کشمیریوں کو شدید معاشی بحران کا سامنا

دانش ارشاد  اتوار 22 ستمبر 2019
 حریک آزادی کشمیر کو کمزور کرنے کیلئے کشمیریوں کو بھارت کے مختلف حصوں میں منتقل کرنے کی سازش۔ فوٹو : فائل

 حریک آزادی کشمیر کو کمزور کرنے کیلئے کشمیریوں کو بھارت کے مختلف حصوں میں منتقل کرنے کی سازش۔ فوٹو : فائل

بھارت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میںکرفیو اور لاک ڈاؤن سے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور جمہوری آزادیاں سلب کی گئیں، وہاں کشمیریوں کو معاشی طور پرغیرمستحکم کئے جانے کی سازش بھی کی گئی ہے۔

موجودہ صورتحال میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث کشمیری معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ آرٹیکل370 میں ترمیم ایسے وقت میں کی گئی جب کشمیر میں معاشی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں سیاحت کے عروج کے ساتھ ساتھ مختلف انواع کے پھلوں کے تیار ہونے کا موسم بھی ہوتا ہے جبکہ سردیوں سے قبل ہاتھ سے بنی گرم شالوں کی ایکسپورٹ کا کاروبار بھی انہی دنوں عروج پر ہوتا ہے۔

باغبانی اور دستکاری کی صنعتیں کشمیر کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان صنعتوں سے کشمیر کے آٹھ لاکھ سے زائد خاندانوں کے تقریباً 43 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ تینتالیس لاکھ افراد اس موسم میں محنت کرتے ہیں تب سال بھر ان کا چولھا جلتا رہتا ہے۔ جب کشمیر میں لاک ڈاؤن ہو اور نقل و حرکت پر پابندی ہو تو بھلا یہ کام کیسے ہو سکتا ہے۔

ایسے میں باغبانی سے پیدا ہونے والے لاکھوں ٹن تازہ پھل اور خشک میوہ جات تباہ ہو رہے ہیں۔ سیب، ناشپاتی اور تازہ پھلوں کے بیوپاریوں میں تشویش ہے کہ فصل پک گئی لیکن منڈی تک نہیں لے جا سکتے، اب ایک سال تک ان پر بدحالی رہے گی، ان کے گھر کا چولھا تک جلنا مشکل ہو جائے گا۔ بھارت کے حالیہ اقدامات دراصل کشمیریوں کو معاشی طور پر بد حال کر کے بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کی سازش معلوم ہوتے ہیں، بھارتی پالیسی سازوں کا شاید خیال ہے کہ کشمیری معاشی طور پر بد حال ہوں گے تو وہ روزگار کیلئے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق2018ء میںاس صنعت سے1,956,331میٹرک ٹن تازہ پھلوں کی پیداوار ہوئی اس کے علاوہ 205,405 ٹن خشک میوہ جات کی پیداوار الگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت سے تقریباً 6000کروڑ روپے کا زرمبادلہ ریاست جموں و کشمیر کو آتا ہے جس سے آٹھ لاکھ خاندانوں کے چولھے جلتے رہتے ہیں۔

جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق 2018 ء میں سیب 1851723 میٹرک ٹن ، ناشپاتی61191 میٹرک ٹن، خوبانی 16156 میٹرک ٹن، آڑو2714 میٹرک ٹن،آلوچہ 7710میٹرک ٹن، چیری 11789 میٹرک ٹن، انگور 790 میٹرک ٹن، بہی 3710 میٹرک ٹن کے علاوہ کئی دوسرے پھل پیدا ہوئے۔ خشک میوہ جات میں اخروٹ 195066 میٹرک ٹن کے علاوہ بادام اور دیگر میوہ جات باغبانی کی بڑی پیداوار ہیں۔ سری نگر کے اخبار ’رائزنگ کشمیر‘ کے مطابق بھارت میں سیبوں کی کل پیداوار 27.5 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے 18.5 میٹرک ٹن صرف کشمیر میں ہوئی۔ یعنی کل پیداوار کا ستر فیصد کشمیر میں ہوتا ہے۔کشمیری سیب نہ صرف اندرون ملک بلکہ ساری دنیا کی مارکیٹ میں بھی پسندیدگی کا مقام رکھتے ہیں ۔

اس کے ساتھ دستکاری کی صنعت سے تقریباً تین لاکھ چالیس ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ جموں و کشمیر کی دستکاری دنیا میں قالین بافی، ریشم ، شال، باسکری، مٹی کے برتن ، تانبے اور چاندی کے برتن ، پیپر مچھ اور اخروٹ کی لکڑی جیسے چھوٹے پیمانے پر اور کاٹیج صنعتوں کے لئے مشہور ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء کے دوران ریاست میں 132میگا ٹن خام ریشم کی تیاری کی گئی تھی جس سے تقریباً 150,000میٹر ریشمی کپڑا تیار کیا گیا تھا اور ریاست سے کاٹیج ہینڈکرافٹس انڈسٹری کی کل برآمدات178.26ملین امریکی ڈالر رہیں تھیں۔

اس صورتحال میں یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ جہاں ان صنعتوں کی بندش کے باعث جموں وکشمیر کی بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو گا وہیں کشمیر کے پھلوں اور میوہ جات منڈی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے بھارت میں پھلوں اور خشک میوہ جات کی کس قدر قلت پائی جائے گی۔

اسی طرح سیاحت سے لاکھوں کشمیریوں کا روزگار وابستہ ہے۔2017 میں صرف وادی کشمیر میں 11 لاکھ سیاح آئے جبکہ 2018ء میں حالات کی خرابی کے باعث 8.5 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا۔اسی طرح جموں میں لاکھوں سیاح جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ڈل جھیل کے شکاروں سمیت پورا جموں و کشمیر ویران ہو چکا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل بند پڑے ہیں۔ یہ ریاست کی سیاحت اور ریاست کے باسیوںکیلئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔ اہل جموں وکشمیر کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے، لوگوں کا کاروبار نہیں رہا۔

٭بھارت کا کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور رکھنے کا ہتھکنڈہ

ایک طرف مقبوضہ جموں وکشمیر کو معاشی بدحالی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو لالی پاپ دینے کیلئے 50 ہزار نوکریوں کا اعلان سامنے آیا ہے۔2018 ء کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کی کل تعداد تقریباً 4.5 لاکھ ہے۔

جس میں ایک لاکھ سے زائد ڈیلی ویجز والے ملازمین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد پنشن حاصل کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ اگلے تین مہینوں میں ریاست میں 50 ہزار نوکریاں دستیاب ہوںگی جو جموں و کشمیر میں بحالی کی سب سے بڑی مہم ہوگی۔

معیشت کی تباہی کے بعد 50 ہزار نوکریوں کی کئی سکیموں کا اعلان ایک پیغام ہے کہ اب خود کفالت کے بجائے بھارت کے سہارے پر زندہ رہنا ہو گا کیونکہ اگر یہ نوکریاں مہیا بھی کی جاتی ہیں تو برسرروزگار افراد کی تعداد پانچ لاکھ ہو جائے گی ۔ تاہم اس موسم میں کشمیر سے پھل اور خشک میوہ جات کی ایکسپورٹ سے جو سال کی جمع پونچی اکٹھی ہوتی تھی اب کے بار وہ نہیں ہو سکے گی اور باغبانی اورکاٹیج ہینڈکرافٹس انڈسٹری پر انحصار کرنے والے تقریباً 43 لاکھ لوگوں کے روزگار کا کوئی متبادل نہیں ہوگا جو تشویش ناک ہے ۔

بھارت کی اس سازش کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کشمیری اپنی محنت سے سال بھر کا سامان کرنے کے بعد اپنی توجہ تحریک آزادی پر مرکوز رکھتے تھے، اب کے بار انھیں اس تحریک سے دور رکھنے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ وہ پیٹ کے ہاتھوں مجبور رہیں اور بھارت سے روزگار کی بھیک لینے پر مجبور ہوں ۔

ایسے میں بھارت روزگار کے بہانے انھیں دوسرے شہروں میں منتقل ہونے کی صلاح دے گا اور روزگار کیلئے مصروف کرنے اور تحریک آزادی سے دور رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرے گا۔ان سب اعلانات کے باوجود ہندوستان کی معیشت اس قابل نظر نہیں آتی جو کشمیریوں کو کوئی بڑا لالی پاپ دے سکے۔

بی بی سی کے مطابق سی ایم آئی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ملازمین کی تعداد 45کروڑ تھی جو کم ہو کر 41کروڑ رہ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ چار کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چھن گئی ہیں یا وہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ریزرو بنک آف انڈیا (آر بی آئی ) سے24 بلین ڈالر لینے کے اقدام نے مودی حکومت کی اقتصادی حالت کا پول کھول دیا ہے۔ اس صورتحال میں کشمیریوں کیلئے 50 ہزار نوکریوں کا اعلان لولی پاپ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کشمیر میں اقتصادی اور معاشی بحران میں مزید شدت پیدا ہونے کو ہے۔

٭کیا آرٹیکل 370 اور این آر سی ایشوز سے مودی حکومت اقتصادی بحران چھپا پائے گی؟

ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہندوستان میں مودی حکومت نے اس وقت یکے بعد دیگرے کئی نان ایشوز کو اس لئے ہوا دی تا کہ وہ بھارت کی گرتی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹا سکے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں’’اب کشمیر میں زمین خرید سکیں گے اور کشمیر سے شادی کریں گے‘‘ کے سلوگن کو پروان چڑھانا اور آسام میں 19 لاکھ لوگوں کی شہریت منسوخ کر کے وہاں معاشی استحکام کے دعوے کرنا دراصل ہندوستان کی گرتی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش بھی ہے۔

موجودہ صورتحال میں ہندوستان کی معیشت پر نظر ڈالی جائے تو بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق’’ 15 ماہ قبل انڈیا کی معیشت آٹھ فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی جو کہ گرتے گرتے اب پانچ فیصد کی سطح تک جا پہنچی ہے۔اصل میں یہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے کیونکہ سہ ماہی ترقی کی شرح کے اعداد و شمار منظم اور کارپوریٹ شعبے پر مبنی ہوتے ہیں۔ تین برسوں میں معیشت کو تین بڑے جھٹکے لگے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ سی ایم آئی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ملازمین کی تعداد 45 کروڑ تھی جو کم ہو کر 41 کروڑ رہ گئی ہے۔ چار کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چھن گئی ہیں یا وہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔

ہندوستانی معیشت میں سرمایہ کاری کی شرح 2012-13ّ ء میں سب سے زیادہ تھی۔ اس وقت سرمایہ کاری کی شرح 37 فیصد کی شرح سے ترقی پذیر تھی اور آج یہ 30 فیصد سے بھی کم ہو چکی ہے۔ جب تک سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا ترقی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومت کے ٹیکس کی وصولی میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال جی ایس ٹی میں 80 ہزار کروڑ کی کمی واقع ہوئی تھی اور براہ راست ٹیکس میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔ مجموعی طور پر سرکاری خزانے کو 1.6 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔‘‘

اسی طرح ایک دوسری رپورٹ کے مطابق’’ انڈیا کے ریزرو بینک نے مودی حکومت کو 24.8 ارب ڈالر یعنی تقریباً 1.76 لاکھ کروڑ روپے دیے ہیں۔ ریزرو بینک نے یہ رقم اپنے ’سرپلس اور ریزرو سرمائے‘ سے دی ہے۔ یہ رقم اس صورت میں دی جاتی ہے جب ملک میں اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اب اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

یہ اعداد و شمار اور رپورٹس ہندوستان کی معاشی صورتحال کو واضح کرتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں مودی حکومت کچھ عرصہ اپنے عوام کو نان ایشوز میں الجھا کر اقتصادی صورتحال سے نظریں چرا سکتی ہے تاہم زیادہ دیر ایسا کھیل ممکن نہیں۔

ہندوستان کے کئی آئی اے ایسافسران کے احتجاجی استعفے
دی وائر اردو کے مطابق کرناٹک کے آئی اے ایس افسر ایس ششی کانت سینتھل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک خط میں کہا کہ ’’ ا یسے وقت میں جب غیر معمولی طریقے سے جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، ایسے میں ان کا ایڈمنسٹریٹواہلکار کے طور پر حکومت میں رہنا غیراخلاقی ہوگا، ان کے مطابق’’ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک کے بنیادی ڈھانچے کے سامنے سخت چیلنج آنے والے ہیں اور سبھی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے میرا ایڈمنسٹریٹو سروس سے باہر رہنا بہتر ہوگا۔‘‘

اس سے قبل ای جی ایم یو ٹی کیڈر کے آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن نے جموں و کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیرل سے آنے والے گوپی ناتھن نے کہا کہ’’ آج سے بیس سال بعد اگر لوگ مجھ سے پوچھیںگے کہ جب ملک کے ایک حصے میں مجازی ایمرجنسی لگا دی گئی تھی تب آپ کیا کر رہے تھے تب کم سے کم میں یہ کہہ سکوںگا کہ میں نے آئی اے ایس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔‘‘

کشمیریوں کو کیا کرنا ہوگا؟
موجودہ صورتحال میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل قریب کیلئے مضبوط معاشی پلان سمیت پرامن تحریک کی طرف توجہ دینا ہو گی جس کا ذکر ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار نعیمہ احمد مہجور نے اپنے مضمون میں ان الفاظ میں کیا ’’میں نے بی بی سی کے ایک نامہ نگار سے پوچھا، جو میرے ہمراہ جلوس کی منظر کشی کر رہے تھے کہ کیا آپ کے خیال میں کشمیر پھرعالمی مسئلہ بن گیا ہے؟

’’کشمیریوں کو عالمی سطح پر اتنی حمایت کبھی نہیں حاصل ہوئی جتنی آج مل رہی ہے۔ وہ چاہے عالمی میڈیا ہو، عالمی ادارے ہوں، اراکین پارلیمان ہوں یا بارسوخ سیاست دان، کشمیریوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا ہوگا اور ہانگ کانگ کی طرز پر احتجاج درج کروانا ہوگا تاکہ حکومت بھارت پر اپنا فیصلہ واپس لینے اور جموں و کشمیر کے مستقبل کا دائمی حل تلاش کرنے پر دباؤ ڈالا جا سکے۔‘‘ انہوں نے میرے سوال کا جواب بے دھڑک دے دیا۔کشمیریوں کو پرامن تحریک چلانے کا ہنر سیکھنا ہوگا، اس کی تعلیم انہیں برطانیہ کے ان شہریوں سے حاصل کرنا ہوگی جو برگزٹ کے خلاف کئی ماہ سے پارلیمان کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس مظاہرے میں کبھی ایک شخص پرچم لیے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تو کبھی سینکڑوں افراد ۔ یا پھر ہانگ کانگ کے شہریوں سے سبق سیکھنا ہوگا جنہوں نے کئی ہفتے چینی حکام کی نیند حرام کر دی اور آخر کار چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔