصر جنجوعہ انہیں سائیڈ پر لے گئے اور کہا آپ کو نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینا ہوگا ورنہ، انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا‘‘۔ بیان حلفی میں ناصر جنجوعہ کی نامزدگی کے باوجود رہائی دو باتوں کی نشاندہی بخوبی کرتی ہے۔ جج کا بیان حلفی بے وقعت اور ردی ہے۔ نمبر دو ہمارے عدالتی نظام میں اتنی سکت نہیں کہ ایسے تگڑے مجرموں کا کچھ بگاڑ سکے، جن کے مراسم دونوں طرف برابر ہوں۔

عدالتی نظام کی اس تصویر کے دونوں رخ سیاہ ہیں۔ ایک اور مقدمے پر غور کیجِیے۔ شاہد خاقان عباسی ملک کے سابق وزیراعظم، ایل این جی مقدمے میں نیب کے ریمانڈ پر ہیں۔ یہ ریمانڈ 11 دن سے بڑھ کر غالباً 45 دن کا تھا۔ خاقان عباسی جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے فارغ التعلیم ہیں۔ 88 سے 2002 عام انتخابات میں ناقابل شکست قابل سیاستدان رہے۔ وہ آج کل ایل این جی پر نیب اہلکاروں کو بلاواسطہ لیکچر دے رہے ہیں۔ کیونکہ نیب اہلکار جو ایل این جی کے مقدمے میں سابق وزیراعظم سے تفتیش کر رہے ہیں، وہ لیکویفائیڈ نیچرل گیس کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ممکن ہے ریمانڈ پینتالیس سے دن نوے دن تک ہوجائے۔ فرد جرم تو واللہ اعلم عائد ہو۔ مگر نیب اہلکار ایل این جی کا سبق اچھا یاد کرلیں گے۔

اس مقدمے سے جڑا ایک اور نام شیخ عمران الحق۔ 2015 میں جب یہ منصوبہ لگایا جارہا تھا تو پاکستان کی جی ڈی پی کو صرف اس لیے دو فیصد کا نقصان اٹھانا پڑا کہ پاکستان کے پاس پاور جنریشن کا کوئی خاص ذریعہ موجود نہیں تھا۔ توانائی پیدا کرنے کےلیے اس وقت ایل این جی ایک مناسب آپشن تھی۔ اب اس مقدمے میں ملک کے سینئر سیاستدان مفتاح اسماعیل، خاقان عباسی اور ملک کی نامور کاروباری شخصیت عمران الحق شامل ہیں۔ خاقان عباسی 45 دن، مفتاح اسماعیل 40 دن، عمران الحق ایک ماہ سے نیب کے ریمانڈ پر۔ نیب ابھی بھی پی ایس او، ایس ایس جی سی، اینگرو سے ریکارڈ منگوا رہا ہے۔ نیب کے پاس فرد جرم عائد کرنے کےلیے ثبوت ناکافی ہیں۔ نیب کی جانب سے گزشتہ ہفتے ٹرمینل کا دورہ کیا گیا، جبکہ پروجیکٹ کو مکمل ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ریٹس کے حوالے سے نیب کی جانب سے کوئی جواز نہیں پیش کیا گیا۔ کیا نیب کی ہتک آمیز کارروائیاں بغیر ثبوتوں کے انتقامی کارروائیوں کے علاوہ کچھ نہیں؟ قواعد و ضوابط کی معمولی خامیوں پر اتنے بڑے اقدامات سمجھ سے بالاتر ہیں۔

چند اہم سوالات ہیں۔ نمبر ایک، افراد کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا ہے، ایسے افراد کو گرفتار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جو تمام تفتیش میں تعاون کررہے ہیں؟ تفتیش گرفتار کرنے سے قبل کیوں نہیں کی گئی؟ کیا اس طرح کی کارروائیوں سے کاروباری سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی؟ براہ راست سرمایہ کاری میں کمی آئی۔ گزشتہ تین سال میں نیب کی جانب سے کتنے کیسز کا فیصلہ ہوا؟ اگر نیب کیسز غلط ثابت ہوئے تو احتساب کس کا ہوگا؟ کیا ادارہ جاتی احتساب کا کوئی نظام ہے؟ یقیناً ان سوالوں کے جواب نہ تو حکومت کے پاس ہیں، نہ نیب دے سکتا ہے۔

احتساب کی اس جنگ میں کولیٹرل ڈیمیج کا ڈیمیج یقیناً براہ راست ہماری معیشت کو ہورہا ہے۔ ایف آئی آر کا اندراج، قانونی چارہ جوئی، تفتیش، عدالت اور سزا کا عمل بہت پیچیدہ اور غیر فعال ہے۔ اس کی فعالیت کےلیے لازم ہے کہ ریفارمز پر توجہ دی جائے۔ وگرنہ لوٹی گئی ملک کی دولت کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم ملک کے سرمایہ داروں اور کاروبار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ شومئی قسمت اس نظام کی درستگی کےلیے ایسی حکومت سے کیا توقع رکھیں جس کا حال یہ ہے کہ جہاں ڈاکٹر کی ضروت تھِی وہاں موچی تعینات ہے، جہاں دھوبی درکار تھا وہاں حجام بیٹھا ہے۔

دوسرا اہم پہلو چیف جسٹس نے جس کی طرف اشارہ کیا، جمہوریت کی روح کو لاحق خطرات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلافی آواز کو دبانا جمہوری نظام کےلیے خطرہ ہے۔ احتساب میں سیاسی انجینئرنگ کا تاثر انتہائی خطرناک ہے۔ جج صاھب ڈھکے چھپے الفاظ میں بخوبی کہہ گئے کہ یہ دبی سہمی جمہوریت کا تسلسل جمہوریت کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ جب ہر اقدام دباؤ اور ذاتی عناد میں دب جائے تو اداروں کی تصاویر کے دونوں رخ بھیانک دکھائی دیتے ہیں۔ سو احتساب کے عین عروج پر ڈیل کا شوشا ہو، مائنس ون کی افواہیں ہوں، یا پھر بپھرنے اور بکھرنے کے درمیاں کنفیوز اپوزیشن کا کرادر ہو، سیاسی نظام کی تصویر ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نادیہ مرتضیٰ

نادیہ مرتضیٰ

بلاگر ٹیلی ویژن پروگرام ’’نیوز آئی‘‘ کی سینئر پروڈیوسر ہیں اور آج کل ’’ڈان نیوز‘‘ سے منسلک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔