سال کے پہلے 8 ماہ، سندھ میں 1 لاکھ 22 ہزار افراد سگ گزیدگی کا شکار

جنید خانزادہ  ہفتہ 21 ستمبر 2019
13 قیمتی جانیں بھی ضائع ہو چکیں، ہزاروں مریضوں نے پرائیویٹ اسپتالوں یا کلینک سے علاج کرایا. فوٹو : فائل

13 قیمتی جانیں بھی ضائع ہو چکیں، ہزاروں مریضوں نے پرائیویٹ اسپتالوں یا کلینک سے علاج کرایا. فوٹو : فائل

 حیدرآباد:  صوبہ سندھ میں کراچی کے بلدیاتی اداروں کو چھوڑ کر دیگر اضلاع کے بلدیاتی اداروں کی جانب سے آوارہ کتوں کے خلاف کتا مار مہم نہ چلائے جانے کے نتیجے میں یہ بدترین انکشاف ہوا ہے کہ سال رواں کے ابتدائی 8 ماہ (جنوری سے اگست تک) میں ایک لاکھ 22 ہزار سے زائد افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوچکے ہیں جن میں ہر عمر کے شہری، خواتین، بچوں اور بزرگ شامل ہیں۔

سگ گزیدگی کے نتیجے میں اب تک 13 قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔8 ماہ میں سول اسپتال حیدرآباد اور جام شورو میں سگ گزیدگی کے6 ہزار سے زائد مریض لائے گئے جبکہ ابتدائی 8 ماہ میں ضلع قمبر میں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ تقریباً 12 ہزار کے قریب افراد اور بچوں کو سرکاری اسپتال لایا گیا تو کراچی کے ضلع جنوبی میں 8 ماہ میں کتے کے کاٹنے کا صرف ایک واقعہ وہ بھی ماہ فروری میں رپورٹ ہوا تو اسی ماہ میں قمبر میں 2 ہزار سے زائد سگ گزیدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

ابتدائی 8 ماہ میں کراچی ڈویژن کے6 اضلاع میں سگ گزیدگی کے صرف560 واقعات رونما ہوئے جن میںضلع ملیر میں468 واقعات شامل ہیں۔ جن اضلاع میں یہ تعداد10 ہزار سے زائد ہے، ان میں قمبر کے بعد دادو اور نوشہرو فیروز بھی شامل ہیں۔ ماہ فروری میں پاک بھارت کشیدگی کے باعث بھارت نے اینٹی ڈاگ بائٹس ویکسین کی برآمد روک دی جس کے باعث سندھ بھر میں ویکسین کی کمی پیدا ہو گئی تھی۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر مسعود سولنگی نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ جنوری سے31 اگست تک سندھ بھر کے تمام اضلاع میں کتے کے کاٹنے کے ایک لاکھ 22 ہزار 566 واقعات رونما ہوچکے ہیں اور وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں یہ صرف ان مریضوں کی تعداد ہے جو ویکیسن کے لیے سندھ بھر میں سرکاری اسپتالوں تک پہنچے جبکہ ان میں ان ہزاروں افراد کی تعداد شامل نہیں جو کتے کے کاٹنے کے بعد سرکاری اسپتالوں کے بجائے پرائیویٹ اسپتال یا کلینک یا پھر دیسی نسخوں سے اپنا علاج کرتے ہیں۔

سندھ بھر کے29 اضلاع میں یکم جنوری2019 سے31 اگست 2019 تک سگ گزیدگی کے خوفناک اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ سندھ بھر کے261 سرکاری اسپتالوں و ڈسپنسریوں سے جمع شدہ اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی 8 ماہ میں سندھ بھر میں ایک لاکھ 22 ہزار566 واقعات رونما ہوئے تاہم یہ اعداد و شمار صرف سگ گزیدگی کے متاثرہ ان مریضوں کے ہیں جنھوں نے 29 اضلاع میں مذکورہ261 سرکاری اسپتالوں یا ڈسپنسریوں میں پہنچ کر (اے آر وی) ویکسین لگوائی۔

ایسے متاثرہ مریضوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو کتے کے کاٹنے کا شکار ہو کر سرکاری اسپتال پہنچے اور ویکیسن کی قلت کے باعث انھوں نے اپنی جیب سے ویکسین خرید کر پرائیویٹ اسپتال یا کلینک سے علاج کرایا جبکہ دیہی علاقوں میں کتے کے کاٹنے پر لوگ اپنے اپنے گھریلو نسخوں کے حساب سے بھی علاج کرتے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر مسعود سولنگی نے ایکسپریس اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ سندھ بھر میں سال کے ابتدائی8 ماہ میں کتے کے کاٹنے کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 22ہزار 566 تک جا پہنچی جبکہ اب تک اس وجہ سے13 قیمتی جانیں بھی ضایع ہو چکی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ12 مریض اپنے علاج معالجے کے لیے کراچی کے جناح اسپتال پہنچے اور وہاں ان کا انتقال ہوگیا جبکہ شکار پور کا معصوم بچہ10 سالہ میر حسن مرنے والوں کی فہرست میں13ویں نمبر پر تھا۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے پاس کتے کے کاٹنے کے بعد علاج کے لیے صرف سرکاری اسپتال میں لائے جانے والے مریضوں کا ہی ڈیٹا موجود ہے جبکہ ایسے مریضوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو پرائیویٹ علاج کراتے ہیں یا پھر خاص طور پر دیہی علاقوں میں دیسی طریقہ علاج یا دیسی نسخے استعمال کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین بھارت سے منگوائی جاتی ہے جو خاصی مہنگی ہوتی ہے اور ایک مریض کو 4 انجیکشن لگائے جاتے ہیں اور ایک انجیکشن ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔ اس وقت سندھ کے مختلف سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں اے آر وی کے 8900 وائلز موجود ہیں جبکہ ماہ فروری میں پاک بھارت کشیدگی کے باعث اے آر وی کی بھارت نے پاکستان کو سپلائی بند کر دی تھی جس کی وجہ سے قلت ہوئی تھی۔

ابتدائی7 ماہ میں سندھ بھر کے29 اضلاع میں ماہ جنوری میں 14595، فروری میں 17231، مارچ میں 17338، اپریل میں 17111، مئی 13971، جون میں 12279، جولائی میں 15206 اوراگست میں 14843 سگ گزیدگی کے واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں کی جانب سے طویل عرصے سے اپنے اپنے علاقوں کی بلدیاتی حدود میں آوارہ کتوں کو نہ مارنا بتائی جاتی ہے۔

ماضی میں ہر سال 2 سے 3 بار خصوصی طور پرکتا مار مہم چلائی جاتی تھی یا پھر عام طور پر زیادہ کتے دیکھ کر انھیں زہر سے بھرے کیپسول کھلائے جاتے تھے لیکن جہاں سندھ بھر میں بلدیاتی ادارے، کچرا اٹھانا بھول گئے وہیں کتا مار مہم بھی چلانا بھول گئے ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے ہر شہر، ہر تعلقہ کے تمام علاقے اور گاؤں اب آوارہ کتوں کے لیے ماحول دوست علاقوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے سندھ بھر میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں نہایت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اس سلسلے میں کئی بار ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کی جانب سے سیکریٹری بلدیات اور چیف سیکریٹری سندھ کو اس آمر سے آگاہ کیا گیا اور چیف سیکریٹری و سیکریٹری بلدیات کی جانب سے بلدیاتی اداروں کوآوارہ کتوں کے خلاف مہم چلانے کے لیے تحریری احکام بھیجے گئے تاہم ان احکام پر کان نہ دھرا گیا جس کے اب نہایت خوفناک نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔

اس حوالے سے کراچی کے 6 اضلاع میں یہ ریشو نہایت کم ہے۔کراچی ساؤتھ میں رواں سال کے 8 ماہ میں صرف ماہ فروری میں کتے کے کاٹنے کا ایک ہی واقعہ رپورٹ ہوا ۔ کراچی ویسٹ میں18، کراچی ایسٹ میں 19، کراچی سینٹرل میں23، کورنگی میں 31 اور ضلع ملیر میں 468 واقعات رپورٹ ہوئے۔

سگ گزیدگی کا سب سے کم ریشو، بچوں کی اموات کے باعث حکومت سندھ کے لیے پریشانی کا باعث بننے والا ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں پایا گیاجہاںاس عرصے کے دوران 873 واقعات ہوئے۔ آٹھویں نمبر پر ضلع حیدرآباد رہا جہاں سگ گزیدگی کے 1611واقعات ہوئے۔

ٹنڈو محمد خان میں 1697، سجاول میں 2068، ٹھٹھہ ضلع میں 2680، مٹیاری میں 2702، سکھر میں 2759، ٹنڈوالہ یار میں 3539 ، گھوٹکی میں 3936، میرپورخاص میں 4346، شہید بے نظیر آباد میں 4451، سانگھڑ میں 4608، جام شورو میں 5369، عمرکوٹ میں 5619، بدین میں 5816، لاڑکانہ میں 6207، شکار پور میں 6683، کشمور میں 7686، خیرپور میں 8958، نوشہروفیروز میں  10847، دادو میں 11330 اور ضلع قمبر میں سگ گزیدگی کے 11935 واقعات رونما ہوئے۔

واضح رہے کہ سندھ بھر میں بلدیاتی اداروں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن ، کراچی ہی میں واقع6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں3 میونسپل کارپوریشنز،25 ڈسٹرکٹ کونسلز، 37 میونسپل کمیٹیز اور 151 ٹاؤن کمیٹیز کے چیئرمینز میں95 فیصد کا تعلق سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی سے ہی ہے۔

29 اضلاع میں سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی میئر شپ ایم کیو ایم، کراچی کے 6اضلاع میں سے ایم کیو ایم کے پاس4ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کراچی ویسٹ، کراچی ایسٹ، کراچی سینٹرل اور کورنگی ہیں جبکہ دیگر 2ڈی ایم سیز کراچی ساؤتھ اور ملیر میں پی پی کے ڈسٹرکٹ چیئرمینز منتخب ہوئے ہیں جبکہ پورے سندھ میں 25 ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیئرمینز اور سکھر میونسپل کارپوریشن، لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن، قاسم آباد میونسپل کمیٹی سمیت 37 میونسپل کمیٹیز اور 151 ٹاؤن کمیٹیز میں سب سے زیادہ چئیرمین شپ بھی پی پی کے نامزد کردہ عوام دوستوں کے پاس ہے۔

بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کی میئر شپ اور میرپورخاص میونسپل کمیٹی کی چیئرمین شپ ایم کیوایم کے پاس ہے تاہم کراچی اور تھرپارکر میں نہایت کم سگ گزیدگی کے واقعات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کے 6 اور تھرپارکر کے بلدیاتی اداروں کے علاوہ لگتا نہیں ہے کہ اور دیگر بلدیاتی اداروں نے سگ گزیدگی کے خاتمے کے لیے سیکریٹری بلدیات یا چیف سیکریٹری کے احکام پر عمل کیا ہو۔

واضح رہے کہ حکومت سندھ ہر ماہ 3 ارب روپیہ ان بلدیاتی اداروں پر خرچ کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود جہاں کچرا نہ اٹھانے، صفائی ستھرائی نہ کرانے کی شکایات عام ہیں وہیں آوارہ کتوں کے خلاف مہم نہ چلائے جانے کے باعث سگ گزیدگی کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے ۔

پاگل کتے کا شکار، تشخیص کیلیے کوئی لیبارٹری نہیں

پنجاب اور سندھ سمیت ملک بھر میں کتے کے کاٹنے سے ’’پاگل پن‘‘ یعنی RABIES کی بیماری میں غیر معمولی اضافے کے باوجود ملک بھر میں سرکاری یا نجی سطح پر انسانوں میں ’’ریبیز وائرس‘‘ کی کھوج اور پہچان کیلیے لیبارٹری ٹیسٹ سہولت میسر نہیں۔

اسپتالوں میں مریضوں میں موجودعلامات کی بنیاد پر ریبیز کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ پاگل کتے کے کاٹنے پر علاج کیلیے یورپ کی تیار کردہ ویکسین کو دنیا بھر میں سب سے بہتر تصور جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت کی تیار کردہ ویکسین کو طبی حلقوں میں موثر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے حکومت پاکستان نے سستی ہونے کی بنیاد پر چین سے ویکسین منگوانا شروع کررکھی ہے جس پر طبی ماہرین اپنے تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔