معاشرے کی زبوں حالی (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 22 ستمبر 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ہمارے معاشرے میں جہالت، زبوں حالی اور اسلامی تعلیم کا فقدان عروج پر ہے ہر روز ایک نیا واقعہ جنم لیتا ہے کبھی زینب اور دوسری بچیوں کو بھیڑیے اٹھا کر لے جاتے ہیں تو کبھی صلاح الدین جیسے ذہنی مریض کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور طلبا پر اساتذہ کی لاتیں، گھونسے اور مولا بخش انھیں موت کی وادی میں پہنچا دیتا ہے۔

اذیت پسند لوگوں کا بھی ایک پس منظر ہے، جہاں وہ والدین کے لڑائی جھگڑوں، افلاس، غربت، بے توجہی کے باعث جنگلی پودوں کی مانند پروان چڑھتے ہیں، ساتھ میں ریاست کی غفلت اور وطن عزیز کی ترقی سے بے پرواہی، شہریوں کے حقوق سے دستبرداری، دولت پیسے کی ہوس نے معاشرے کو جنگل میں بدل دیا، جنگل میں بھی قوانین ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں نہیں۔ ارسطو نے کہا تھا تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا۔ اسلام نے آج سے 14 سو سال پہلے ہی عورت کے حقوق تفویض کردیے تھے۔

جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسی حوالے سے سورۃ النسا نازل کی، یہ سورۃ خاندانی معاملات کے بارے میں مفصل احکام کے ساتھ نازل کی گئی چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا اہم کردار ہوتا ہے، عورتوں کے حوالے سے تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ اسی لیے اس کا نام سورۃ النسا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے ان مظالم کی نہ صرف یہ کہ نشاندہی کی گئی بلکہ ان کے خاتمے کے لیے بھی ہدایات دی گئی ہیں، انسان کی باطنی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے نکاح و طلاق کے مفصل احکام بھی بیان کیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی بداعمالیوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور انھیں راہ راست پر لانے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہودیوں کے علاوہ عیسائیوں کو بھی خطاب میں شامل کرلیا گیا ہے اور انھیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

اسی سورۃ میں جہاد کے احکام، قتل کی سزائیں بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ اگر ہمارا معاشرتی نظام اسلامی تعلیمات کا عکاس ہوتا تو یقینی بات ہے ہر شخص اپنی جائز حدود میں رہ کر زندگی بسر کرتا، آج درندگی، معصوم بچوں کا اغوا، زیادتی اور قتل کی اصل وجہ نوجوانوں کا دربدر بھٹکنا اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط سے لاعلمی ہے ساتھ میں ازدواجی زندگی کے ثمرات سے محرومی ہے، وہ دیہات و قصبوں میں ڈھور ڈنگروں کی طرح پلے بڑھے بچے اور ان کے ماں باپ بھی پرورش اور تعلیم و تربیت سے ناواقف تھے کہ کس طرح ایک بچے کی پرورش کرکے معاشرے کا مفید شہری بنایا جاسکتا ہے۔

قصور وار وہ مدارس، مساجد اور ان کے علما دین بھی ہیں جنھوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا پاکستانیوں کی قومی زبان اردو ہے، عربی نہیں، جب کہ قرآن پاک عربی زبان میں نازل ہوا چونکہ اہل عرب عربی بولتے تھے، تو علما اور اساتذہ کا فرض تھا اور ہے کہ مدارس کے طلبا کو ترجمے سے پڑھاتے کم ازکم خاص خاص ان سورتوں کے تراجم کو کورس میں شامل کیا جاتا، جو انسان کو اچھا انسان بناتی ہیں، حقوق و فرائض اور اخوت و بھائی چارہ ایثار و ہمدردی کا سبق دیتی ہیں تو شاید آج زینب اور دوسری بچیوں اور بچوں کے قاتل شکاری نہ بنتے اور معصوم چڑیوں کو اپنے منہ میں نہ دبوچتے۔ یہ جہالت کی بلند ترین قسم ہے کہ بچوں کو ورغلا کر ویرانوں اور جنگلوں میں لے جاکر زیادتی کے بعد قتل کردیں۔

اس قسم کی تمام برائیوں کا حل شادی میں مضمر ہے۔ جونہی اولاد اس عمر کو پہنچے، جب شادی کرنے کا فرض والدین پر عائد ہوتا ہے تو پھر دیر کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔

عثمانی خلافت میں عائلی قوانین اور خصوصاً شادی کا قانون بے حد اہمیت کا حامل تھا، اکتوبر 1922 میں جس قانون کا نفاذ کیا گیا تھا اس کی چند شقیں شادی کی عمر 18 سے 25 سال اور جو شخص غیر شادی شدہ ہی رہنا چاہتا ہے یا کسی وجہ سے وہ اب تک شادی نہیں کرسکا ہے تو ریاست کا فرض تھا کہ وہ اسے ازدواجی زندگی گزارنے پر مجبور کرے اور اگر کوئی شخص بیماری کا عذر پیش کرے اور 25 سال کی عمر گزر جائے تب ریاست کی طرف سے میڈیکل چیک اپ ہوگا۔

اگر علاج کی ضرورت ہوگی تو علاج کی مکمل سہولت فراہم کی جائے گی، ورنہ عذر تسلیم کرلیا جائے گا اور اگر بغیر بیماری کے باوجود بھی وہ شادی کرنے سے منکر ہو تب اسے آمدنی کی 25 فیصد رقم ادا کرنی ہوگی، گویا یہ جرمانہ ہوگا اور یہ جرمانہ ان لوگوں کو ادا کیا جائے گا جو شادی کے خواہش مند تو ہیں مگر فرض کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہے۔

اس کے علاوہ جو بھی شخص مقرر کردہ عمر گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی وجہ کے شادی نہ کرے تو وہ کسی بھی سرکاری ملازمت کے لیے اہل نہیں ہوگا اور اگر پہلے ہی سے ملازم ہو تو برطرف کیا جائے گا۔ اس شخص کے لیے یہ قانون بنایا گیا تھا جس کی عمر پچاس سال ہو، صاحب حیثیت اور شادی شدہ ہو، تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا لازم ہوگا۔

اگر وہ عمل درآمد نہ کرے تب تین فقیروں کی کفالت اس کے ذمے ڈال دی جائے گی، جو شخص 18 سے 25 سال کے دوران شادی کرلے اور وہ آسودہ حال بھی نہ ہو تو ریاست اسے اس کے گھر کے قریب تر جگہ میں 150 سے 300 دونم تک زمین مفت فراہم کرے گی واضح رہے ایک دونم 900 میٹر ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی کوئی ہنرمند یا صنعت کار ہو تو اسے زمین کی بجائے 100 عثمانی لیرا بلاسود تین سال کے لیے قرضہ دیا جائے گا۔

اسی طرح 25 سالہ شادی شدہ شخص سے عسکری خدمت اس لیے نہیں لی جائے گی کہ اس کا کوئی بھائی نہیں ہے اور اگر ہے تو صحت مند نہیں ہے اور اسی طرح جس لڑکی کی شادی ہو جائے اور اس کے والدین کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے شوہر کو بھی عسکری خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا اور اگر 25 سال سے کم عمر میں کوئی نوجوان شادی کرے اور اس کے تین بچے بھی ہوں تو ان کی تعلیم کا تمام خرچہ حکومت برداشت کرے گی اور اگر بچے تین سے زیادہ ہوں تو تین کو مفت تعلیم باقی کو 13 سال کی عمر تک دس لیرا دیے جائیں گے اور جو عورت چار بیٹوں کی ماں ہو اسے اعزازی طور پر 20 لیرا ملیں گے۔

اور جو شخص تعلیمی امور کے لیے ریاست میں یا دیار غیر میں مقیم ہو اور شادی کو موخر کرنے کی درخواست پیش کرے تو اس کو تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی جائے گی اور اگر کسی کو دوسرے ملک میں جانا ہوگا تو اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے گا اگر یہ ممکن نہیں ہے تو اس سے اجازت لے گا اور اس کی مرضی سے شادی کرے گا اور یہ وعدہ بھی کرے گا کہ واپس آکر دونوں بیویوں کو برابری کے حقوق دے گا۔

دنیا کے کسی مذہب و نسل کے لوگوں میں برابری کے حقوق حاصل نہیں ہیں جہاں ریاست سے لے کر گھروں اور خاندانوں میں بھی ایک دوسرے کے لیے حقوق تفویض کیے گئے ہیں، تاکہ ہر شخص خوشی اور سکون کے ساتھ خود بھی جیے اور دوسرے کو بھی جینے دے اور اپنے سے کم درجے کے لوگوں کے لیے جینے کی راہیں ہموار کرے۔

ہمارے ملک پاکستان کے حکمرانوں کی مفاد پرستی، خود غرضی اور وطن عزیز سے غداری نے آج ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ایسے ایسے بھیانک واقعات نے جنم لیا ہے کہ سن کر دل دہل جائے، پسماندہ طبقوں میں رہنے والے جہلا کی تو بات ہی کیا، پڑھے لکھے لوگوں نے بھی لٹیا ڈبو دی ہے اور اپنی عزت کو سرعام نیلام کیا ہے، ویسے عزت دار شخص جب دوسروں کی بے عزتی کرتا ہے تب ہی اسے دین و دنیا میں اعلیٰ مقام نصیب ہوتا ہے ورنہ گردنوں میں سریا ٹھونکنے والے لوگ بہت جلد اپنے تکبر کے باعث ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔

حال ہی کا واقعہ ہے جب ایک 13 سالہ بچے کو محض 300 یا 600 روپے چرانے کے عوض بہادرآباد کے لڑکوں نے گرل سے باندھ کر اتنا تشدد کیا کہ وہ موت کی آغوش میں پہنچ گیا۔ اس بچے کا نام ریحان تھا وہ ایک غریب والدین کی اکلوتی اولاد تھا اور مارنیوالے دیکھنے سے تعلیم یافتہ اور امرا کی اولاد نظر آتے تھے۔

اس بچے سے عمر میں بھی بڑے تھے، ایک معمولی سی رقم پر بے بس اور کمزور بچے کی جان کے دشمن ہوگئے اور درندگی اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، اتنی رقم میں تو ایک برگر اور ایک کولڈ ڈرنک ہی آسکتی تھی اور آج کل تو فاسٹ فوڈ اگر امیروں کے لیے مخصوص ہے تو عام گھرانوں کے نوجوان بھی فاسٹ فوڈ کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔